بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کا تحریری حکم جاری
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگر ان وزیرِ اعظم اور نگرا ن وزیرِ داخلہ نے اس مسئلے پر کوئی مثبت اقدام نہیں کیا
امید ہے کہ نگران وزیرِ اعظم، نگران  وزراء اور سیکرٹریز ٹھوس نتائج کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں گے
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا
کوئی طالب علم ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہو تو اسے متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے،تحریری حکم

اسلام آباد (  ویب  نیوز)

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی سے متعلق قائم کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کیس کا تحریری حکم جاری کر دیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے گزشتہ سماعت کا 5 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو بھی 29 نومبر کو 11 بجے عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نگر ان وزیرِ اعظم اور نگرا ن وزیرِ داخلہ نے اس مسئلے پر کوئی مثبت اقدام نہیں کیا، نگرا ن وزیرِ اعظم، نگران وزراء اور سیکرٹریز پیش ہو کر بتائیں کہ معاملے کو اہمیت کیوں نہیں دے رہے؟۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ نگران وزیرِ انسانی حقوق، سیکرٹری داخلہ اور دفاع بھی آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ امید ہے کہ نگران وزیرِ اعظم، نگران  وزراء اور سیکرٹریز ٹھوس نتائج کے ساتھ عدالت میں پیش ہوں گے۔انہوں نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ امید ہے کہ عدالت کو بتایا جائے گا کہ لاپتہ طلبہ اپنے گھروں میں واپس پہنچ گئے ہیں۔تحریری حکم نامے کے مطابق مختلف یونیورسٹیوں کے 69 بلوچ طلبہ کی نسلی پروفائلنگ کی گئی، انہیں ہراساں اور جبری گمشدہ کیا گیا، ریکارڈ کے مطابق کچھ لاپتہ طلبہ گھروں کو لوٹ آئے لیکن کم از کم 50 اب بھی غائب ہیں۔عدالتی حکم نامے کے مطابق سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے بلوچ طلبہ کے تحفظات کے ازالے کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے جبری گمشدہ بلوچ طلبہ اب بھی لاپتہ ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ21 سماعتوں کے باوجود اس مسئلے پر مثبت نتائج نہ آنا آئینِ پاکستان کی توہین ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ عدالتیں مظلوم کے لیے امید کی آخری کِرن ہوتی ہیں، ریاستی عہدیداروں کے اس سست رویے نے اعلیٰ عدالتوں پر عوامی اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔تحریری حکم نامے میں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ الارمنگ ہے کہ ریاستی اداروں پر بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی کا الزام ہے اور وہی ان کو بازیاب کرانے میں بے بس ہیں، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وفاقی حکومت اس معاملے سے غیر سنجیدگی سے نمٹ رہی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے تحریری حکم نامے کے مطابق شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ دار حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روک نہیں پا رہی، عدالت کے پاس نگران وزیرِ اعظم، نگران وزیرِ دفاع اور داخلہ کو طلب کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔عدالتی تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اٹھایا، کوئی طالب علم ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہو تو اسے متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔