- ملک کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ہے جس میں غریب کا کوئی قصور نہیں، بلکہ میری حکومت سمیت تمام حکومتوں اور اشرافیہ کا قصور ہے
- 11 اپریل 2022 کو جب میں نے اقتدار سنبھالا تو اندازہ نہیں تھا کہ حالات حد درجہ تباہ کن ہیں
- میں نے اپنے سیاسی کریئر میں ایسے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا، اس کو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے
- نیازی حکومت نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ریاست کو قربان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
- ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست کو قربان کردیں گے مگر ریاست کو بچا لیں گے
- آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، 75 برس میں ہم سے فاش غلطی ہوئی کہ ہم نے پن بجلی کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی
- تیل، بجلی اور گیس کے منصوبوں پر ارب کھرب لگ گئے، اس کا آدھا سرمایہ بھی داسو اور دیامر بھاشا ڈیم پر لگاتے تو آج ہمیں کشکول کی ضرورت نہ پڑتی
- ہمارے پاس بجلی کی ترسیل کا فرسودہ نظام ہے، واپڈا کے اہلکار و افسران عوام سے پیسے بٹورتے ہیں
- بڑے بڑے سرمایہ کار بجلی چوری کرتے ہیں اور آدھے پونے داموں میں بل ادا کرتے ہیں، جس سے سالانہ 400 سے 450 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے
- مولانا فضل الرحمن، پیپلزپارٹی اور دیگر زعما سمیت نواز شریف عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی وجہ سے پریشان تھے اور مجھ سے سوال کرتے تھے کہ کیا بنے گا؟
- ہمیں آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے کیلئے دن رات پاپڑ بیلنے پڑے،ہمارے مالی وسائل محدود ہو چکے تھے لیکن اللہ کے فضل سے ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے
- وزیر اعظم کا ڈیرہ اسماعیل خان میں ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب
ڈیرہ اسماعیل خان (ویب نیوز)
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ گزشتہ 15، 16 ماہ کے قلیل عرصے میں ہمیں تاریخ کے مشکل ترین چیلنجز ملے، نیازی حکومت نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ریاست کو قربان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست کو قربان کردیں گے مگر ریاست کو بچا لیں گے، ہم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ،ملک دیوالیہ ہوتا تو میرے ماتھے اور قبر پر تاقیامت کالا دھبہ لگ جاتا، ملک کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ہے جس میں غریب کا کوئی قصور نہیں، بلکہ میری حکومت سمیت تمام حکومتوں اور اشرافیہ کا قصور ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج میرا ڈیرہ اسماعیل خان کا چوتھا دورہ ہے، میرے لیے بہت عزت کی بات ہے کہ آپ کے سامنے ایک بار پھر حاضر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ 15، 16 ماہ کے قلیل عرصے میں ہمیں تاریخ کے مشکل ترین چیلنجز ملے، اس کو کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑ گئے، 11 اپریل 2022 کو جب میں نے اقتدار سنبھالا تو مجھے احساس تھا کہ حالات بہت مشکل ہیں لیکن اس کا اندازہ نہیں تھا کہ حالات حد درجہ تباہ کن ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اقتدار سنبھالا تو تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس کی بحالی کے لیے ہم نے 100 ارب روپے خرچ کیے لیکن سیلاب زدگان کا حق ہم آج بھی ادا نہ کر سکے، اس کی وجہ وسائل کی شدید قلت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنے سیاسی کریئر میں ایسے چیلنجز کا سامنا نہیں کیا، مولانا فضل الرحمن، پیپلزپارٹی اور دیگر زعما سمیت خود میرے قائد نواز شریف عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی وجہ سے پریشان تھے اور مجھ سے سوال کرتے تھے کہ کیا بنے گا؟ انہوں نے مزید بتایا کہ میرا جواب یہی ہوتا تھا اور یہی رہے گا کہ نیازی حکومت نے اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ریاست کو قربان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ ہماری مخلوط حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم سیاست کو قربان کردیں گے مگر ریاست کو بچا لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ فیصلہ تھا جس کی خاطر ہم ڈٹ گئے ورنہ اگر ملک قربان ہوجاتا تو کہاں کی سیاست اور کہاں کی وزارت عظمی، ہم نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے لیکن ہمارے قدم نہیں ڈگمگائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا مجھے امید ہے کے رواں برس کپاس کی ریکارڈ فصل پیدا ہونے والی ہے، ہمیں گندم اور کپاس منگوانے کے لیے جو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے تھے اس میں بہت کمی آجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آئی ایم ایف سے معاہدے کرنے کے لیے دن رات پاپڑ بیلنے پڑے، 9 مئی کا سانحہ ہوا، عمران خان کی انتشار پسندی نے ملک میں سرمایہ کاری اور انتشار پسندی کو جامد کردیا تھا، ہمارے مالی وسائل محدود ہو چکے تھے لیکن اللہ کے فضل سے ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم دیوالیہ ہوجاتے تو باہر کے بینک ہمارے لیٹر آف کریڈٹس (ایل سیز)قبول کرنے سے انکار کردیتے، پاکستان میں دوا اور روٹی کے لالے پڑ جاتے، صنعت کو کاری ضرب لگتی، یہ قیامت تک ہمارے ماتھے پر کالا دھبہ ہوتا اور میری قبر پر بھی کتبہ لگتا کہ اس کے دورِ حکومت میں ملک دیوالیہ ہوگیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، 75 برس میں ہم سے فاش غلطی ہوئی کہ ہم نے پن بجلی کے منصوبوں پر توجہ نہیں دی، تیل، بجلی اور گیس کے منصوبوں پر ارب کھرب لگ گئے، اس کا آدھا سرمایہ بھی داسو اور دیامر بھاشا ڈیم پر لگاتے تو آج پاکستان کی معاشی صورتحال یہ نہ ہوتی اور ہمیں کشکول کی ضرورت نہ پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط ضرور تھی لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی آپشن بھی نہیں تھا، ہماری بجلی کی ترسیل میں بے پناہ لائن لاسز ہوتے ہیں، ہمارے پاس بجلی کی ترسیل کا فرسودہ نظام ہے، واپڈا کے اہلکار و افسران عوام سے پیسے بٹورتے ہیں، ایک کا بل دوسرے کو تیسرے کا چوتھے کو دے دیتے ہیں، بڑے بڑے سرمایہ کار بجلی چوری کرتے ہیں اور آدھے پونے داموں میں بل ادا کرتے ہیں، اس سے پاکستان کو سالانہ 400 سے 450 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ ملک کا گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ہے جس میں غریب کا کوئی قصور نہیں، بلکہ میری حکومت سمیت تمام حکومتوں اور اشرافیہ کا قصور ہے، یہ سب طاقتور کا قصور ہے لیکن اس کا بوجھ غریب پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب دن بھر محنت مزدوری کے بعد گھر واپس آتا ہے تو اسے فیصلہ کرنا پڑتا ہے آدھی روٹی کھائے یا پونی، چینی خریدے یا دودھ، دوائی کہاں سے لائے، لیکن اشرافیہ جس کی وجہ سے یہ ملک اس حد تک پہنچا وہ آج بھی خدانخواستہ آٹا ایک لاکھ روپے کلو بھی ہوجائے تو وہ خرید سکتی ہے، جبکہ غریب آج ایک کلو آٹا خریدنے جائے تو اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا میں ان ترقیاتی منصوبوں کے لیے سب کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں لیکن یہ کام آٹے میں نمک کے برابر ہے، اگر اس قوم کی حالت بدلنی تو کشکول توڑنا ہوگا، شہنشاہی اخراجات اور کرپشن کو ختم کرنا ہوگا، انشا اللہ ہم مل کر اس ملک کی تقدیر بدلیں گے۔