بھارت: مودی کی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوششیں سیاسی تناو کا سبب بن گئیں
نئی دہلی (ویب نیوز )
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے عام انتخابات سے 9 ماہ قبل مذہب سے قطع نظر، سب کے لیے پرسنل لا (ذاتی قوانین) کا ایک مشترکہ سیٹ نافذ کرنے کا منصوبہ پیش کردیا۔ برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق فی الوقت بھارت کے ہندو، مسلمان، عیسائی اور بڑی قبائلی آبادی شادی، طلاق، گود لینے اور وراثت کے لیے اختیاری سیکولر قوانین کے علاوہ اپنے ذاتی قوانین اور رسوم و رواج کی پیروی کرتے ہیں۔لا کمیشن (جو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ایک مشاورتی ادارہ ہے)نے یکساں سول کوڈ(یو سی سی) بنانے پر عوام کی رائے طلب کی تھی جس کی گزشتہ روز جمعہ کو آخری تاریخ تھی، اس موقع پر اسے آن لائن 50 لاکھ سے زیادہ جوابات موصول ہوئے۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ یکساں سول کوڈ صنفی انصاف، پرسنل لاز (ذاتی قوانین) کے یکساں اطلاق کے ذریعے مساوات کو یقینی بنانے اور قومی یکجہتی اور انضمام کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔نریندر مودی نے گزشتہ ماہ کے آخر میں بی جے پی کے ایک اجلاس میں کہا کہ اگر خاندان کے ایک فرد کے لیے ایک قانون ہے اور دوسرے فرد کے لیے دوسرا، تو کیا وہ خاندان آسانی سے چل سکتا ہے؟ ایسے دوہرے نظام کے ساتھ ملک کیسے چل سکتا ہے؟تاہم ناقدین ایک یکساں سول کوڈ کے لیے دبا کو بھارت میں موجود مختلف کمیونٹیز کو تقسیم کرنے اور اگلے سال کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کے لیے ہندو ووٹ بینک مضبوط کرنے کی مذموم کوشش قرار دے رہے ہیں۔نئی دہلی کے سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے سیاسی تجزیہ کار اور ماہر نفسیات سنجے کمار نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد اکثریتی برادری کو پیغام دینا ہے تاکہ اکثریتی برادری کو بی جے پی کے حق میں پولرائز کیا جاسکے، یہ لوگوں کو تقسیم اور موبلائز کرنے کا ایک قسم کا حربہ ہے۔اگرچہ یو سی سی کا کوئی مسودہ تاحال پیش نہیں کیا گیا ہے لیکن بی جے پی لیڈروں نے کہا ہے کہ بنیادی طور پر اس کا تعلق مسلم پرسنل لاز میں اصلاحات سے ہے کیونکہ دیگر پرسنل لاز میں وقت کے ساتھ ساتھ بہتری آچکی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (ایک رضاکار ادارہ جو پرسنل لا کے مسائل پر بھارتی مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے) نے اپنے اعتراضات لا کمیشن کو بھیجے ہیں اور کہا ہے کہ ذاتی نوعیت کے مسائل کے حوالے سے محض یکسانیت کو پہلے سے نافذ قوانین کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جواز نہیں بنایا جاسکتا۔بورڈ نے کہا ہے کہ کسی ایسے ضابطے کے نام پر ذاتی قوانین، مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق کو پابند نہیں کرنا چاہیے جو خود ایک معمہ ہے۔2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی زبردست جیت کے بعد بھارت کے اگلے عام انتخابات مئی 2024 کو ہونے ہیں، ناقدین کا کہنا ہے کہ پارٹی کی انتخابی مہم کا مقصد ووٹروں کو مذہبی بنیاد پر پولرائز کرنا اور بڑی ہندو اکثریت کا فائدہ اٹھانا ہے، حالانکہ بی جے پی کو دعوی ہے کہ وہ تمام بھارتیوں کی نمائندگی کرتی ہے اور سب کی ترقی چاہتی ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یو سی سی کا منصوبہ اپوزیشن جماعتوں کو بے بس کردے گا، وہ اس کی حمایت نہیں کر سکتے اور اگر وہ اس کی مخالفت کریں گے تو ان پر رجعت پسند ہونے اور مسلمانوں کی وکالت کا الزام لگایا جائے گا۔مثلا بھارت میں مسلم پرسنل لاز مرد اور خواتین کو بلوغت کے بعد شادی کرنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ دیگر کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے تمام بھارتی مردوں کی شادی کے لیے قانونی عمر 21 سال اور خواتین کی عمر 18 سال ہونی چاہیے۔بی جے پی ذرائع نے کہا کہ آغاز میں بھارتی حکومت مسلمانوں کے لیے شادی کی قانونی عمر میں اضافہ کر سکتی ہے، ایک سے زائد شادیوں کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے اور مسلم مردوں اور عورتوں کے لیے وراثت میں مساوی حصہ کا حکم دے سکتی ہے۔ذرائع نے کہا کہ محض یہ تبدیلیاں حقیقی معنوں میں یکساں سول کوڈ کہلانے کی اہل نہیں ہوسکتیں، پھر بھی یہ بڑی اصلاحات اور سیاسی کامیابی ہوگی۔قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے لیے بھی وسیع مشاورت اور سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہوگی تاکہ پارلیمنٹ میں پچھلی بار کی طرح اکثریت حاصل کی جاسکے لیکن انتخابات سے قبل اس سب کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بظاہر بی جے پی کا مقصد اس مسئلے کو عوام کی نظروں میں رکھنا اور توقع کے مطابق اقتدار میں واپس آنے کی صورت میں اسے نافذ کرنا ہے۔انڈین مسلم ویمنز موومنٹ یکساں سول کوڈ سے منسلک سیاست کے بارے میں تحفظات کے باوجود اس کی حمایت کرتی ہے، اس موومنٹ کی شریک بانی ذکیہ سومن نے کہا اس معاملے کو 2024 کے انتخابات تک اٹھایا جائے گا، اس کا استعمال کیا جائے گا۔