ساؤتھ پنجاب میں انڈسٹری، ایکڈیمیا اور ویمن ایمپاورمنٹ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیمان طاہر

وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یارخان

جنوبی پنجاب پاکستان کا وہ خطہ ہے جس کی پہچان اس کا شاندار ثقافتی ورثہ اور عزم و ہمت  والے عوام   ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں اس علاقے میں ترقی کی رفتار میں تیزی آئی ہے،نئی جامعات ، اداروں اور صنعتوں کے قیام نے اس خطے کی خوشحالی میں کلیدی کردار اداکیا ہے ۔ خاص طور پر تعلیم و صنعت کے درمیان ربط اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے حکومتی اور نجی شعبوں نے خاص طور پر کام کیا ہے ۔ انڈسٹری، ایکڈیمیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کی ان کوششوں سے خطے کی اقتصادی حالت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے جس نے معاشرے کی فلاح کیلئے سمت کا تعین کردیا ہے ۔ تاریخی پس منظر کو دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب میں صنفی عدم مساوات ، خواتین کیلئے  تعلیم و روزگار کے حوالے سے محدود وسائل  اور کچھ حلقوں میں سخت گیر سماجی روایات نے خواتین کی صلاحیتوں  کو متاثر کیا اور علاقائی اور قومی ترقی میں ان کا کردار بھی محدود رہا ۔ تاہم حالیہ کچھ سالوں میں مختلف سٹیک ہولڈرز بشمول تعلیمی اداروں ، صنعتی رہنمائوں اور دیگر کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے خطے میں تبدیلی آئی ہے۔  اس حوالے سے صنعتوں نے سب سے اہم کردار کرتے ہوئے انہیں ملازمتوں کے مواقع فراہم کرکے انہیں معاشی طور پر خود مختار کیا۔  کئی نامور کمپنیوں نےخواتین کی صلاحیتوں پربھروسہ کرتے ہوئے انہیں روزگار فراہم کیا اور انہیں بااختیار بنانے میں اپنا کردار اداکیا۔ اس طرح اس خطے کی خواتین  ٹیکسٹائلز ،ذراعت، مینوفیکچرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نمایاں طور پر نظر آنے لگیں۔  کام کے مقام پر صنفی مساوات سے صنعتوں نے جہاں انہیں ترقی کے سفر میں شامل کیا وہیں خواتین کے اچھوتے اور منفرد خیالات سے  ان کمپنیوں کو نئے نئے آئیڈیاز بھی ملے۔

ایکیڈیمیا کی بات کریں تو تعلیمی اداروں نے خواتین کو باصلاحیت اور باختیار بنانے میں مرکزی کردار اداکیا۔ تعلیمی اداروں کی جانب سے خواتین کی تعلیم، ان کو ہنر مند بنانے اور ان کی انٹرپرینیورشپ سکل میں اضافہ کرنے کے خصوصی کورسز ترتیب دیئے گئے ۔ سکالر شپ ، رہنمائی کے خصوصی پروگرامز اور تربیتی ورکشاپس رکھی گئیں جس سے انہیں اعلیٰ تعلیم کے حصول اور پیشہ ورانہ زندگی کے آغاز کے مواقع میسر آئے۔ ایکیڈیمیا اور صنعت کے باہمی تعاون کی بدولت پیشہ ورانہ تربیتی مراکز اور اپرنٹس شپ  کے مراکز قائم  ہوئے جنہوں نے نوجوانوں خصوصا خواتین کو باہنر بنایا اور ان کے لیے ملازمت کے حصول کے امکانات میں اضافہ کیا۔  صنعت اور اکیڈمی کے انضمام نے جہاں  خواتین کو بااختیار بنانے کے دروا کیے  وہیں معاشرے میں نمایاں تبدیلی بھی متعارف کرائی۔ جب  خواتین کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم اور کام کی جگہ پر نظر آئی تواس سے  معاشرے  میں آنے والا بدلائو بھی محسوس کیاگیا۔ خیالات  میں تبدیلی نے خواتین کے حوالے سے دقیانوسی  تصورات کو کم کیا اور یوں عمومی مردوں کا معاشرہ سمجھے جانے والے اس سماج نے دیکھا کہ بااختیار خواتین معاشرے میں مثبت تبدیلی اور خوشحالی کا باعث بن رہی ہیں۔

اس سب کے باوجود اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ابھی اس ضمن میں بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے۔جنوبی پنجاب میں بااختیار خواتین کے خواب کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنانے کے لیے ابھی بھی کئی چیلنجز سے نبرد آزما ہونا ہے۔ دقیانوسی تصورات کی جڑیں  کئی مقامات پر ابھی بھی موجود ہیں۔ وسائل تک منصفانہ رسائی یقینی بنانے کے لیے ابھی مزید اقدامات کرنا ہوں گے جب کہ کئی ایسے خلا ہیں جنہیں انڈسٹری اور ایکڈیمیا نے ابھی پر کرنے ہیں۔  اس حوالے سے خصوصی سرمایہ کاری ، خصوصی اقدامات، خصوصی تربیت اور خصوصی مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صنفی عدم مساوات کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے۔

خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یار خان خطے میں انڈسٹری ، ایکڈیمیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ایک اہم کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ اپنے قیام سے اب تک خواجہ فرید یونیورسٹی نے تعلیم، ملازمتوں کے مواقعوں کی فراہمی اور سوشو اکنامک پالیسیوں کی بدولت خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔  خواجہ فرید یونیورسٹی نے خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کو آسان بنانے کے لیے خاص طور پر پالیسیاں ترتیب دیں، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی  سمیت جدیدعلوم کےمتعدد شعبوں میں  بی ایس اور ایم ایس کے پروگرامز شرو ع کیے اور خواتین کے لیے خصوصی سکالر شپس کا اعلان کیا تاکہ وہ عموما مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جانے والے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔  خواجہ فرید یونیورسٹی ایسی ریسرچ کو فروغ دے رہی ہے جو انڈسٹری اور ایکڈیمیا دونوں کے لیے مفید ہو جو اپلائیڈ ہونے کےبعد معاشرے کی ترقی کاباعث بنے۔ خواجہ فرید یونیورسٹی انڈسٹری کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتی ہے، اگر جامعات صنعتوں کو درپیش مسائل کا حل پیش کردیں تو اس سے صنعتی ترقی کے ساتھ روزگار کے مواقعوں میں بھی اضافہ ہوگا جس سے خوشحالی کا سفر مزید تیز تر کیاجاسکتاہے۔باہمی تعاون کی بدولت جہاں تعلیمی معیار میں بہتری آرہی ہے وہیں مقامی صنعتوں کو بھی گھر کی دہلیز پر مسائل کے حل میسر آرہے ہیں۔خواجہ فرید یونیورسٹی کے انڈسٹری ایکیڈیمیا لنکجزاور خواتین کو بااختیار بنانے میں کردار کوخطے میں نمایاں طور پر محسوس کیا جارہاہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طالبات انجینئرنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، فوڈ سائنسز، ریسرچ اور انٹرپرینیورشپ  میں اپنا نام بنا چکی ہیں اور روایتی بندشوں کو توڑ کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔

ان کوششوں نے جنوبی پنجاب میں ایک مثبت تبدیلی کو متعارف کرایاہے۔ خطے میں خواتین کی تعلیم، ملازمت اور روزگار کی شرح میں میں ایک نمایاں اضافہ دیکھا جارہاہے۔اس حوالے سے جن مزید اقدامات کی ضرورت ہے ان پر بروقت عمل پیرا ہوکر ترقی کے اس سفر کو تیز تر کیاجاسکتاہے۔