ملک بھر میں 75ہزار آئی ٹی گریجویٹس کا سینٹرالائزڈ امتحان لینے کا فیصلہ
جو لوگ اس ٹیسٹ کو پاس کریں گے کو آئی ٹی انڈسٹری میں لازمی انٹرن شپ کرانے کے بعد نوکری دی جائے گی۔نگران وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی
نیشنل کمپیوٹنگ اینڈ ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل کے زیر انتظام یہ امتحانات ہوں گے، تمام جامعات میں ہوں گے پہلا امتحان دسمبر میں ہوگا
نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس
اسلام آباد(ویب نیوز)
نگران وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف نے کہا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کو باصلاحیت اور ہنرمند افراد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پاکستان سے ہر سال پاس ہونے والے 75ہزار آئی ٹی گریجویٹس کا ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے سینٹرالائزڈ امتحان لیا جائے گا اور جو لوگ اس ٹیسٹ کو پاس کریں گے کو آئی ٹی انڈسٹری میں لازمی انٹرن شپ کرانے کے بعد نوکری دی جائے گی۔نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر سیف نے کہا کہ ہر سال پاکستان کی یونیورسٹیز 75 ہزار انفارمیشن ٹیکنالوجی گریجویٹ پیدا کرتی ہیں، مجھے لگتا تھا کہ شاید ہم 20 سے 25ہزار گریجویٹ پیدا کرتے ہیں لیکن ان میں سے صرف ڈھائی تین ہزار ایسے ہیں جن کو آئی ٹی کمپنیاں فوری بھرتی کر سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ٹی گریجویٹ یا سافٹ ویئر ڈیولپر اگر اس کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں کہ اسے عالمی سطح پر 28 سے 30 ڈالر فی گھنٹہ دیے جا سکے تو پھر ان کو ان کمپنیوں میں بھرتی بھی نہیں کیا جاتا، ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں سافٹ ویئر کی مانگ کم ہے، بھارت کی آئی ٹی کی صنعت 150 ارب ڈالر کی ہے تو مانگ کی کمی نہیں بلکہ ہمارے پاس ہنرمند افراد اور گریجویٹس کی کمی ہے حالانکہ ہماری یونیورسٹیز ہر سال 75 ہزار گریجویٹس پیدا کررہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مل کر پورے نظام کو ازسرنو بدلنے چلے ہیں اور اس میں دو تین بڑی تبدیلیاں لا رہے ہیں، ایک یہ کہ پاکستان میں آئی ٹی گریجویٹس کا ایچ ای سی کے ذریعے معیاری ٹیسٹ لیا جائے گا، ان کو پرکھا جائے گا اور وہ لوگ جو اس ٹیسٹ کو پاس کریں ان کو آئی ٹی انڈسٹری کے ساتھ مل کے لازمی انٹرن شپ کرائی جائے گی، تو اب 75ہزار گریجویٹس کا ایک سینٹرالائزڈ امتحان لیا جائے گا اور اس میں جو پاس ہوں گے انہیں انٹرن شپ کرا کے نوکری دی جائے گی۔نگران وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا کہ اس کی بدولت جو ہمیں لوگوں کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، اسے حل کرنے میں مدد ملے گی، آئی ٹی انڈسٹری کی ترقی کے لیے اس معیار کے لوگ ہی میسر نہیں ہیں جو ان کو درکار ہیں تو ہم اپنے نظام تعلیم میں بہت بڑی تبدیلی کرنے چلے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کے ادارے نیشنل کمپیوٹنگ اینڈ ایجوکیشن ایکریڈیشن کونسل کے زیر انتظام یہ امتحانات ہوں گے، تمام جامعات میں یہ ٹیسٹ ہوں گے اور اس سلسلے کا پہلا امتحان دسمبر میں ہو گا، یہ گریجویشن سے چھ ماہ پہلے لیا جائے گا اور آخری سیمسٹر میں طلبا کے لیے اپنا 70فیصد وقت آئی ٹی انڈسٹری میں گزارنا ضروری ہو گا تاکہ انہیں عملی تجربہ حاصل ہو جائے، جرمنی امریکا سمیت جن ممالک میں بھی آئی ٹی کی صنعت نے ترقی کی ہے وہاں اس طرح کے پروگرام کامیابی سے چلائے جا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نیو ٹیک کے ساتھ مل کر ہم اس سال 16ہزار لوگوں کو ان آئی ٹی کی مہارتوں کی تربیت دینے جا رہے ہیں جن کی دنیا میں اس وقت بہت مانگ ہے تاکہ جب آئی ٹی کی صنعت کو یہ مہارت حاصل ہو گی تو وہ باہر جا کر بڑے کنٹریکٹس لے سکیں گی۔عمر سیف نے کہا کہ ہم جن لوگوں کو تربیت فراہم کر رہے ہیں ان میں سے ایک ڈیولپر سال میں 60 سے 70ہزار ڈالر کماتا ہے تو اگر آپ اسے 16ہزار سے ضرب دیں تو بہت بڑی رقم آئے گی، اسی طرح ہم جو نیو ٹیک کے ذریقے لوگوں کو ترتبیت دینے جا رہے ہیں تو اگلے دو سال میں ہم دو لاکھ لوگوں کو تربیت دینا چاہتے ہیں جنہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت میں شامل کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی سے گریجویٹ کرنے والا ایک سافٹ ویئر ڈیولپر جس نے کوئی خاص سرٹیفکیشن نہیں کی ہوتی، وہ 25ہزار ڈالر کما کر دے سکتا ہے، دو لاکھ ڈالر کا مطلب ہے کہ 5ارب ڈالر اضافی درآمدات کی صلاحیت آئی ٹی کے شعبے میں شامل کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اس نئے اقدام کی بدولت ہر سال 10 سے 15 ہزار لوگ تربیت حاصل کرتے رہیں گے تاکہ آئی ٹی کمپنیوں کو باصلاحیت لوگ فراہم کیے جا سکیں۔نگران وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں فری لانسرز موجود ہیں اور 15 لاکھ سے زائد لوگ گھر بیٹھے انٹرنیٹ پر فری لانسنگ کرتے ہیں، کوئی دن کے 10 ڈالر کما رہا ہے تو کوئی 30 ڈالر کما رہا ہے اور 15 لاکھ لوگوں کا مطلب ہے کہ پاکستان دنیا کی دوسری بڑی آن لائن ورک فورس ہے۔انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی آن لائن ورک فورس ہونے کے باوجود یہ لوگ باقاعدہ اس طرح نہیں کما پا رہے جو ان میں صلاحیت ہے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ہم ایک بہت بڑا پروگرام شروع کررہے ہیں جس کا نام ہم نے پاکستان ای روزگار پروگرام رکھا ہے جس کے تحت ہم نجی شعبے کو سود سے پاک قرضے دینے جا رہے ہیں ججس کے تحت وہ تمام شاپنگ بلڈنگز اور دفاتر جو خالی پڑے ہیں انہیں ای روزگار سینٹرز میں تبدیل کر لیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس کے لیے قرضے فراہم کرے گی تاکہ نجی شعبہ اپنے کام کو ای روزگار سینٹرز میں ٹرانسفر کر لیں اور ہمارا ہدف ہے کہ ہم پانچ لاکھ فری لانسرز کے لیے کام کرنے کی جگہ بنائیں، اس کے لیے حکومت قرضے فراہم کرے، تربیت دے اور تربیت یافتہ فرد فراہم کرے تاکہ ان تمام فری لانسرز کو سہولت فراہم کی جائے۔انہوں نے کہا کہ اگر 5 لاکھ افراد روزانہ 30 ڈالر کماتے ہیں تو سالانہ 10 ارب ڈالر کی رقم کما سکتے ہیں جو سے ملک کو زرمبادلہ کی مد میں خطیر رقم حاصل ہو گی اور ہمیں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں ہو گی۔۔