- سینیٹ قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے بے گناہ پاکستانیوں کو گوانتا نامو بے جیل میں قید پر معاوضہ کے لیے وزارت خارجہ سے حتمی جواب مانگ لیا
- گوانتا نامو بے جیل رہا مصور پاکستانی کی جلد تصاویر کی نمائش کا اعلان کردیا گیا
- اب کوئی پاکستانی گوانتانامو بے جیل میں نہیں ہے ، دیگر پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے وزارت داخلہ نے ان کی شہریت کی تصدیق کر دی ، سینیٹر ولید اقبال
- امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ملاقات کا خیر مقدم
- سینیٹر مشتاق احمد خان کی کاوشوں کی تعریف، اس معاملے میں سینیٹ کی مداخلت سے پاکستانیوں کی رہائی ممکن ہوئی
- عافیہ کیس صحیح طور پر ہینڈل نہیں ہوسکا جب کہ وکیل کے لئے بارہ لاکھ ڈالر کی فیس بھی جاری کی گئی تھی
- وزارت خارجہ بتائے بے گناہ پاکستانی 20,20سالوں تک کیوں گوانتا نامو بے جیل قید میں رہے حکومتیں کیا کرتی رہیں ؟
اسلام آباد (ویب نیوز)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے کئی سالوں تک بے گناہ پاکستانیوں کو گوانتا نامو بے جیل میں قید کے معاملے پر امریکا سے معاوضہ کی طلبی کے لیے وزارت خارجہ سے حتمی جواب مانگ لیا ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر ولید اقبال نے کہا ہے کہ اب کوئی پاکستانی گوانتانامو بے جیل میں نہیں ہے ، دیگر پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے وزارت داخلہ نے ان کی شہریت کی تصدیق کر دی ہے ۔ امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ملاقات کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہو ںنے اس ضمن میں سینیٹر مشتاق احمد خان کی کاوشوں کی تعریف کی اور کہا کہ عافیہ کیس صیح طور پر ہینڈل نہیں ہوسکا جب کہ وکیل کے لئے پاکستان نے بارہ لاکھ ڈالر کی فیس بھی جاری کی تھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کمیٹی اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔ اجلاس ان کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ امریکا سے بے گناہ قیدیوں کی وطن واپسی اور انسداد ہراسیت کے معاملات پر غور کیا گیا اس حوالے سے ایک بین الاقوامی این جی او کی رپورٹ کا جائزہ لیا گیا تھا ۔ سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ چار افراد کے بارے میں پتہ لگا تھا کہ یہ گوانتا ناموبے جیل میں ہیں اور ان کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے یہ معاملہ ایوان میں اٹھایا تھا کمیٹی نے وزارت خارجہ سے اپ ڈیٹ مانگی تھی ۔ پندرہ ، اٹھارہ اور بیس سالوں سے یہ گوانتا ناموبے جیل میں قید تھے اور ان کا کوئی والی وارث نہیں تھا ۔ سیف اللہ پراچہ پندرہ سال تک گوانتا ناموبے میں قید رہے اور سینیٹ نے ان کی واپسی کو ممکن بنایا ۔ دو ربانی برادران تھے جنکا کیس بھی لیا گیا ۔ ان کی شناخت پر ابہام تھا ۔ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو حتمی طور پر کہا گیا تھا کہ طے کر کے رپورٹ پیش کریں کہ ان کا تعلق پاکستان سے ہے کہ نہیں اگر وہ پاکستانی شہری ہیں وزارت خارجہ ان کی واپسی کا انتظام کرے ۔ ان کی شہریت کی بھی تصدیق ہوئی اور وہ بھی پاکستان واپس آ چکے ہیں ۔ 21 سال کے بعد یہ برادران وطن واپس آئے اور اس میں ایک بھائی نے قید میں مصوری کا کام سیکھنا شروع کیا ان کی تصاویر کی نمائش کا اہتمام کیا جائے گا ۔ ماجد خان چوتھے پاکستانی تھے جو وہاں موجود تھے ۔ یہ بھی انیس سالوں تک قید رہے ان کو بھی رہا کر دیا گیا ہے ۔ وہ پاکستان آنے کی بجائے وسطی امریکا چلے گئے ۔ گوانتا نامو بے جیل میں اب کوئی پاکستانی قید نہیں ہے سب رہا ہو چکے ہیں ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ سینیٹ اور اس کمیٹی کی کارروائی کی وجہ سے یہ سارا عمل مکمل ہوا ۔ وزارت خارجہ سے اس بارے میں بریفنگ لی جائے گی کہ یہ بے گناہ پاکستانی اتنے اتنے سال گوانتا ناموبے میں کیوں قید رہے ، ہماری حکومتیں کیا کرتی رہیں اور اگر سینیٹ مداخلت نہ کرتی تو ان پاکستانیوں کی رہائی کے لیے اور کتنے سال لگ جاتے وزارت خارجہ اس بارے میں بتائے ۔ ان کو اگر معلوم تھا تو رہائی کا عمل سست کیوں رہا ؟ وزارت خارجہ یہ بھی بتائے کہ اتنے طویل عرصہ امریکی قید میں بے گناہ رہنے والے پاکستانیوں کے حوالے سے معاؤضے کی طلبی کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے ۔ کیا اقدام کیا جا سکتا ہے ۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے بتایا کہ عمومی طور پر وزارت خارجہ سے دنیا بھر میں قید پاکستانیوں اور ان کے مقدمات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں کیونکہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ پچاس ساتھ فیصد پاکستانی بے گناہ قید ہوتے ہیں ۔ حکومت بتائے کہ وہ دوسرے ملکوں میں اپنے پاکستانیوں کے تحفظ کے لیے کیا کر رہی ہے ۔ سینیٹر ولید اقبال نے بتایا کہ خواتین کی ہراسیت سے متعلق ایک بین الاقوامی ادارے کے شائع مضمون کا جائزہ لیا گیا اگرچہ یہ معاملہ انسداد ہراسیت کے سیکرٹریٹ کے دائرہ کار میں آتا ہے تاہم کمیٹی نے پالیسی کے طور پر اس معاملے پر غور شروع کیا ہے ۔ خواتین کی وفاق اور صوبوں میں بھی محتسب موجود ہیں ۔ انہو ںنے کہا کہ ورک پلیس کے حوالے سے خواتین کے تحفظ کے بارے میں قانون سازی کی گئی ہے جس کے تحت ہر ادارے میں تین رکنی داخلی کمیٹی بننی تھی جس میں ایک خاتون کی نمائندگی ضروری ہے مگر بہت سے اداروں میں اس حوالے سے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔ تمام اداروں وزارتوں سے ورک پلیس کے حوالے سے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے داخلی کمیٹی کے بارے میں رپورٹس طلب کر لی ہیں ۔ عافیہ صدیقی سے فوزیہ صدیقی سے ملاقات کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہو ںنے کہا کہ یہ خوش آئند ہے یہ کیس صیح طور پر ہینڈل نہیں ہوسکا جب کہ وکیل کے لئے بارہ لاکھ ڈالر کی فیس بھی جاری کی گئی تھی۔