نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافے کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم پارلیمنٹ میں پیش
ترامیم کے ذریعے سیکشن 230 کے تحت نگران وزیراعظم کے مالیاتی اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے
انتخابی عذرداری پر 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا ہو گا، اگر 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن فیصلہ نہیں کرتا تو امیدوار کو کامیاب قرار دیا جائے گا،
اسلام آباد(ویب نیوز)
نگران وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافے کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کر دی گئیں۔جس میں 54 ترامیم شامل ہیں،ترامیم کے ذریعے سیکشن 230 کے تحت نگران وزیراعظم کے مالیاتی اختیارات میں اضافہ کیا گیا ہے، شق 230 میں ترامیم کے ذریعے نگراں حکومت دیگر ممالک اور عالمی اداروں سے معاہدے کرسکے گی، اسے ملکی معیشت کے مفاد میں اہم فیصلوں کا اختیار حاصل ہوگا۔الیکشن ایکٹ کی شق 230 کی سب کلاز 2 اے میں ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے، نگران حکومت کو ملکی معیشت کے بہتر مفاد سے متعلق ضروری فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہوگا، نگراں حکومت ایسے اقدامات کرنے کی مجاز ہوگی جو بین الاقوامی اداروں اور غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ معاہدوں سے متعلق ہو۔ انتخابی عذرداری پر 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنا ہو گا، اگر 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن فیصلہ نہیں کرتا تو امیدوار کو کامیاب قرار دیا جائے گا، خواتین، غیر مسلموں اور خصوصی افراد بشمول ٹرانسجینڈرز کو ووٹر رجسٹریشن سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی۔الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد ریٹرننگ افسر بغیر وقت ضائع کئے نتائج کی کاپی الیکشن کمیشن کو بھجوائے گا، ریٹرننگ افسر عبوری نتائج کی اوریجنل کاپی 24 گھنٹے کے اندر الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا پابند ہو گا،پریذائیڈنگ آفیسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا، پریذائیڈنگ آفیسر کو تاخیر کی صورت میں ٹھوس وجہ بتانی ہوگی، پریذائیڈنگ آفیسر کے پاس الیکشن نتائج کے لیے اگلے دن صبح دس بجے کی ڈیڈ لائن ہوگی۔ رجسٹرڈ ووٹرز کی مساوی تعداد کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں گی، حلقہ بندیوں کا الیکشن پروگرام کے اعلان سے قبل نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا۔ترمیم کے مطابق حلقہ میں ووٹرز کی تعداد کی تبدیلی 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکے گی، حلقوں کی فہرست پر کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل 30 دن کے اندر سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکے گی، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 24, 26, 28 سے 34, 36 اور 44 کو حذف کر دیا گیا ہے۔نئے شناختی کارڈ کے حامل ہر فرد کا ڈیٹا نادرا فوری الیکشن کمیشن کو بھجوانے کا پابند ہوگا، شناختی کارڈ بننے کے ساتھ ہی ڈیٹا ووٹر لسٹ میں اندراج کیلئے بھجوا دیا جائے گا، کاغذات نامزدگی کے ساتھ اسمبلی کیلئے پچاس ہزار اور صوبائی اسمبلی کیلئے تیس ہزار روپے فیس جمع کرانا ہوگی۔ترمیم کے بعد اگر کوئی منتخب رکن قومی اسمبلی یا سینٹ کے پہلے اجلاس کے 60 روز کے اندر حلف نہیں لیتا تو اس کی نشست خالی قرار دے دی جائے گی، عام انتخابات کے تین دن کے اندر سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستوں پر ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوگی، سینیٹ اور ٹیکنو کریٹ کی نشست پر تعلیمی قابلیت کے علاوہ 20 سالہ تجربہ بھی درکار ہوگا۔پولنگ ڈے سے 5 روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں کیا جاسکے گا، انتخابی اخراجات کے لیے امیدوار پہلے سے زیر استعمال بینک اکانٹ استعمال کرسکیں گے، حلقہ بندیاں رجسٹرڈ ووٹرز کی مساوی تعداد کی بنیاد پر کی جائیں گی، حلقہ بندیوں کا عمل انتخابی شیڈول کیاعلان کے 4 ماہ قبل مکمل ہوگا۔تمام انتخابی حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد برابر ہوگی،الیکشن کمیشن پولنگ عملے کی تفصیلات ویب سائٹس پر جاری کرے گا، پولنگ عملہ انتخابات کے دوران اپنی تحصیل میں ڈیوٹی نہیں دے گا، پولنگ اسٹیشن میں کیمروں کی تنصیب میں ووٹ کی رازداری یقینی بنائی جائے گی، کاعذات نامزدگی مسترد یا واپس لینے پر امیدوار کو فیس واپس کی جائیگی، امیدوار ٹھوس وجوہات پر پولنگ اسٹسشن کے قیام پراعتراض کرسکے گا۔حتمی نتائج کے تین روز کے اندر سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں کی حتمی ترجیحی فہرست فراہم کریں گی، قومی اسمبلی کی نشست کیلئے 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک خرچ کرنے کی حد ہوگی، صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ روپے تک خرچ کیے جاسکیں گے۔غفلت پر پریزائیڈنگ اور ریٹرنگ افسر کے خلاف فوج داری کارروائی کی جائے گی، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا فیصلہ 15 کے بجائے 7 روز میں کیا جائے گا، پولنگ عملے کی حتمی فہرست الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے گی، امیدوار 10 روز کے اندر حلقے میں پولنگ عملے کی تعیناتی چیلنج کرسکے گا۔سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے، ہنگامی صورتحال میں پرائیڈنگ افسر کی اجازت سے پولنگ اسٹیشن کے اندر آسکے گے، الیکشن کمیشن ریٹرننگ آفیسر کو ماتحت حلقے کی ووٹر لسٹ پولنگ سے 30 روز قبل فراہم کرنے کا پابند ہوگا، معذور افراد کو ووٹ کی سہولیات پریزائڈنگ آفیسر دینے کا پابند ہوگا، الیکشن ٹریبونل 180 دن امیدوار کی جانب سے دائر پٹیشن پر فیصلہ کرنے کا پابند ہوگا، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کی صورت میں پارٹی کو 2 لاکھ جرمانہ ہوگا۔۔