کشمیریوں کی غیر متزلزل حمایت کا جرم، بھارت کا اسرائیل سے مل کر بحیرہ روم میں ترکیہ کی گھیرا بندی کا منصوبہ
نئی گریٹ گیم کے تحت بحری اقتصادی زون میں موجود تیل اور گیس کے ذخیروں کو ترکیہ دسترس سے دور رکھا جائے گا
بھارت مستقل طور پر اس بحری اقتصادی زون میں بحری افواج کی ایک ٹکڑی تعینات کرے گا۔ دی وائر میں رپورٹ
نئی دہلی( ویب نیوز )
بھارت نے بحیرہ روم میں نئی گریٹ گیم کے تحت اسرائیل، یونان اور یونانی قبرص کے ساتھ مل کر، ترکیہ کی گھیرا بندی کرکے اس کے بحری اقتصادی زون کو سکیڑکر اس خطے میں موجود تیل اور گیس کے ذخیروں کو اس کی دسترس سے دور رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ دی وائر کے مطابق بحیرہ روم ایک انتہائی اسٹریٹجک زون میں واقع ہے، اس کی 46ہزار کلومیٹر طویل ساحلی پٹی پر 22ممالک آبادہیں۔مودی کے حالیہ دورہ یونان سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ شایدہندوستان اب اس سمندر میں مستقل طور پر بحری افواج کی ایک ٹکڑی کو تعینات کرنے والا ہے، جو اس کے بحری جہازوں کو اسرائیل اور یونان کی بندر گاہوں کے درمیان سفر طے کرتے ہوئے حفاظت فراہم کریں گے۔ محقق اور صحافی سید افتخار گیلانی کی رپورٹ کے مطابق دو سال پہلے جب ترکیہ-آذربائیجان اور پاکستان نے ایک سہ فریقی دفاعی تعاون کے ایک معاہدہ کا اعلان کیا تھا، تو ہندوستان میں دفاعی امور کے ماہرین نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ اس اتحاد کا توڑ کرنے کے لیے ہندوستان کو یونان، اسرائیل اور آرمینیا کے ساتھ ایک گٹھ جوڑ کرنا چاہیے۔نگورنو کاراباخ کی جنگ کے دوران ہندوستان نے آرمینیا کو آذربائجان کے خلاف جنگ میں ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ اس جنگ میں آرمینیا کو قطعی شکست سے دوچار ہوکر نگورنو کاراباخ کا وسیع علاقہ آذربائیجان کے حوالے کرنا پڑا۔ مگر جلد ہی ان ماہرین پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اسرائیل اور آرمینیا نظریاتی اور تاریخی مناشقات کی وجہ سے کسی ایک اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتے ہیں۔دوسری طرف اسرائیل آذربائیجان کا حلیف بھی ہے۔ اس لیے بعد میں آرمینیا کو چھوڑ کر یونان، یونانی قبرص اور اسرائیل کے ساتھ ایک محور بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ کیونکہ ایک تو اس دوران ترکیہ نے ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے خلاف کسی سخت قدم اٹھانے سے باز رکھا، پھر 5اگست 2019 کوکشمیر کے حوالے سے ہندوستانی اقدامات کی کھل کر مخالفت کی اور اسی دوران ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر بھی آواز اٹھائی، اس لیے کچھ باز پرس تو ہونے ہی والی تھی۔گو کہ حالیہ عرصے میں ہندوستان اور ترکیہ کے تعلقات میں خوشگوار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، دو طرفہ سالانہ تجارت کا حجم بھی 10بلین ڈالر سے تجاوز کر گیایونان کے ساتھ دفاعی شراکت داری کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جی20کے سربراہی اجلاس کے لیے ہندوستان جا رہے ہیںپچھلے ہفتے ہندوستانی وزیر اعظم نریندو مودی کے یونان کے ایک روزہ دورے نے ترکیہ کو تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے۔ کیونکہ ایتھنز میں جس جامع دفاعی شراکت داری کا اعلان کیا گیا ہے، ۔ اگرچہ ترکیہ اور یونان دونوں ناٹو کے رکن ممالک ہیں، مگر یہ کئی دہائیوں سے مختلف دوطرفہ مسائل پر تنازعات کا شکار رہے ہیں، جن میں سمندری سرحدوں کی حدود کے تنازعات، اپنے براعظمی شیلفوں کے دعوے اور طویل عرصے سے جاری قبرص تنازعہ شامل بھی ہے۔ گزشتہ 50 سالوں میں کم از کم تین بار یہ دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔مودی کے دورے سے قبل ہندوستانی فضائیہ اور بحریہ نے یونان میں اور پھر بحیرہ روم میں مشقیں کرکے خطے میں اپنی موجودگی درج کروائی۔ دو نوں فریقوں کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انٹلی جنس شیئرنگ کا ایک طریقہ کار طویل عرصے سے موجود ہے۔ یہ 40 سالوں میں کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔ اندرا گاندھی نے 1983میں یونان کا دورہ کیا تھا۔ایتھنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے ماہر آئیونس کوٹولاس کے مطابق ہندوستان چونکہ معاشی طاقت بننے کا خواہاں ہے، اس لیے وہ یورپ جانے والی سمندری گزرگاہوں پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے یا کم از کم ان کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ہندوستان کے اسٹریٹجک مفادات مغرب کی طرف بحر ہند کے علاقے سے مشرقی بحیرہ روم تک پھیلے ہوئے ہیں، جہاں ایک سرے پر یونان، تو دوسرے سرے پر اسرائیل اس کے روایتی حلیف ہیں۔ اگر ہندوستان کے پاس دنیا کی مضبوط زمینی فوج ہے، تو یونان کے پاس دنیا کی 16ویں مضبوط فضائیہ ہے۔ یورپی یونین میں اس کی فضائیہ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ایک بڑا اور مضبوط بحری بیڑا بھی ہے۔سابق ہندوستانی سفارت کار انل تریگنایت کے مطابق یونان بحیرہ روم کی طاقت ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے مفادات میں فٹ بیٹھتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ مودی کے یونان کے دورہ کا مقصد ہی پیریوس بندر گاہ کو اڈانی کے لییحاصل کروانا تھا۔ یہ منصوبہ نہ صرف ہندوستان کو ایران میں چابہار کی بندرگاہ کا متبادل فراہم کرے گا بلکہ ہندوستان، اسرائیل اور یونان کے درمیان تعاون کو بڑھاوا دیکر ترکیہ کے لیے مشکلات پیدا کرکے اس کی صلاحیتوں کو محدود کردیگا۔اس منصوبے پر سب سے پہلے نومبر 2021 میں 12ویں سر بنی یاس فورم کے موقع پر دبئی میں ہندوستان، متحدہ عرب امارات، یونان، یونانی قبرص، اسرائیل اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا ۔