سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ دیا گیا، چیف جسٹس یا سینئر جج کا نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی
جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو زیادہ دیر ٹھہرتی نہیں،غلط فیصلہ غلط رہے گا چاہے اکثریت کا ہو
آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا، میری رائے کی اہمیت نہیں، رائے وہی ہوگی جو آئین میں لکھی ہو
جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی،ہر کوئی سر ہلانے لگے تو آمریت کی طرف اشارہ ہوگا
1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا، اس کے بیج بوئے گئے، یہ زہریلے بیج جسٹس منیر نے بوئے تھے ، آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاہے کہ آئین میں سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، کہیں نہیں لکھا کہ یہ اختیار چیف جسٹس یا سینئر جج کا ہے، جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو زیادہ دیر ٹھہرتی نہیں، غلط فیصلہ غلط رہے گا چاہے اکثریت کا ہو، آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا، میری رائے کی اہمیت نہیں، رائے وہی ہوگی جو آئین میں لکھی ہو، جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی، ہر کوئی سر ہلانے لگے تو آمریت کی طرف اشارہ ہوگا۔اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے سلسلے میں ”آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت”کے موضوع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم آئین پاکستان کی 50ویں سالگرہ منارہے ہیں، یہ میرے لئے کتاب نہیں، اس میں لوگوں کے حقوق ہیں، ہم اس آئین کی تشریح کرسکتے ہیں، آئین صرف سیاستدانوں، چند افراد، پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں، عوام کیلئے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو زیادہ دیر ٹھہرتی نہیں، 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا، اس کے بیج بوئے گئے، یہ زہریلے بیج جسٹس منیر نے بوئے تھے، فروری 1974 میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی، جس میں شیخ مجیب الرحمان کو بھی مدعو کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے جج نے مزید کہا کہ 1977 کے انتخابات پر الزامات لگے شفاف نہیں ہوئے، اس کے باوجود دونوں مخالفیں ٹیبل پر بیٹھے، دونوں فریقین میں معاملات طے ہوگئے معاہدے پر دستخط ہونا تھے، پھر ایک شخص آگیا جو 11 سال قوم پر مسلط رہا، عدالت سے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت ہوئی، پھر جمہوریت پسندی اور ریفرنڈم کا ڈرامہ کیا گیا، جب ریفرنڈم ہوتا ہے تو ٹرن آؤٹ 98 فیصد رہتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو سرکاری افسر نے ٹیک اوور کرلیا، نومبر 2007 کو آمر نے ایک اور غیر آئینی اقدام کیا، پرویز مشرف نے خود اپنے آپ کو آئینی تحفظ دے دیا، غلط فیصلہ غلط رہے گا چاہے اکثریت کا ہو۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس منیر صاحب کا فیصلہ صحیح تھا یا نہیں، ریفرنڈم ہونا چاہئے، تاریخ ہمیں 7مرتبہ سبق دے چکی ہے، آئین کا ہم پر زیادہ بوجھ ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، نفرتوں کے بیج بوکر ہم کیا پاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا، آئین پر کئی وار ہوئے لیکن وہ آج بھی کھڑا ہوا ہے، 18 ویں ترمیم میں پرانی غلطیوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی، میری رائے کی اہمیت نہیں، رائے وہی ہوگی جو آئین میں لکھی ہو۔ جسٹس قاضی فائز نے مزید کہا کہ الیکشن میں شفافیت کیلئے نگراں حکومتوں کا تصور دیا گیا، جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نہیں سمجھتا ناراضگی ہے یا ہونی چاہئے، ہر کوئی سر ہلانے لگے تو آمریت کی طرف اشارہ ہوگا، انصاف اور حقوق کیلئے عدالتیں ہی ہوتی ہیں، ہر چیز کو اپنی جگہ پر ہونا لازمی ہے۔ قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین میں سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، کہیں نہیں لکھا کہ یہ اختیار چیف جسٹس یا سینئر جج کا ہے، ازخود نوٹس شق سے متعلق پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں کے الیکشن پر اپنی رائے نہیں دوں گا، اپنی رائے دینے سے قبل دوسروں کی رائے سننا چاہوں گا، کہیں نہیں لکھا سپریم کورٹ کے لامحدود اختیارات ہیں، میری رائے میں 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کرسکتا ہے، آئین یہ نہیں کہتا، اگر کہتا ہے تو بتادیں، شق بتادیں میری اصلاح ہوجائے گی، میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا کہ ہم وفاق کو بھول چکے ہیں، 18 ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے، وفاق نے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کردیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بری چیز تکبر اور انا ہے، کسی عہدے پر ہوں تو آپ میں انا نہیں ہونی چاہئے، جس دن مجھ میں انا آگئی پھر میں جج نہیں رہا، اختلاف سے انا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔