• ہدایت الرحمن ملکی  سالمیت، وحدت اور یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں،  آئین اور قانون کی حکمرانی کا دم بھرتے ہیں
  • امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط

لاہور (ویب نیوز)

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس عمر عطا بندیال سے کہا ہے کہ  اب جبکہ عدالت عظمی فیصلہ صادر کر چکی ہے کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری غیر قانونی ہے اس لئے حق دو گوادرتحریک کے سربراہ   مولانا ہدایت الرحمن  کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر رہائی کا حکم صادر کریں ،ان کے خلاف تمام جھوٹے مقدمات ختم کریں تاکہ یہ تاثر قائم ہوکہ پاکستان میں دو نہیں” ایک پاکستان” ہے   اور یہ کہ عدالتیں آزاد ہیں اور اس میں اشرافیہ اور عام آدمی کے لئے دہرا معیار نہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان ، جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں سراج الحق نے  کہا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمن پاکستان کی سالمیت، وحدت اور یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں،  آئینِ پاکستان اور قانون کی حکمرانی کا دم بھرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ گوادر کے عوام کو ا ن کے بنیادی حقوق دئے جائیں جس کا آئین ِپاکستان نے وعدہ کیا ہے۔عوام کو صاف پانی، بجلی، گیس، سکول، کالجز اور ہسپتال دئیے جائیں۔ ماہی گیروں کو سمندر میں رزق کمانے کا حق برقرار رکھا جائے اور ٹرالر مافیاز کا خاتمہ کیا جائے۔  بارڈر ٹریڈ بحال کی جائے تاکہ بے روزگاری اور مہنگائی ختم ہو۔ڈرگ مافیاز اور بھتہ  خور انتظامیہ سے نجات دلائی جائے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے لکھا ہے کہ میں آپ کی توجہ صوبہ بلوچستان کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو ایک عرصہ سے سیاسی، معاشی اور سماجی مشکلات کا شکار ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ وسائل رکھنے والا صوبہ ہے مگر بد امنی، کرپشن اور معاشی ناہمواریوں کا شکار ہے۔ حکومتوں کے متعدد  اقدامات نے بھی صوبہ بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہونے دیا۔ ضلع گوادر میں ایک عرصہ سے معاشی  اورسیاسی بے چینی ہے۔ یہاں کے عوام کو سرداروں ، کرپٹ انتظامیہ اور مافیاز کے گٹھ جوڑ نے نچوڑ رکھا ہے۔ بنیادی انسانی سہولتیں اور کاروبارکے فقدان نے احساس محرومی اور غم وغصہ میں اضافہ کیاہے۔  انہوں نے لکھا ہے  جماعت اسلامی نے صوبہ بلوچستان میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کرکے قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔”حق دو گوادرتحریک” (جس کی قیادت جماعت اسلامی صوبہ بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن صاحب کر رہے ہیں) نے گوادر کے مسائل کو اجاگر کیا ۔  پاکستان خصوصا بلوچستان بھر کے عوام میں اس کی  پزیرائی ہے ۔معاشرے کے ہر طبقے نے اس امر پراطمینان کا اظہار کیا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمن  کی جدوجہد سیاسی، پرامن،  آئین اور قانون کے دائرے کے اندر ہے۔2021 میں "حق دو گوادر تحریک” کے ایک ماہ کے دھرنے نے ملک بھر کی رائے عامہ اور قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کیا بلکہ سب نے تحریک کے مطالبات کو جائز قرار دیا۔ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت نے معاملات کو سلجھانے کے لئے بنیادی کردار ادا کیا ، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور”حق دو گوادر تحریک ” کے مابین  مذاکرات کی راہ ہموار کی جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت نے ان سے مذاکرات کئے ،ان کے مطالبات کو جائز تسلیم کیا اور قومی وبین الاقوامی میڈیا کے سامنے وزیر اعلی بلوچستان نے ایک تحریری معاہدہ پر دستخط کئے۔سراج الحق نے لکھا ہے کہ صوبائی حکومت نے تحریری معاہدے پر ایک سال تک عمل درآمد نہ کیا چنانچہ "حق دوگوادرتحریک” نے 2022 کے اواخرمیں دوسری مرتبہ دو ماہ کا طویل دھرنا دیا۔ جب حکومت اور انتظامیہ نے احتجاجی دھرنے پر سنجیدہ طرز عمل اختیار کیا نہ وعدوں پرعمل درآمد کا عندیہ دیا، تو "حق دو گوادرتحریک” احتجاج کے اگلے مرحلے میں داخل ہوگئی۔اس موقع پروفاقی حکومت اور انتظامیہ نے جماعت اسلامی پاکستان کی قیادت سے تعاون کی درخواست کی ۔ ابھی ہم نے اپنی کوششوں کا آغاز ہی کیا تھا کہ حکومت اور انتظامیہ نے دھونس، دبا  اوردھمکی کا روایتی حربہ استعمال کیا اور پھر کچھ مفاد پرست سرداروں کے ایما پر اچانک   دھرنے پر دھاوا بول دیا  گیا، آنسوگیس استعمال کی ، مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا، بہیمانہ تشدد کرکے خواتین اور مظاہرین کو زخمی کردیا اوربے گناہ لوگوں کو گرفتار کرکے  جھوٹے مقدمات قائم کردئے۔  پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پولیس نے نجی املاک اور گاڑیوں کو آگ لگائی اور نقصان پہنچایا ۔ اگلے دن پولیس نے احتجاجی مظاہرین پر دوبارہ تشدد کیا اور گولی چلائی جس سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا۔ مولانا ہدایت الرحمن، جو موقع پر موجود بھی نہ تھے ، کے خلاف قتل اور دوسرے جھوٹے مقدمات قائم کردئے۔ وہ جب عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لئے گئے تو پولیس نیاحاطہ عدالت سے  گرفتار کرکیانھیں پسِ دیوار زنداں کر دیا ۔ بعد ازاں مقامی عدالت سیتحریک کے تمام کارکنان کی ضمانتیں منظور ہوگئیں مگر مولانا ہدایت الرحمن کی120 دن (یعنی چار مہینے) گزرجانے کے بعد بھی ضمانت منظور نہ ہوئی۔ ان کی ضمانت مسترد کرنے کے لئے مبینہ طور پر عدالتوں پر دبا ڈالا گیا اور اب یہ احساس گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی ضمانت میں انتظامیہ اور حکومت حائل ہیں۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے بھرپور کوشش کی ہے کہ معاملات بہتر اور حالات معمول پر آجائیں۔یہی وجہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے رابطہ اور تعاون جاری رکھا ہے۔ ہم نے بار بار وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا ہیکہ وہ  حالات کو بہتر بنانے کے لئے "حق دو گوادرتحریک” کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی پاسداری کریں اور معاہدے پر عمل درآمد کے لئے مثر اورنظر آنے والے اقدامات کریں۔ مولانا ہدایت الرحمن  سیاسی کارکن ہیں وہ بے گناہ ہیں، ان پر جعلی مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ وہ ملک وقوم  اور آئینِ پاکستان کے وفادار ہیں ۔ ان کی تمام تر جدوجہد جمہوری ، سیاسی  اورعوام کی خوشحالی کے لئے ہے۔  ان کی رہائی کے لیے  عدالتوں پر حکومتی اور انتظامی دبا  غیر قانونی ہے ، اسیختم ہونا چاہیے۔ جنابِ والا! اب جبکہ عدالت عظمی فیصلہ صادر کر چکی ہے کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری غیر قانونی ہے اس لئے  مولانا ہدایت الرحمن صاحب کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے کر رہائی کا حکم صادر کریں ،ان کے خلاف تمام جھوٹے مقدمات ختم کریں تاکہ یہ تاثر قائم ہوکہ پاکستان میں دو نہیں” ایک پاکستان” ہے   اور یہ کہ عدالتیں آزاد ہیں اور اس میں اشرافیہ اور عام آدمی کے لئے دہرا معیار نہیں۔