شوکت صدیقی کی برطرفی کیس،فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کیلئے (آج) تک کیلئے مہلت دیدی
کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق بنائیں، چیف جسٹس کا وکیل شوکت عزیز سے مکالمہ
آپ کی تقریر کا بنیادی مقصد اپنے ادارے پر کیسز کے تقرر کے دباؤ کو سامنے لانا تھا، ہم کسی کو سنے بغیر اس کیخلاف فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟،ریمارکس
اسلام آباد ( ویب نیوز )
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف درخواست میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کیلئے (آج )جمعہ تک مہلت دیدی ۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ کی تبدیلی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے آج کل ہر کوئی فون اٹھا کر صحافی بنا ہوا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں یہ بینچ تشکیل دیا، پہلے اس بینچ میں کون کون سے ججز تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم اس بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہتے، باقی ججز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، میں نے بینچ سے کسی کو نہیں ہٹایا، بینچوں کی تشکیل اتفاق رائے یا جمہوری انداز میں ہو رہی ہے، موبائل ہاتھ میں اٹھا کر ہر کوئی صحافی نہیں بن جاتا، صحافی کا بڑا رتبہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج کل جمہوریت کا زمانہ ہے، اس وقت جمہوریت مشکل حالات میں ہے، آپ کی معاونت درکار رہے گی، جمہوریت چلتی رہے گی، آپ نے اسے آگے لے کر چلنا ہے۔حامد خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کیس سنا، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود ،جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس مظہر عالم میاں اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ آپ کو اس بنچ کے کسی رکن پر اعتراض تو نہیں ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ نہیں اس بینچ کے کسی رکن پر اعتراض نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آج کل ویسے بھی اعتراض کا زمانہ ہے۔چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ملک جمہوریت کی طرف گامزن ہے تو سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت آرہی ہے، کیا شوکت عزیز صدیقی کی تقریر تحریری تھی؟ حامد خان نے جواب دیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے بغیر لکھی تقریر کی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو مرضی کا فیصلہ کرنے کا کس نے کہا تھا؟ حامد خان نے کہا کہ جنرل فیض حمید ایک برگیڈیئر کے ساتھ شوکت عزیز صدیقی کے گھر گئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جس شخص پر الزام لگا رہے ہیں انہیں فریق کیوں نہیں بنایا گیا؟ حامد خان نے کہا کہ شخصیات ادارے کی نمائندگی کر رہی تھیں اس لیے فریق نہیں بنایا، فیض حمید کو بطور گواہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بلانا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ یا کسی پر الزام نہ لگائیں یا پھر جن پر الزام لگا رہے انہیں فریق بنائیں۔دوران سماعت ایڈووکیٹ حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا متن پڑھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کون تھے، حامد خان نے کہا کہ اس وقت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی تھے، شوکت عزیز صدیقی پر 4 ریفرنسز بنائے گئے، ایک ریفرنس یہ بنایا کہ سرکاری رہائیش گاہ پر شوکت عزیز صدیقی نے زائد اخراجات کیے۔حامد خان نے کہا کہ ہم نے کونسل میں درخواست دی کہ ججز کی سرکاری رہائش گاہوں پر ہونے ولے اخراجات کی مکمل تفصیل دیں، کونسل نے جواب دیا جو مانگ رہے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، ایک ریفرنس 2017 کے دھرنے کی بنیاد پر بنایا گیا، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریمارکس دئیے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں عدالتی ریمارکس پر ریفرنس بنایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف شکایات کنندگان کون تھے، حامد خان نے کہا کہ رہائش گاہ پر زائد اخراجات کے شکائت کنندہ سی ڈی اے ملازم انور گوپانگ تھے، ایک ریفرنس ایڈووکیٹ کلثوم اور ایک سابق ایم این اے جمشید دستی نے بھیجا۔جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جمشید دستی کس سیاسی جماعت کا حصہ تھے؟ حامد خان نے کہا کہ مجھے کنفرم نہیں لیکن شائد آزاد حیثیت میں ہوں گے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یعنی آپ کہ رہے ہیں جمشید دستی مکمل آزاد نہیں تھے۔حامد خان نے کہا کہ راولپندی بار میں کی گئی تقریر پر جوڈیشل کونسل نے خود نوٹس لیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کو کیسے پتا چلا کہ کسی جج نے تقریر کی ہے؟ حامد خان نے کہا کہ ایجنسیوں نے شکایت کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ دیکھ کر بتائیں وہاں کیا لکھا ہوا ہے، حامد خان نے کہا کہ ریکارڈ میں 22 جولائی 2018 کا رجسٹرار کا ایک نوٹ موجود ہے۔وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے کلائنٹ نے ’ان‘ کے خلاف تو کوئی فیصلہ نہیں دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’ان‘ کی بات نہیں ہو رہی، عدالت نے ایک عام سوال کیا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی تقریر کا بنیادی مقصد اپنے ادارے پر کیسز کے تقرر کے دباؤ کو سامنے لانا تھا، ہم کسی کو سنے بغیر اس کے خلاف فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ کل کو وہ شخص آ کر ٹی وی پر اپنے خلاف الزامات تسلیم کر لے تو ہم بدنام ہو جائیں گے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ویسے کچھ لوگ بعد میں آ کر تسلیم کر لیتے ہیں کہ وہ دباؤ میں تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگلی سماعت پر صرف نوٹس ہوں گے تو بہتر ہے اپنی درخواست میں فریقین شامل کر لیں، آپ اگر آج فریقین شامل کر دیں تو کل سماعت کر کے نوٹس کر دیں گے، کل کے بعد پھر عدالت کی چھٹیاں ہوں گی اور میں دستیاب نہیں ہوں گا، اگر آپ کے موکل فریقین شامل کرنے میں ہچکچا رہے ہیں تو جنوری تک سماعت ملتوی کر دیں گے، ہم نے ویسے بھی سرما کی تعطیلات سارے بنچز پہلے ہی بنا چکے، وہ بھی ججز کمیٹی کے ذریعے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے کہ کسی کو فریق بنائیں یا نا بنائیں، اگر کسی کو فریق نہیں بنانا تو اپنی درخواست میں سے اس کا نام نکالیں اور ایک لفظ بھی ان کے خلاف نہ کہیے گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ بھی بتائیے گا کہ کیا رجسٹرار چیف جسٹس کو کسی جج کے خلاف خط لکھ سکتا ہے؟ کیس کو کل سماعت کر کے نوٹس کر دیں گے۔دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے معزول جج کیس کی تازہ سماعت کا حکمنامہ لکھوایا اور شوکت صدیقی کیس میں فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کے لیے ایک روز کی مہلت دیتے ہوئے سماعت کل صبح 10 بج کر 30 منٹ تک تک ملتوی کر دی۔قبل ازیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف کیس کی براہ راست نشریات سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پردیکھی جاسکیں گی، براہ راست عدالتی کارروائی اس یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پر نشر کی جائے گی۔خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیق کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرک بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے جسٹس پاکستان کو مختلف خطوط لکھے جن میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔نومبر 2020 کے اختتام پر انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان کے نام بھی ایک خط لکھا تھا جو بظاہر ان کا تیسرا ایسا خط تھا جس میں کیس کی جلد سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔اس طرح کے ایک خط میں سابق جج نے لکھا تھا کہ ایک عام شہری/قانونی چارہ جوئی کرنے والے کے لیے موجود حقوق کا ان کے لیے انکار نہیں کیا جائے گا اور ان کے ساتھ شخصی نقطہ نظر کے ذریعے عدالتی دفتر کی جانب سے امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔اس خط کا موضوع شوکت عزیز صدیقی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے عنوان سے آئینی درخواست 2018/76 کے نمٹانے میں طویل تاخیر سے متعلق تھا۔خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ وہ 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے۔سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے لکھا کہ ’میرے کیس میں اس کی خاص مثال ملتی ہے جہاں بینچ کے واضح احکامات کے باوجود درخواست کو کبھی خود سے مقرر نہیں کیا گیا اور ہر مرتبہ میں نے تحریری درخواستوں کے ذریعے آپ (چیف جسٹس) تک رسائی حاصل کی۔انہوں نے کہا تھا کہ میری حیرانی اور مایوسی کو 2 ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن دفتر کی جانب سے درخواست کو مقرر کرنے سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔