• اسلام آباد ہائی کورٹ جمعہ کو کیس کی سماعت کرے، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا۔سپریم کورٹ
  • عمران خان اس وقت سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں،  عمران خان پولیس لائنزگیسٹ ہاوس میں رہیں گے، عدالت
  • جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتا ہے تو مطلب کورٹ کے سامنیسرنڈر کرتا ہے، ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے..چیف جسٹس
  • کبھی انتشارکی بات نہیں کی، ہم ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، سب کو کہتا ہوں سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔عمران خان

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری رہا کرنیکا حکم دے دیا۔عدالت عظمی نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ  سے دوبارہ رجوع کرنیکا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ کے حکم پر عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان کو 15 گاڑیوں پر مشتمل سکیورٹی قافلے میں سپریم کورٹ لایا گیا، عمران خان کو کمرہ عدالت میں پہنچانے کے بعدکمرہ عدالت کو بند کردیا گیا۔عمران خان سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر خود چلتے ہوئے کمرہ عدالت تک پہنچے۔سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے اور پولیس کی جانب سے عدالت کے باہر سے غیر متعلقہ گاڑیوں کو بھی ہٹادیا گیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتا ہے تو مطلب کورٹ کے سامنیسرنڈر کرتا ہے، ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ  جمعہ کو کیس کی سماعت کرے، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا۔سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ہائیکورٹ کا عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرنیکا حکم دیا جائے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، وہ بائیو میٹرک کرارہے تھے جب رینجرز کمرے کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئی تو انہوں نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کر لیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائیکورٹ کے تقدس کا معاملہ بھی سپریم کورٹ دیکھے گی، انصاف تک رسائی کے حق کو ہم نے دیکھنا ہے، ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، ہم یہاں صرف اصول و قواعد اور انصاف تک رسائی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، سیاسی حالات کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے بہت افسوسناک ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری سے عدالت کا تقدس کہاں گیا، ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا،  90 افراد عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے،  کوئی بھی شخص خود کو آئندہ عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، کسی کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان کی گرفتاری سے عدالتی وقار مجروح کیا گیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کئی سال سے مختلف افراد کے ساتھ یہی حرکتیں کر رہا ہے، اگر ایسے گرفتاریاں ہونے لگیں تو مستقبل میں کوئی عدالتوں پر اعتبار نہیں کرے گا، جب ایک شخص نے عدالت میں سرنڈر کر دیا تھا تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب وارنٹ کی قانونی حثیت نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے، عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو ہوا وہ رکنا چاہیے تھا۔جسٹس اطہر نے عمران خان کے وکلا سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ عمران خان کی رہائی کا حکم دے۔حامد خان کے موقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی کام سے نظر نہیں چرائی جاسکتی، آپ جو فیصلہ چاہتے ہیں اس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا،  انصاف تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔عدالت نے سوال کیا کہ عمران خان نیب میں شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟  کیا نیب نوٹس میں عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا تھا؟ نیب دوسروں سے قانون پر عمل کرانا چاہتا ہے خود نہیں کرتا۔عدالت نے کہاکہ واضح ہے کہ عمران خان نے بھی نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا تھا، نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص ملزم تصور ہوگا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کرالیتے ہیں، رکیارڈ کے مطابق عمران خان نے مارچ میں موصول نیب نوٹس کا جواب مئی میں دیا۔عدالت نے سوال کیا کہ کیا نیب نے رجسٹرار ہائیکورٹ سے گرفتاری سے قبل اجازت لی تھی؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل وزارت داخلہ سے کرائی، اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا عدالتی احاطے میں وارنٹ پر عملدرآمد وزارت داخلہ نے کیا؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے کہا کہ  عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے کئی سالوں سے سبق نہیں سیکھا،  نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی الزامات ہیں، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔نیب کے وکیل نے عدالت میں مقف اپنایا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، نیب کو جانوں کے ضیاع کا خطرہ تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن نیب نے خود گرفتاری کی کوشش کیوں نہیں کی؟  کیا نیب عمران خان کو عدالت سے ہی گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا؟ جسٹس اظہر نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے عمران خان کو عدالت کے اندر سے گرفتاری کا کہا تھا عمران خان کو کتنے نوٹسز موصول ہوئے، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس دیا گیا تھا، اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ بظاہر نیب وارنٹس قانون کے مطابق نہیں تھے، جسٹس کیا وارنٹس جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟عمران خان لاہور میں تھے، نیب نے پنجاب حکومت کو وارنٹ تعمیل کا کیوں نہیں کہا؟ چیف جسٹس نے پوچھا کہ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے مطابق انہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرائی اور عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔جسٹس عمر عطا نے کہا کہ یہ تو واضح ہوگیا کہ کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی،  ملزم عدالت میں سرنڈر کر دے اور وہاں سے گرفتاری ہو تو احاطہ عدالت گرفتاریوں کے لیے آسان مقام بن جائے گا، ایسے تو ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاریوں کی سہولت کار بن جائیں گی۔بعدا زاں عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو حکم دیا کہ عمران خان کو ساڑھے چار بجے تک عدالت میں پیش کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں سپریم کورٹ میں کوئی فالوور موجود نہیں ہوگا، یقینی بنائیں، وہی وکلا اور صحافی موجود ہوں جو اس وقت یہاں موجود ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عمران خان کو جہاں سے گرفتار کیا وہیں سے ساری کارروائی دوبارہ شروع کی جائے، آج ہی حکم جاری کریں گے، جو تورپھوڑ، سرکاری املاک کا نقصان ہوا اس پر عدالت بہت سنجیدہ ہے۔عدالت نے کہا کہ عمران خان کو جس طریقے سے گرفتار کیا گیا اس کا دفاع ممکن نہیں۔پولیس نے تقریبا پونے 6 بجے تک عمران خان کو عدالت میں پیش کیا، عمران خان کے کمرہ عدالت میں داخلے کے بعد کمرہ عدالت کے دروازے بندکردیے گئے۔بعد میںسپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا اور عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنیکا حکم بھی دیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتاہے تو مطلب کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے، ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے،آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے، اسلام آباد ہائی کورٹ   جمعہ کو کیس کی سماعت کرے، عمران خان جمعہ کو ہائی کورٹ میں پیش ہوں، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا، عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر سیاستدان کی ذمہ داری ہیکہ امن و امان کو یقینی بنائے۔اور ہماری خواہش ہے کہ پرتشدد احتجاج کی مذمت کریں۔اس موقع پر عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھے ہائی کورٹ سے اغوا کیا گیا، ڈنڈے مارے گئے، ایسا تو کسی کرمنل کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، اس کے بعدکچھ علم نہیں کیا ہوا، ابھی تک مجھے نہیں پتہ کیا ہوا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ یہاں میڈیا موجود ہے، پیغام دینا چاہتاہوں، میں تو گرفتار تھا، پرتشدد مظاہروں کا ذمہ دارکیسے ہوگیا؟ میں نے کبھی انتشارکی بات نہیں کی، ہم ملک میں صرف الیکشن چاہتے ہیں، سب کو کہتا ہوں سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔عمران خان کی گرفتاری کیخلاف درخواست پرسماعت چند منٹ میں مکمل کرلی گئی۔عدالت عظمی میں جب سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کو روسٹرم پر طلب کرلیا۔چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، ملک میں آپ کی گرفتاری کے بعد تشدد کے واقعات ہو رہے ہیں، ہم ملک میں امن چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات کی جا رہی ہے کہ آپ کے کارکنان غصے میں باہر نکلے، ہم آپ کوسننا چاہتے ہیں، بتائیں کیا آپ 9 مئی کو عدالت میں بائیومیٹرک روم میں موجود تھے، جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتاہے تو اس کا مطلب وہ کورٹ کے سامنے سرنڈرکرتا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری غیرقانونی تھی، عمران خان کی گرفتاری کو ہم واپس کر رہے ہیں اور عمران خان کو ہدایت کی ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔  چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جمعہ کو اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کی سماعت کرے، جب ایک شخص عدالت آتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ سرنڈر کرتا ہے۔ آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے، تمام پروسیس دوبارہ شروع ہونا چاہیے۔اسی دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہا کہ ذوالفقاربھٹواوربینظیربھٹوجیسیلیڈردوبارہ نہین آئیں گے، اتنے بڑے لیڈرز کو مارنے کے بعد بھی حالات کنٹرول میں رہے۔ خان صاحب سیاسی ماحول سیاست دانوں نے پیدا کرنا ہے، سپریم کورٹ کی وجہ سے آپ آج یہاں کھڑے ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ آپ نے ورکرز نے سڑکوں پرماحول بنایا، آپ اپنا مذمتی بیان عدالت میں ہی دیں گے، وارنٹ قانونی تھے یا نہیں، گرفتاری غیر قانونی تھی۔اسی دوران عمران خان نے کہا کہ تمام لوگ پر امن احتجاج کریں، ملک کو نقصان نہ پہنچایاجائے، اپنی 27 سال کی جدوجہد میں کارکنوں کو پر امن رہنے کا پیغام دیا ہے۔سب سے کہتا ہوں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب میں آپ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نے نیب نوٹس کا جواب دیا تھا، خواجہ حارث کے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے۔سماعت کے دوران عمران خان نے مزید کہا کہ مجھے ہائی کورٹ سے اغوا کیا گیا، مجھے ڈنڈے مارے گئے، ایسا کسی مجرم کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، مجھے کبھی پولیس لائن اور کبھی کہیں لے کر پھرتے رہے، مجھے کچھ علم نہیں باہر کیا ہوا نہ مجھے پتا ہے، کمانڈو ایکشن کر کے مجھے سر پر ڈنڈے مارے گئے، کریمنل کی طرح مجھے پکڑا گیا۔ جو میرے ساتھ ہوا اس کا ردعمل توآئیگا، مجھ پر دہشت گردی سمیت کئی مقدمات درج ہیں، میں نے کہا مجھے گرفتار کرنا ہے تو وارنٹ دکھاو، مجھ پر 100 سے زائد مقدمات بنائے گئے، ایک پارٹی جو الیکشن چاہتی ہے وہ انتشارکیوں چاہیگی؟ انتشاروہ چاہتے ہیں جوالیکشن نہیں چاہتے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ مجھیکبھی پولیس لائن اورکبھی کہیں لیکر پھرتے رہے، مجھے سمجھ نہیں آیا ہوا کیا ہے، میں نے نیب نوٹس کا جواب دیا تھا، ملک میں آزادانہ الیکشن چاہتا ہوں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  آپ مذاکرات کا آغاز کریں اس سے معاشرے میں امن آئیگا، یہ اچھی بات ہے آپ عوام کے حقوق کے امین ہیں، دونوں طرف سے بیانیہ شدید ہو چکا ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان اس وقت سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں،  عمران خان پولیس لائنزگیسٹ ہاوس میں رہیں گے، ممکن ہو تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں 11 بجے سماعت مقرر کی جائے، قلم اور اللہ کی طاقت کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں، ہمیں آپ کی سکیورٹی عزیز ہے، عمران خان سے دس افراد کو ملنے کی اجازت ہوگی،  عمران خان سے ملنے والوں میں ان کے اہل خانہ ، وکلا اور  دوست شامل ہوں گے۔عدالت نے عمران خان کو اپنے قریبی افرادکی لسٹ فراہم کرنیکی ہدایت بھی کی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے دو اصول طے کیے ہیں، اصول یہ ہیکہ عدالت کے احاطے سے کسی شہری کو آئندہ گرفتار نہیں کیا جائیگا، احاطہ عدالت سے گرفتاری کے لیے پولیس کے سوا کوئی نفری بغیر اجازت نہیں آئیگی۔ اس موقع پر عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ مجھے بنی گالا جانے دیں ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی سکیورٹی یقینی بنانا آئی جی اور  اٹارنی جنرل کی ذمہ داری ہے، عمران خان جمعہ تک سپریم کورٹ کی تحویل میں ہیں،  ڈر یہ ہے کہ ہماری کسٹڈی میں عمران خان کو کچھ نہ ہو،عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ کی کسٹڈی کی وجہ سے برکت آگئی ہے۔عمران خان نے بنی گالہ کو سب جیل قرار دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جس گیسٹ ہاوس میں ٹھہرایا گیا اس کے تین کمرے ہیں، وہاں گپ شپ لگائیے گا، سوجائیے گا اورجمعہ کو عدالت میں پیش ہوجائیں،گیسٹ ہاوس میں بھی آپ آرام سے رہیں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) نے چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہیں اگلے روز پولیس لائنز میں لگنے والی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے ان کا 8 روز کا جسمانی ریمانڈ منظوکرلیا۔