مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی حماس جیسا اقدام اٹھا سکتے ہیں،کشمیر ی قیادت کا انتباہ

کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کے باعث عالمی امن کوشدید خطرہ لاحق  ہے

 پاکستان کو آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم کی نامزدگی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے

 ڈاکٹر مشتاق ، تنویر الیاس، چوہدری یاسین ، محمود ساغر دیگر کا کشمیر فلسطین یکجہتی کانفرنس

بھارت ، اسرائیل اوران کے سہولت کاروں سے سفارتی اور اقتصادی تعلقات ختم کرنے ہوں گے

بھارت اور اسرائیل کو کشمیر اور فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرنا ہوگا ۔ اعلامیہ

اسلام آباد ( ویب  نیوز)

کشمیر کی آر پار قیادت نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ کشمیر اور فلسطین کے تنازعات کے باعث عالمی امن کو خطرہ ہے ، مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی حماس جیسا اقدام اٹھانے پر مجبور ہو سکتے ہیں ، پاکستان کو آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم کی نامزدگی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔ مقبوضہ کشمیر میں غلط پیغام جا رہا ہے ۔ آزاد کشمیر کو حقیقی معنوں میں بیس کیمپ بنائے بغیر تحریک آزادی کشمیر کو تقویت نہیں مل سکتی ۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیرکے زیراہتمام کشمیر فلسطین یکجہتی کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے کیا اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ۔بھارت اور اسرائیل سمیت ان کے پشتیبانوں کے ساتھ تمام سفارتی اور اقتصادی تعلقات ختم کرنے ہوں گے۔کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں پر ظلم کے پہاڑتوڑنے والوں کااحتساب کرنا ہوگا۔ بھارت اور اسرائیل کو کشمیر اور فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرنا ہوگا ۔ امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا کہ امریکہ کی جانب دارانہ پالیسیوں کے باعث دنیا امن سے محروم ہے ، کشمیر اور فلسطین پچہتر برسوں سے مظالم کا شکارہیں، ہندوستان اور اسرائیل کشمیریوںاور فلسطینیوںکا خون پانی کی طرح بہا رہے ہیں ، کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں، حماس نے ثابت کر دیا کہ اسرائیل جذبہ جہاد کے آگے نہیں ٹھہر سکتا ، کشمیری اور فلسطینی آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ، سابق وزیر اعظم تنویر الیاس نے کہا کہ جماعت اسلامی نے کشمیر فلسطین یکجہتی کانفرنس کا انعقاد کر کے قابل مبارک اقدام کیا ہے ، حکومت پاکستان اوراو آئی سے اگر کردار ادا نہیں کریںگے تو اسلام آباد ، استنبول اور ریاض بھی محفوظ نہیں رہیں گے ، ہندوستان اور اسرائیل جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں ،پیپلز پارٹی آزاد کے صدر چوہدری یاسین نے کہا کہ کشمیر اور فلسطین میںمظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اسلام ممالک اپناکردار ادا کریں،جموںو کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر حسن ابراہیم نے کہاکہ کشمیر اورفلسطین میں بچوںکو مارنے، خواتین سے زیادتی سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاںکی جا رہی ہیں، اس موقع پر حریت کانفرنس کے کنوئنیئر محمود ساغر  نے کہا کہ جب پاکستان سے آزاد کشمیر کے صدر وزیر اعظم کی نامزدگی کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس سے مقبوضہ کشمیر میں اچھا پیغام نہیں جاتا ۔ بھارت ایک مضبوط معیشت ہے مگر آج تک کشمیریوں نے اس کے معاشی اقتصادی استحکام کی طرف نہیں دیکھا ۔ پاکستان سے امیدیں وابستہ ہیں مگر اس کی قیادت سے بعض مواقع پر حوصلہ افزاء پیغام نہیں ملا ۔ بھارت نے کشمیری تشخص کو ختم کیا تو پاکستان کے وزیر اعظم نے آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو انتہائی منفی پیغام دیا اور آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں ۔ اس معاملے میں پاکستان کی ایک اور اعلی شخصیت کا نام بھی لیا جاتا ہے خدا را ایسا نہ کریں آزاد کشمیر کو حقیقی معنوں میں بیس کیمپ بنائیں ۔ حماس کی جانب اگر دنیا متوجہ ہوئی تو کشمیری بھی 1989 ء میں بندوق اٹھا چکے ہیں ۔ پھر دنیا کا کوئی سفارتخانہ تو کیا نئی دہلی سے ہمارے پاس وفود آتے تھے ۔ خبردار کرتے ہیں مظلوم کشمیری بھی تنگ آمد بجنگ آمد کی  مصداق حماس جیسا اقدام اٹھا سکتے ہیں ۔  تحریک حریت کے کنویئنئر غلام محمد صفی ،  عبدالرشید ،جموںوکشمیر جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری جنرل مولاناامتیاز صدیقی سمیت دیگر قائدین نے خطاب کیا ۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہفلسطین اور کشمیر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔دونوں تنازعات کی شروعات ١٩٤٧ء سے ہوتی ہے۔اقوام متحدہ نے ١٩٤٨ء میں فلسطین اور کشمیر دونوں کے عوام کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔فلسطینی اپنی ریاست بحال نہیں کر ا سکے تو کشمیریوں کو بھی اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔عالمی ادارے اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین اور کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکامی کی وجہ سے دونوں مغربی اور جنوبی ایشیائی خطے فوجی تنازعات کی صورت میں عدم استحکام کا شکار ہوئے ہیں۔لاکھوں لوگ اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ، کروڑوں زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ شہری انفراسٹرکچر اور لوگوں کی زندگیوں کو پہنچنے والے نقصانات کا حساب لگانا مشکل ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت دلانے میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ناکامی دونوں خطوں میں موت اور بربادی لارہی ہے۔فلسطین اور کشمیر کے لوگ اگرناجائز قبضوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے ہیں تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے، یہ حق تو انہیں بین الاقوامی قانون نے دے رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی سامراج کے خلاف جدوجہد کر سکتے ہیں۔پروپیگنڈے اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے فلسطینی اور کشمیری عوام کی زندگیاں اجیرن بنانا اور انہیں انسانوں کی طرح جینے کا حق نہ دینا نازی جرمنی کی پالیسیوں کی توسیع ہے۔عالمی جنگ میں اتحادی افواج نے فسطائیت کا مقابلہ کیا اور اپنے زعم میں اسے شکست بھی دے دی، مگراب اس فسطائیت کو دوبارہ ان لوگوں نے جنم دیا جو خود اس کا شکار رہے یعنی یہودی جبکہ ہندوستان کو آزادی نوآبادیات کے خاتمے کی وجہ سے ملی، لیکن کسے معلوم تھا کہ یہی بھارت آگے چل کر کشمیر میں استعمار کا روپ دھارلے گا۔ہندوستان اوراسرائیل کا گٹھ جوڑ ایک بدیہی حقیقت ہے، دونوں مشترکہ اقتصادی اور فوجی پالیسیوں اور ہتھکنڈوں کو خاص طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔لہٰذا، ہم اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کو کشمیر اور فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کرنا ہوگا۔بھارت اور اسرائیل کو بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشنز اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابندی کرنی ہوگی۔مقبوضہ عوام کو حق خود ارادیت کے ذریعے اپنی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنے کا فوری حق دینا ہوگا۔نیورمبرگ ٹرائلز کی طرح فلسطین اور کشمیر کے متاثرین کو آئی سی سی اور آئی سی جے کے ذریعے انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔نوآبادکار کالونیاں بسانے اور آبادی میں تناسب کو بگاڑنے کے لئے کیے جانے والے اقدامات واپس لینا ہوں گے۔خواتین اور بچوں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی یقینی بنانا ہوگی۔جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسلی تطہیراور نسل کشی کی حدوں کو چھوتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کے لیے امدادی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو آزادانہ اور بلا روک ٹوک رسائی دینا ہوگی۔بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ان کے پشتیبانوں کے ساتھ تمام سفارتی اور اقتصادی تعلقات ختم کرنے ہوں گے۔کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں پر ظلم کے پہاڑتوڑنے والوں کااحتساب کرنا ہوناہوگا۔

#/S