- سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے،سپریم کورٹ
- بتائیں آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 175/3 کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے،جسٹس یحییٰ آفریدی کا اٹارنی جنرل سے استفسار
- کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتا،اٹارنی جنرل کا جواب
- کیا آئین میں ایسی اور کوئی شق ہے جس کی بنیاد پر آپ بات کر رہے ہیں؟ ،جسٹس عائشہ ملک
- میں آپ کے سوال کو نوٹ کر لیتا ہوں ،اٹارنی جنرل کا جواب
- بنیادی انسانی حقوق مقننہ/ قانون سازوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے،جسٹس منیب اختر
- آرٹیکل 175 کے تحت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا ذکر ہے،جسٹس عائشہ ملک
- فوجی عدالتوں کا قیام ممبرز آف آرمڈ فورسز اور دفاعی معاملات کیلئے مخصوص ہیں،اٹارنی جنرل
- عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے۔فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر بیرسٹر اعتزاز احسن روسٹرم پر آ گئے، انہوں نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں 4 لائنیں پڑھنا چاہتا ہوں، پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے، خفیہ ادارے کسی بھی وقت کسی کی بھی تلاشی لے سکتے ہیں، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ تلاشی کا حق قانون سازی کے ذریعے دے دیا گیا، اس قانون سے تو لا محدود اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں۔ اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ یہاں سپریم کورٹ کے 6 ججز بیٹھے ہیں، اس وقت سپریم کورٹ کے 6 ججز کی حیثیت فل کورٹ جیسی ہے، سپریم کورٹ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف ازخود نوٹس لے۔چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل ہے یا قانون ہے؟ بل پارلیمنٹ کے دوسرے ایوان میں زیر بحث ہے، دیکھیں پارلیمنٹ کا دوسرا ایوان کیا کرتا ہے، ہمیں اس بارے میں زیادہ علم نہیں صرف اخبار میں پڑھا ہے، لارجر بنچ کا فیصلہ ہے کہ اکیلا چیف جسٹس ازخود نوٹس نہیں لے سکتا۔اعتزاز احسن نے تجویز دی کہ آپ اپنے باقی ججز سے مشاورت کر لیں۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ آپ یہ ہمارے علم میں لائے، آپ کا شکریہ، اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ ملک میں اس وقت مارشل لا جیسی صورتحال ہے۔دریں اثنا اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کر دیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ بتائیں آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 175/3 کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتا۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں ایسی اور کوئی شق ہے جس کی بنیاد پر آپ بات کر رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آپ کے سوال کو نوٹ کر لیتا ہوں۔اس پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ پھر میرے سوال سے ہٹ رہے ہیں؟ انصاف تک رسائی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجی عدالتیں ٹریبونل کی طرح ہیں جو آرمڈ فورسز سے وابستہ افراد اور دفاع کے متعلق ہے، کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالت کے زمرے میں نہیں آتا اس لئے اس میں اپیل کا حق نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آرمی ایکٹ کے حوالے سے دیئے گئے جرائم میں سویلین کے ٹرائل کا آئینی جائزہ لے رہے ہیں، ہم اب آئینی طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں، کیسے ملٹری کورٹس میں کیس جاتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے، بنیادی انسانی حقوق مقننہ/ قانون سازوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے، بنیادی انسانی حقوق کا تصور یہ ہے کہ ریاست چاہے بھی تو واپس نہیں لے سکتی، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پارلیمنٹ کچھ جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کرے اور دوسری پارلیمنٹ کچھ جرائم کو نکال دے یا مزید شامل کرے، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت تو آئین پاکستان نے دے رکھی ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 175 کے تحت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا ذکر ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجی عدالتوں کا قیام ممبرز آف آرمڈ فورسز اور دفاعی معاملات کیلئے مخصوص ہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اگر ملٹری کورٹس کورٹ آف لا نہیں تو پھر یہ بنیادی حقوق کی نفی کے برابر ہے، آئین کا آرٹیکل 175 تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی بات کرتا ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔