اسلام آباد (ویب نیوز)
- درآمدی ملٹی وٹامنز سے متعلق اشیا آٹے اور دیگر غذ امیں شامل کی جاتی تھیں ٹیکس کے نفاذ پر ان کی درآمد ختم ہوکررہ گئی
- دوارب روپے کی ٹیکس کے لئے بچوں اور خواتین میں غذائی کمی کا خیال نہ رکھا گیا، ارکان
- جب کہ بیماری پر حکومت کے اربوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں، کمیٹی
- آٹے میں غذائیت بڑھانے کے لئے وٹامن اے،ڈی اور دیگر غذائیت بخش اجزا کی شمولیت ضروری ہے
- تمباکو سمیت نشہ آور اشیا اور شوگر والے مشروبات پر ٹیکس میں جتنا اضافہ کیا جائے بہتر ہے۔ چیرپرسن کمیٹی رومینہ خورشید عالم
پارلیمانی کمیٹی نے پاکستان میں غذائی قلت سے نمٹنے اور درآمدی غذائی اشیا پر ٹیکس چھوٹ کے لئے ایف بی آر سے رپورٹ طلب کرلی اجلاس کی کاروائی میں انکشاف ہوا کہ درآمدی ملٹی وٹامنز سے متعلق اشیا آٹے اور دیگر غذ امیں شامل کی جاتی مگر ایف بی آر کی جانب سے سترہ فی صدٹیکس کے نفاذ پر ان کی درآمد ختم ہوگئی اور دوارب روپے کی ٹیکس کے لئے بچوں اور خواتین میں غذائی کمی کا خیال نہ رکھا گیا جب کہ بیماری پر حکومت کے اروبوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں کمیٹی کی کنوینیرنے واضح کیا ہے کہ آٹے میں غذائیت بڑھانے کے لئے وٹامن اے،ڈی اور دیگر غذائیت بخش اجزا کی شمولیت ضروری ہے تمباکو سمیت نشہ آور اشیا اور شوگر والے مشروبات پر ٹیکس میں جتنا اضافہ کیا جائے بہتر ہے۔جمعہ کو اجلاس رومینہ خورشید عالم کی صدارت میں ہوا ۔، چیرپرسن کمیٹی نے کہا کہ غذائیت بخش خوراک عوام کا بنیادی حق ہے،۔کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان کی 40 فیصد نوزائیدہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں عالمی ادارہ خوراک کے مطابق پاکستان کی 20 فیصد سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ پاکستان میں پانچ برس سے کم عمر کے 44فیصد بچے غذائی قلت کے شکار ہیں۔ملک میں خواتین کی اکثریت وائٹامن کی قلت کا شکار ہیں۔ غذائی قلت کے سبب عوام کی صحت خراب ہونے سے ملکی معیشت کو سالانہ7.6 ارب ڈالرز کا نقصان ہوتاہے۔ایک کلو کوکنگ آئل(کھانے کے تیل) میں غذائی اجزا کی شمولیت سے عوام کو وائیٹامن اے اور ڈی فراہم کیا جا سکتا ہے۔حکام پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل نے کاہ کہ پاکستان اپنی ضروریات سے زیادہ غذا پیدا کرتا ہے۔ غذائی قلت کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ شاہدہ اختر علی نے کہا یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، مختلف سرکاری محکموں کے اعدادوشمار ایک دوسرے سے نہیں ملتے ۔ایف بی آر حکام نے بتایا کہ وہ زرعی اشیا جو پروسنگ کے بغیر مارکیٹ میں آتی ہیں ان پر کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے ۔ پروسسڈ دودھ پر ہر سال تین ارب روپے کا ریفنڈ دیا جاتا ہے ۔ارکان نے استفسار کیا کہ کھانے پینے کی اشیا سے کتنا ٹیکس ملتا ہے ۔حکام نے واضح کیا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں اس لئے تمام ٹیکس رعایتیں ختم کر دیں ہیں ۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام حکام نے کاہ کہ صرف نقد امداد دیتے ہیں غذائی امداد نہیں دیتے۔ایک غیر سرکاری ادارے کے حکام نے بتایا کہ آٹے کی فورٹیفیکیشن کیلئے جو چیزیں درآمد ہوتی ہیں اس پر بھی 17 فیصد جی ایس ٹی عائد ہے ۔ایف بی آر کے قانون میں آئی این جی اوز شامل ہی نہیں ہیں۔اس لیے ایف بی آر ٹیکس ریلیف نہیں دے سکتا ۔ غذائی کمی دور کرنے سے متعلق اشیا پر ٹیکس چھوٹ کی ضرورت ہے لوگوں کی صحت میں بہتری 8 ماہ میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی ۔ فوڈ فورٹیفیکیشن میں ایک ڈالر خرچ کرنے سے لوگوں کو 16 ڈالر کا فائدہ ملے گا ۔ پاکستان کی فوڈ فورٹیفیکیشن کی ضروریات 30 کروڑ ڈالر کی ہیں۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ یہ رقم کو کاکولا اور سگریٹ پر ٹیکس بڑھا کر با آسانی حاصل کی جا سکتی ہے ۔فوڈ فورٹیفیکیشن اشیا پر جی ایس ٹی عائد ہے مگر کسٹم ڈیوٹی عائد نہیں ہوتی۔رومینہ خورشید عالم کنوینیرپائیدار ترقی کے اہداف پروگرام نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں غذائیت کی قلت سے نمٹنے اور درآمدی اشیا پر ٹیکس چھوٹ کے حوالے سے تجاویز تیار کررہے ہیں۔یہ تجاویز وزیراعظم ،وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کو بھجوائیں گے ۔غذائیت کی قلت ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہے۔آٹا چینی گھی کی سمیت ضروری اشیائے خورونوش عام آدمی کو ملنا ضروری ہے۔خوراک خالص اور غذائیت بخش ہونی چاہیے۔آٹے میں غذائیت بڑھانے کے لئے وٹامن اے،ڈی اور دیگر غذائیت بخش اجزا کی شمولیت ضروری ہے۔غذائیت بخش اجزا کی شمولیت سے آٹے کی فی کلو قیمت میں صرف پچاس پیسے کا اضافہ ہوتا ہے۔عوام میں آگئی ہونی چاہیے کہ وہ کیسی اور کون سی خوراک کھارہے ہیں۔تمباکو سمیت نشہ آور اشیا اور شوگر والے مشروبات پر ٹیکس میں جتنا اضافہ کیا جائے بہتر ہے۔