ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایکسیس نا و کی رپورٹ جاری
نیویارک (ویب نیوز)
ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایکسیس نا و نے بھارت کومسلسل پانچویں سال انٹرنیٹ سروس کی بندش کرنے والے ممالک میں سرفہرست رہا قرار دیا ہے ۔ ایکسیس ناو کے ذریعے عالمی سطح پر ریکارڈ کیے گئے 187 انٹرنیٹ بندش میں سے 84 انڈیا میں ریکارڈ ہوئے۔ ان میں سے 49 شٹ ڈانز انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں ریکارڈ کیے گئے۔۔ انڈیا نے 2022 میں دنیا میں اب تک سب سے زیادہ انٹرنیٹ سروس بند کی۔ نیویارک میں قائم ڈیجیٹل حقوق کی تنظیم نے انٹرنٹ بند کرنے والے ممالک بارے رپورٹ جاری کر دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی بندشوںکے احکامات احتجاجی مظاہروں، جھڑپوں، اسکولوں کے امتحانات اور انتخابات سمیت مختلف مواقع پر جاری کئے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں 35ممالک میں کم از کم 187مرتبہ انٹرنیٹ کی بندشیں ریکارڈ کی گئیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022میں صرف غیر قانونی طور پر بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر میں 49بار انٹرنیٹ بند کیا گیا جس میں جنوری اور فروری 2022میں علاقے میں تین دن کی طویل بندشوں کے 16 احکامات شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ راجستھان میں حکام نے 12مختلف مواقع پر انٹرنیٹ بند کردیا جس کے بعد مغربی بنگال میں سات مرتبہ انٹرنیٹ بند کرنے کے احکامات جاری کئے گئے۔ کنٹرول کے آلات، استثنی کی ڈھال: 2022 میں انٹرنیٹ کی بندشیں کے عنوان سے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ2016سے عالمی سطح پرمجموعی طورپرجس قدر انٹرنیٹ پر بندشیں لگائی گئیںاس میں تقریبا 58فیصد حصہ بھارت کا ہے۔واچ ڈاگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکام نے کشمیر میں سیاسی عدم استحکام اور تشدد کی وجہ سے 49 بار انٹرنیٹ کی فراہمی میں خلل ڈالا۔ جنوری اور فروری 2022 میں تین دن کی بندش کے لیے متواتر 16 بار احکامات دیے گئے۔۔ سینئر بین الاقوامی قانون دان اور ایکسیس نو کے ایشیا پیسفک کے پالیسی ڈائریکٹررمن جیت سنگھ چیمانے کہاکہ گزشتہ سال بھارت نے دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ یعنی 84مرتبہ انٹرنیٹ بندکرنے کے احکامات جاری کئے۔ انہوں نے کہاکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہادجمہوریت میں بنیادی حقوق پر 84حملے ہیں۔ .Access Nowاور KeepItOn کوئیلیشن نے اپنی گزشتہ سال کی رپورٹ میں بتایا تھا کہ بھارت میں حکام نے 2021میں107مرتبہ انٹرنیٹ سروسز بند کردی تھیں۔ غیر ملکی اخبار نے ایکسیس نا و رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ کشمیر ایک طویل عرصے سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے۔ اگست 2019 میں وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم کرتے ہوئے اسے وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔اس کے بعد سے حکومت نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر خطے میں مواصلاتی پابندیاں لگا رکھی ہیں جن کی ڈیجیٹل حقوق کے گروپوں نے مذمت کی ہے اور اختلاف رائے کو ختم کرنے کے اقدامات کے طور پر بیان کیا ہے۔عسکریت پسند تین دہائیوں سے زائد عرصے سے کشمیر میں انڈیا کی حکمرانی کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ انڈیا پاکستان پر بغاوت کو ہوا دینے کا الزام لگاتا ہے جبکہ اسلام آباد ان دعووں کی تردید کرتا ہے۔