- ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے،چیف جسٹس عمرعطا بندیال
- الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل شروع کریں لیکن میں کچھ کہنا چاہتا ہوں،اٹارنی جنرل
- آپ صفائیاں نہ دیں عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے،چیف جسٹس عمرعطابندیال
- عدالت نے کہا تھا نظر ثانی درخواست میں الیکشن کمیشن کے اٹھائے گئے نکات پہلے کیوں نہیں اٹھائے ،اٹارنی جنرل
- حکومت کی نہیں اللہ کی رضاکیلئے بیٹھے ہیں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں،چیف جسٹس
- انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتا ،وکیل الیکشن کمیشن
- دائرہ کار پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے،جسٹس منیب اختر
- آئین میں تو نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی،جسٹس اعجازالاحسن
- ڈیڑھ سو سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظر ثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے،چیف جسٹس
- عدالت نے سماعت جمعرات کو سوا 12 بجے تک ملتوی کردی
اسلام آباد (ویب نیوز)
پنجاب میں انتخابات پر نظرِ ثانی کی درخواستوں پر سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لیے چپ بیٹھے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دائر نظرِ ثانی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل دلائل شروع کریں لیکن میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل عدالت نے کہا تھا نظر ثانی درخواست میں الیکشن کمیشن کے اٹھائے گئے نکات پہلے کیوں نہیں اٹھائے تھے، دوسرا نقطہ تھا وفاقی حکومت پہلے 3-4 رکنی بینچ کے چکر میں پڑی رہی۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک صوبے میں انتخابات ہوں تو قومی اسمبلی کا الیکشن متاثر ہونے کا نقطہ اٹھایا گیا تھا اور اپنے جواب میں 3-4 کا فیصلہ ہونے کا ذکر بھی کیا تھا۔اٹارنی جنرل کے نکات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کو خوش آمدید کہا، گڈ ٹو سی یو کہا، آپ کو گھبرانا نہیں چاہیے، عدالت آپ کی سماعت کے لیے بیٹھی ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی معقول نقطہ اٹھایا گیا تو جائزہ لے کر فیصلہ بھی کریں گے، عدالت میں نقطہ اٹھایا گیا لیکن اس پر بحث نہیں کی گئی، کل نظر ثانی کے دائرہ اختیار پر بات ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ماضی کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کریں گے، حکومت کی نہیں اللہ کی رضا کے لیے بیٹھے ہیں، بہت سی قربانیاں دے کر یہاں بیٹھے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ اپنے لوگوں سے کہیں کہ ہمارے دروازے پر ایسی باتیں نہ کریں، ایوان میں بھی کھڑے ہوکر سخت باتیں نہ کریں، ہم اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اس لئے چپ بیٹھے ہیں۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن جس ہستی کا کام کر رہے ہیں وہ بھی اپنا کام کرتی ہے، آپ صفائیاں نہ دیں عدالت صاف دل کے ساتھ بیٹھی ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہماری ہر چیز درست رپورٹ نہیں ہوتی، کہا گیا عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی، میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا، پولیس نے عمران خان کی مرسیڈیز کا بندوبست کیا تھا، اس بات کو پتا نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا، ہم نے آپ کو خوش آمدید کہا، گڈ ٹو سی یو کہا۔ دریں اثنا الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے روسٹرم پر آکر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہمیشہ آئین کی تشریح زندہ دستاویز کے طور پر کرتی ہے، انصاف کا حتمی ادارہ سپریم کورٹ ہے اس لیے دائرہ کار محدود نہیں کیا جاسکتا، مکمل انصاف اور آرٹیکل 190 کا اختیار کسی اور عدالت کو نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 150 سال کی عدالتیں نظیریں غیر موثر ہوگئی ہیں، ڈیڑھ سو سالہ عدالتی نظیروں کے مطابق نظر ثانی اور اپیل کے دائرہ کار میں فرق ہے، اس سوال کا جواب آپ نے کل سے نہیں دیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دائرہ کار پر آپ کی دلیل درست مان لیں تو سپریم کورٹ رولز کالعدم ہو جائیں گے، سپریم کورٹ رولز میں نظر ثانی پر ابھی تک کوئی ترمیم نہیں کی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ دائرہ کار بڑھایا تو کئی سال پرانے مقدمات بھی آجائیں گے، کیسے ہو سکتا ہے سپریم کورٹ رولز کا نظرثانی سے متعلق آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہو، آرڈر 26 پورا لاگو نہ ہونے سے نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 10 سال بعد کوئی نظر ثانی دائر کر کے کہہ سکتا ہے رولز مکمل لاگو نہیں ہوتے، آپ کو شاید اپنی دلیل مانے جانے کے نتائج کا اندازہ نہیں ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں تو نظر ثانی دائر کرنے کی مدت بھی نہیں دی گئی، کیا فیصلے کے 20 سال بعد نظر ثانی دائر ہو سکتی ہے۔وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ نظر ثانی دائر کرنے کے لیے مقرر کردہ مدت ختم نہیں ہونی چاہیے، سپریم کورٹ رولز بنانے والوں نے آئینی مقدمات میں دائرہ کار محدود نہیں رکھا، ملک کے تین بہترین ججز کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر رہا ہوں جبکہ وقت کے ساتھ قانون تبدیل ہوتا رہتا ہے۔عدالت نے کہا کہ 70 سال میں یہ نکتہ آپ نے دریافت کیا ہے تو نتائج بھی بتائیں، نظر ثانی کا دائرہ کار سپریم کورٹ رولز میں موجود ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ رولز، نظر ثانی کے آئینی اقدام پر قدغن نہیں لگا سکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دفعہ 184/3 کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، احساس ہوا ہے کہ اس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں، آپ کی نظر میں نظر ثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظر ثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا سیکیورٹی اور فنڈز دے دیں انتخابات کروا دیں گے، اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے؟۔الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کی نظر میں نظر ثانی کا دائرہ محدود ہونا درست نہیں ہے، آپ چاہتے ہیں نظر ثانی میں دائرہ وسیع کیا جائے، اس نقطے پر اٹارنی جنرل سے رائے لیں گے، اب اصل مقدمہ کی جانب آئیں اس پر بھی دلائل دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 9 رکنی بینچ نے اپنے حکم میں اہم سوالات اٹھائے تھے، سیاسی جماعتوں کے مفادات کہیں اور جڑے ہوئے تھے، قانونی نکات پر دلائل کے بجائے بینچ پر اعتراض کیا گیا، سات رکنی بینچ عدالت کے حکم پر بنا ہی نہیں تو 4/3 کا فیصلہ کیسے ہوگیا۔ان کا کہنا تھا کہ عدالت دو منٹ میں فیصلہ کر سکتی ہے کہ نظر ثانی خارج کی جاتی ہے تاہم عدالت قانونی نکات سن کر فیصلہ کرنا چاہتی ہے، الیکشن کمیشن نے صدر کو وہ صورتحال نہیں بتائی جو عدالت کو اب بتا رہے ہیں، صدر کو صرف تاریخ دینے کا لکھا گیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتی ہے، الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک دن انتخابات کی ایڈوائس کیوں نہیں دی اور نہ سیکیورٹی اور نہ فنڈز کا بتایا، زمینی حالات کا ذکر کیے بغیر کہا جا رہا ہے 218/3 کے تحت مزید اختیارات دیے جائیں، آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی، 16 ہزار ملازمین کے کیس میں نظر ثانی خارج ہوئی لیکن عدالت نے 184/3 اور 187 کا اختیار استعمال کیا اور ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے ججز کیس میں از خود نوٹس کیس پر نظر ثانی کی تھی۔بعد ازاں پنجاب انتخابات میں نظرِ ثانی کی درخواستوں پر مزید سماعت آج (جمعرات کو) سوا 12 بجے تک ملتوی کردی گئی۔