- بحران سے نہ نکلنے کی وجہ ہماری عدالتوں اور ججز کا انصاف نہ کرنا ہے،رانا ثناء اللہ
- جب کوئی شخص کسی دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہوگا تو اس کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا
- ججزان لاز (سسرالیوں) کا شکار ہیں، کسی جگہ مدر ان لا کا معاملہ ہے اور کسی جگہ سن ان لا ہے
- ماضی کے بابا رحمتے نشان عبرت بنے ہوئے ہیں، ان کے بیٹے نے ٹکٹوں کی تقسیم میں رقم لی
- بھئی اگر آرمی ایکٹ کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہوسکتا تو اس کو ختم کردیں،قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال
اسلام آباد (ویب نیوز)
وفاقی وزیر داخلہ راناء ثنا اللہ نے کہا ہے کہ بحران سے نہ نکلنے کی وجہ ہماری عدالتوں اور ججز کا انصاف نہ کرنا ہے، آئین کے تحت خصوصی عدالتوں کے قیام کیخلاف درخواستوں پر سماعت سے پہلے دو سینئر وکلا چیف جسٹس آف پاکستان سے ملے اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جمعرات کو سماعت کے دوران جب ججز نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا تو وکیل کے منہ سے نکلا کہ چیف جسٹس صاحب ہم نے پہلے ہی آپ سے کہا تھا کہ فل بینچ بنا دیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہاکہ سینئر وکلا اور چیف جسٹس کی ملاقات کے دوران مبینہ طور پر اس بات پر تبادلہ خیال ہوا کہ کون سا بینچ بنایا جائے اور اسی ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی چونکہ ملٹری کورٹس کے بارے میں رائے پائی جاتی ہے لہذا انہیں بھی بینچ میں شامل کرلیا جائے، ورنہ پچھلے 16 ماہ میں انہیں چیف جسٹس نے اپنے ساتھ بینچ میں کبھی شامل نہیں کیا۔رانا ثناء اللہ نے کچھ عرصہ قبل سامنے آنے والی آڈیو لیکس کا بھی حوالہ دیا جس میں پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ طارق رحیم اور صحافی قیوم صدیقی ایک دن بعدآنے والے فیصلے کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور فیصلہ وہی آتا ہے جو خواجہ طارق رحیم بتاتے ہیں۔رانا ثناء اللہ نے ایک اور آڈیو کا حوالہ بھی دیا جس میں چیف جسٹس کی ساس عمران خان کے لیے دعا کا ذکر کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ عمران خان کے جلسے میں کبھی دعائیں نہیں کی گئیں، صرف ڈانس کئے گئے ہیں۔وفاقی وزیرداخلہ نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے فیصلے پر بھی سوال اٹھایا اور کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے لیکن جب مرضی کے بینچ بنا کر مرضی کے فیصلے کرائے جائیں گے تو ان فیصلوں کی اخلاقی قوت نہیں ہوتی۔ عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت شفافیت، غیرجانبداری اور اس میں ہے کہ پوری قوم یہ سمجھے کہ یہ فیصلے انصاف کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ 14 مئی کے فیصلے سے پہلے پورے ملک کے ہر ادارے نے ہاتھ جھوڑ کر چیف جسٹس سے استدعا کی کہ فل بینچ بنا دیں اور فل بینچ میں جو فیصلہ کیا جائے اس کو پوری قوم تسلیم کرے گی لیکن فل بینچ نہیں بنایا گیا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ جمعرات کو 9 رکنی بینچ بیٹھا، دو سینئر ججز نے اعتراض کیا اور واضح کیا کہ وہ اس بینچ سے الگ نہیں ہو رہے لیکن جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ نہیں ہوتا تو وہ بینچ میں نہیں بیٹھیں گے لیکن ٹھیک 31 منٹ بعد 7 رکنی بینچ دیا گیا، حالانکہ ایک مرتبہ بینچ بننے کے بعد چیف جسٹس کسی جج کو الگ نہیں کر سکتے۔رانا ثناء ا للہ نے اس حوالے سے عجلت پر سوال اٹھائے۔انہوں نے کہاکہ ماضی کے بابا رحمتے نشان عبرت بنے ہوئے ہیں، ان کے بیٹے نے ٹکٹوں کی تقسیم میں رقم لی اور جب پارلیمانی کمیٹی نے انہیں طلب کیا تو اس کے خلاف حکم امتناع جاری کردیا گیا اور 16 اگست کی تاریخ ڈالی گئی۔رانا ثناء اللہ نے کہاکہ ہم آج جس بحران سے دوچار ہیں اس سے نہ نکلنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری عدالتیں اور ججز انصاف نہیں کر رہے بلکہ وہ ان لاز (سسرالیوں) کا شکار ہیں، کسی جگہ مدر ان لا کا معاملہ ہے اور کسی جگہ سن ان لا (داماد)ہے۔رانا ثنا ا للہ نے پنجاب میں ہونے والے فیصلوں کا حوالہ دیا جہاں ان کے بقول ایک سن ان لا موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ جب یہ معاملات ہوں گے تو پھر یہ بات کہ ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، بھئی اگر آرمی ایکٹ کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہوسکتا تو اس کو ختم کردیں۔وزیر داخلہ نے کہاکہ جب کوئی شخص خواہ وہ یونیفارم میں ہو یا سویلین جب وہ کسی دفاعی تنصیبات پر حملہ آور ہوگا تو اس کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا۔رانا ثناء اللہ نے کہاکہ ایک ایسا بینچ جو یہ فیصلہ کرنے جا رہا ہے، اس کے متعلق اسی عدالت کے دو سینئر ججز اور نامزد چیف جسٹس نے کہا ہے کہ یہ عدالت نہیں ہے، یہ قانون اور عدالت کے مطابق بینچ نہیں، یہ بینچ غیر قانونی، غیرآئینی ہے۔وزیرداخلہ نے کہاکہ ہوسکتا ہے بینچ کے مزید اراکین الگ ہوجائیں لیکن بینچ بضد ہے کہ اس نے فیصلہ کرنا ہے۔کھیل میں بچوں کے رونا ڈالنے کا حوالہ دیتے ہوئے رانا ثنا ء اللہ نے کہا کہ اس طرح تو بچے بھی روند نہیں مارتے۔