- پارلیمنٹ کی توہین کے مرتکب ملزم کو 6 ماہ قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزائیں دی جا سکیں گی،بل
- قانون بنانے اور تبدیلی کا اختیار صرف پارلیمان کا ہے،اعظم نذیر تارڑ
- یہ تاریخ بن رہی ہے کہ پارلیمنٹ کا ریکارڈ سپریم کورٹ مانگ رہی ہے،شاہدہ اختر علی
- تاریخ یہ بھی بن رہی ہے کہ پارلیمنٹ نے سٹینڈ لیا، یہ سٹینڈ پہلے لے لیا جاتا تو بہتر ہوتا،اسلم بھوتانی
- پہلے سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو بااختیار بنایا جائے، پہلے خود کو بااختیار بنا لیں پھر پارلیمنٹ کی عزت کی بھی بات کر لیں گے،ریاض مزاری
اسلام آباد (ویب نیوز)
توہین پارلیمنٹ بل 2023 کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی۔قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا، جس میں رکن قومی اسمبلی رانا قاسم نون کی جانب سے مجوزہ بل پیش کیا گیا۔۔مجوزہ بل میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے لئے توہین پارلیمنٹ کا قانون تجویز کیا گیا ہے۔توہین پارلیمنٹ کا مسودہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ میں رائج قوانین کی روشنی تیار کیا گیا ۔توہین پارلیمنٹ بل میں قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔بل کے مطابق پارلیمانی کمیٹی توہین پارلیمان پر کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدار کو طلب کر سکے گی۔پارلیمنٹ کی توہین کے مرتکب ملزم کو 6 ماہ قید اور 10 لاکھ جرمانے کی سزائیں دی جا سکیں گی۔ بل میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ 24 رکنی کمیٹی توہین پارلیمنٹ کیسز کی تحقیقات کرے گی۔کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے 50-50 فیصد اراکین کو شامل کیا جائے گا۔بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی شکایات کی رپورٹ پر اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کو سزا تجویز کرے گی۔سپیکر یا چیئرمین سینیٹ متعلقہ شخص کے خلاف سزا کے تعین کا اعلان کر سکیں گے۔ حکومت نے توہین پارلیمنٹ بل کی حمایت کر دی۔وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قانون بنانے اور تبدیلی کا اختیار صرف پارلیمان کا ہے۔اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ پارلیمان نے یہ اختیار قائمہ کمیٹیوں کو دیا ہوا ہے، قانون پاس اور مسترد کرنے کا حق اس ایوان کا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جن اداروں نے آئین کی تشریح کرنی ہے وہ بھی اس ایوان کے تقدس کا خیال رکھیں، آئین کے دائرے میں رہا جائے تو اداروں میں تصادم نہیں ہو گا، یہ مجوزہ قانون بہت اچھا ہے اسے بننا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ اس بل کو قائمہ کمیٹی کو بھجوایا جائے، وزارت قانون اس میں مزید بہتری لائے گی، اس قانون کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے، ہم اسے مزید بہتر بنائیں گے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی اسلم بھوتانی نے کہا کہ میڈیا پر خبر چلی کہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا جائے۔اسلم بھوتانی کا کہنا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کا خط ریکارڈ دینے کے حوالے سے آیا ہے، اٹارنی جنرل کا خط وزارت قانون کو بھجوایا ہے۔انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے ریکارڈ سپریم کورٹ کو دینے کے حوالے سے نہیں کہا گیا۔اس موقع پر شاہدہ اختر علی نے کہا کہ یہ تاریخ بن رہی ہے کہ پارلیمنٹ کا ریکارڈ سپریم کورٹ مانگ رہی ہے۔ چیئرمین کمیٹی اسلم بھوتانی نے کہا کہ تاریخ یہ بھی بن رہی ہے کہ پارلیمنٹ نے سٹینڈ لیا، یہ سٹینڈ پہلے لے لیا جاتا تو بہتر ہوتا، ہم پارلیمان کی عزت بڑھانے جا رہے ہیں، کافی لوگوں کو پارلیمان کو یہ عزت کھٹکے گی۔ان کا کہنا ہے کہ قائمہ کمیٹی میں بل پر بحث ہو جائے تو اتفاق رائے ہو جائے گا، ایک دو روز میں اس پر قائمہ کمیٹی میں بحث کرا لی جائے تاکہ اعتراض رہ نہ جائے۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ریاض مزاری نے کہا کہ یہاں بھی جو بدتمیزی کرے اس پربھی کارروائی کریں، ایوان میں ارکان موبائل استعمال کر رہے ہوتے ہیں، یہ ہوتی ہے پارلیمان کی عزت۔ریاض مزاری کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کی بات سننا نہیں چاہتے نعرے لگتے ہیں، جو چاہتا ہے کسی کی بھی پگڑی اچھال دیتے ہیں، الزام تراشیاں کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو بااختیار بنایا جائے، پہلے خود کو بااختیار بنا لیں پھر پارلیمنٹ کی عزت کی بھی بات کر لیں گے۔