مقبوضہ کشمیر ،تین دہائیوں میں 1450 کے قریب نابالغ کشمیری بچوں کو شہید کیا گیا
دس ہزار سے زیادہ شہری پیلٹ کے مہلک چھروں کا نشانہ بنے۔ پاسبان حریت رپورٹ
مظفرآباد( ویب نیوز)
بھارتی حکومت جموں کشمیر میں بچوں کے قتل، گرفتاریوں، تشدد، پیلٹ گنوں سے اندھا کردینے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔گزشتہ تینتیس برسوں میں محتاط اندازے کیمطابق 1450 بچوں کو شہید، ہزاروں کو گولیوں، پیلٹ گنوں اور آنسوں گیس شیلوں سے زخمی کیا گیا۔ ”اقوام متحدہ بھارتی جارحیت کے شکار کشمیری بچوں” کو تحفظ دلائے۔ پاسبانِ حُریت جموں کشمیر”جارحیت کے شکار بچوں کے عالمی دن” کے موقع پر بھارت کے زیر تسلط جموں کشمیر کے بچوں کی بدترین صورتحال اور ان پر بھارتی فوجیوں کے جان لیوا حملوں! تحریکِ مزاحمت کو کچلنے کے لیئے بچوں پر تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کو عالمی برادری کیلئے لمحہ فکریہ قرار دیتے ہوئے پاسبان حریت کے میڈیا سیل کی جانب سے بچوں کی حالت زار پر ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہیکہ گزشتہ تین دہائیوں میں 1450 کے قریب نابالغ کشمیری بچوں کو شہید کیا گیا ہے۔ 1989 سے 2003 تک 930 اور 2023 تک مزید کم از کم 530 بچے شہید کیئے گئے براہ راست فوجی حملوں میں ہزاروں بچے زخمی ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کے صرف آنسو گیس کے گولوں اور پیلٹ گنوں کے حملوں میں کم از کم 35 نابالغ بچے شہید ہوئے باقی شہادتیں براہ راست گولیوں ٹارچر سیلوں میں تشدد اور جعلی انکاؤنٹرز میں ہوئیں۔ جن میں 14 سال کا طفیل متّو جسے کھیلتے ہوئے پیلٹ گن کا نشانہ بنایا گیا۔ 2016 کی عوامی احتجاجی تحریک کے دوران 10,000 سے زیادہ شہری پیلٹ کے مہلک چھروں کا نشانہ بنے۔ جن میں سب سے کم عمر پانچ سالہ برینہ ??اور آٹھ سالہ ظفیر تھے جو اپنے والد کے ساتھ پیٹرول پمپ کی طرف جارہے تھے۔ بھارتی بربریت کا بدترین ثبوت انشاء مشتاق 17 سالہ لڑکی ہے جو آج بھی بگڑے ہوئے چہرے اور اندھی آنکھوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے۔ اڑھائی سالہ حبہ نثار بھی پیلٹ گن کا شکار بنائی گئی تھی۔ 2010 میں نو سالہ سمیر احمد اپنے دوست کے گھر کیرم کھیلنے کے لیے روانہ ہوا راستے میں ”سی آر پی ایف” نے اسے روکا اور بانس کے ڈنڈوں سے مار مار کر شہید کردیا۔ 2016 میں ہی گیارہ سالہ ناصر شفیع پر پیلٹ گن سے حملہ کیا گیا اگلے دن اس کی لاش جھاڑیوں سے ملی۔ اس کے والد نے دعویٰ کیا کہ ناصر کا جسم 400 چھروں سے چھلنی تھا، تشدد کے نشانات تھے اور اس کے کچھ بال بھی نوچے گئے تھے۔ درجنوں ایسے واقعات وادء کشمیر میں رونما ہوئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کے بھارتی فوجی معصوم کشمیری بچوں کو منصوبے سے قتل کر رہی ہیں۔ سوپور میں تین سالہ بچے کے سامنے اس کے دادا کو گولیاں ماری گئی بعد ازاں وہ بچہ شہید دادا کے سینے پر بیٹھ کر انہیں اٹھانے کی کوشش کرتا رہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ ہزاروں نابالغ کشمیری بچوں کو بھارتی فوج نے ”پبلک سیفٹی ایکٹ” کے تحت حراست میں لیا ان پر تشدد کیا اور پھر انکے والدین سے بھاری رقوم لے کر انہیں چھوڑا گیا۔ ”پی ایس اے” کو ایمنسٹی انٹرنیشنل پہلے ہی لاقانونیت کا قانون قرار دے چکی ہے جو بغیر کسی مقدمے کے کسی بھی شہری کو دو سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کٹھوعہ میں ایک نابالغ مسلمان لڑکی آصفہ کو ہندو پولیس اہلکاروں نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ بھارتی فوج اسکولوں کو ”فوجی اڈوں، تفتیشی مراکز اور فوجی چوکیوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ رواں مزاحمتی تحریک کے دوران کئی درجن اسکولوں کو تباہ گیا ہے گزشتہ برسوں میں کشمیری طلبہ کے خلاف تشدد کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ جن میں کشمیری بچوں کو بھارتی فوجی خوف اور دہشت کا شکار بنا رہے ہیں۔ رپورٹ میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں کشمیری بچوں کو قتل کرنے والے بھارتی فوجیوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات، کشمیری بچوں کی گرفتاریوں، ان پر پیلٹ اور آنسوں گیس کے حملوں، بچوں پر تشدد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال، اسکولوں کو غیر فوجی بنانے اور ان پر خوف اور دہشت قائم کرنے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ گزشتہ تین دہائیوں کی بھارتی ریاستی دہشتگردی کے دوران ”بڑے چیلنجوں میں سے ایک” یہ ہے کہ ”ہندوستان اب بھی بین الاقوامی تنازعات کے قوانین کے فریم ورک اور ضوابط کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔” اسی لیئے وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ ریاست پر جبری حاکمیت کو قائم رکھنے کیلئے معصوم کشمیری بچوں پر فوجی حملوں کو تواتر کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس قسم کا وحشیانہ ریاستی تشدد جموں کشمیر میں بچوں کیخلاف جاری رہنا دنیا کے منصفوں کیلئے کھلا چیلنج ہے۔ بھارتی فوجیوں کا دہشتگردی پر مسلسل قائم انسانیت کیلئے شرمساری کا باعث ہے۔