سپریم کورٹ کا ججز پر تنقید کی وجہ سے صحافیوں کوبھیجے گئے ایف آئی اے نوٹسزواپس لینے کا حکم
صحافی اگر عدالتی فیصلوں پرتنقید کرتے ہیں تو کریں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اگر آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو کچھ خیال آرٹیکل 14 کا بھی کریں،جسٹس مسرت ہلالی
کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی،اٹارنی جنرل کی عدالت کو یقین دہانی
اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے، مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہئیں،چیف جسٹس
ہو سکتا ہے آئندہ سماعت پر ارشد شریف کا کیس بھی ساتھ ہی لگا دیں،چیف جسٹس
عدالتی فیصلے پرتنقید ہونی چاہیے لیکن ججز کیخلاف من گھڑت کہانیاں نہیں بنانی چاہئیں،صدرسپریم کورٹ
وفاقی حکومت کو صحافیوں پر تشدد کیخلاف رپورٹ دوہفتے میں فراہم کرنے کی ہدایت، ازخود نوٹس کی سماعت آج (منگل ) تک ملتوی
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو ججز پر تنقید کی وجہ سے بھیجے گئے نوٹسز فوری واپس لینے کا حکم جاری کر دیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے صحافی اگر عدالتی فیصلوں پرتنقید کرتے ہیں تو کریں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے، اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے، مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہئیں ۔صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کتنے کیسز ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ چار درخواستیں ہیں جن میں قیوم صدیقی اور اسد طور درخواست گزار ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قیوم صدیقی بتائیں کیس خود چلانا ہے یا صدر پریس ایسوسی ایشن دلائل دیں گے؟ جس پر عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ میں کچھ حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ قدرت کا نظام دیکھیں کہ ہم نے ازخود نوٹس کورٹ نمبر دو میں لیا لیکن معاملہ 5 رکنی بینچ کے پاس ازخود نوٹس کے اختیار کے لئے چلا گیا، 5 رکنی بینچ نے طے کیا 184 تین کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے، صحافیوں کی ہی نہیں ججز کی بھی آزادی اظہار رائے ہوتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا عبدالقیوم صدیقی آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اس کیس کو چلانا نہیں چاہتے، جس پر عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ جب معاملہ جسٹس اعجازالاحسن کے بینچ میں گیا تو کہا تھا کہ کیس نہیں چلانا چاہتا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صحافیوں کی شکایت کو دیکھا ہی نہیں گیا تھا، سپریم کورٹ نے کیس نمٹانے کے بجائے 2021 سے سرد خانے میں رکھ دیا، عبدالقیوم صدیقی بتائیں کہ تب کیا درخواست تھی آپ کی اور اب کیا ہے؟۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا یا تو سرکار کہتی ہے کہ آرٹیکل 19 پر عمل نہیں کرانا یا داد رسی کرتی، بنیادی حقوق کو زندہ رکھیں یا پھر یہ صرف محض کاغذ پر تحریر سمجھیں، یہ کیس دفن ہونے کے ساتھ تو بنیادی حقوق بھی دفن ہو گئے، میں تو اپنے ادارے پر پہلے بات کروں گا، کب تک ماضی کی غلطیاں دہرائیں گے؟ مجھ پر تنقید کریں گے تو مجھے میری غلطی معلوم ہو گی۔ صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہا میں نے تو کہا تھا کہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں، جیسے یہاں مسئلہ رکھا ایسے ہی سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے پاس بھی جانا چاہا تھا، سابق چیف جسٹس گلزاراحمد کے پاس بھی جانا چاہا تھا لیکن اجازت نہیں دی گئی، چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا بس سابق چیف جسٹس پر تنقید نہیں کرنی موجودہ پر کرنی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا یہ شکایتیں سماعت کے لیے مقرر کیوں نہیں ہوتیں، دنیا میں زندہ قومیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں، زندہ قومیں ماضی سے سیکھتی ہیں اور ہم کہتے ہیں بس آگے بڑھو مٹی پا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایف آئی اے نے بھی بس رپورٹ دے دی تھی کہ کسی صحافی کے خلاف کارروائی نہیں چل رہی، ایف آئی اے نے پرانی کارروائیوں پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا اسد طور سے پوچھیں کہ کیا وہ لوگ پکڑے گئے جنہوں نے انہیں مارا تھا؟ اسد طور کیا آپ ان لوگوں کی شکلیں پہچان سکتے ہیں؟۔اسد طور نے کہا جنہوں نے تشدد کیا وہ پکڑے نہیں گئے تھے،آج بھی دیکھ کر پہچان سکتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کیا تشدد کرنے والوں کے سکیچ بنائے گئے تھے؟ اسد طور نے بتایا سکیچ بنا تھا لیکن جیو فینسنگ نہیں ہوئی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پوچھا کہ اسد طور کا کیس سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے یا ابھی بھی چل رہا ہے؟ اٹارنی جنرل اسد طور کے کیس سے متعلق جامع اور مفصل رپورٹ دیں۔اسد طور نے کہا میں ازخود نوٹس کی پیروی کرنا نہیں چاہتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نہ کریں لیکن ہم خود اس کیس کو دیکھیں گے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ تنقید روک کرمیرا یا سپریم کورٹ کافائدہ کر رہے ہیں تو آپ نقصان کر رہے ہیں، صحافی اگر عدالتی فیصلوں پرتنقید کرتے ہیں تو کریں، کسی کو تشدد پر اکسانے یا انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے،کسی بھی صحافی یا عام عوام کو بھی تنقید کرنے سے نہیں روک سکتے، سپریم کورٹ پر تنقید پر کوئی مقدمہ درج نہیں ہوگا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، اگر آرٹیکل 19 کا خیال ہے تو کچھ خیال آرٹیکل 14 کا بھی کریں۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا تھمب نیل پر جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ بہت عجیب ہے، فئیر تنقید میں مسئلہ نہیں لیکن جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ غلط ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ کسی صحافی کے خلاف تنقید پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی صحافی کو صرف تنقید کرنے پر پکڑا جائے تو یہ غلط ہے، مجھے تو گالم گلوچ سے بھی فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہئیں۔صحافی عبدالقیوم صدیقی نے کہاکہ وفاقی حکومت سے یہ بھی پوچھا جائے کہ جے آئی ٹی کس کے کہنے پر بنی کیونکہ اس پر بہت قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم ان کو بھی حقوق دلائیں گے جو ہمارے سامنے نہیں ہیں، خود پر تنقید کو ویلکم کرتا ہوں، کچھ باتیں قائد اعظم کی کر لیتے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے کہا انہوں نے تو قائد اعظم کا بھی مذاق اڑایا ہے۔صحافی مطیع اللہ جان نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا سوموٹو بھی مقررکیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے آئندہ سماعت پر ارشد شریف کا کیس بھی ساتھ ہی لگا دیں، ابھی کوئی ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جو اس کیس میں جاری احکامات سے متصادم ہو۔صدرسپریم کورٹ بار نے کہا عدالتی فیصلے پرتنقید ہونی چاہیے لیکن ججز کیخلاف من گھڑت کہانیاں نہیں بنانی چاہئیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹی وی کیلئے تو پیمرا کا ضابطہ اخلاق موجود ہے لیکن یوٹیوب کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہوتا، صرف جیو نیوز میں اندرونی احتساب کا طریقہ کار اور رولز بنائے گئے تھے، کیا میڈیا کی کوئی ریگولیٹری باڈی ہے؟۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ فتوے دینے والوں سے بدتر اور منفی سوچ کسی کی نہیں ہو سکتی، یہ نفرت پھیلاتے ہیں اور قبرستانوں تک کو نہیں چھوڑتے، یہ اب اژدھے بن چکے ہیں، ایک بچی ملالہ تعلیم کی بات کر رہی تھی اس پر حملہ کر دیا، ملالہ اب پاکستان تک نہیں آسکتی، ہمارے لئے کتنی شرم کی بات ہے۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے صحافیوں پر مقدمات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا کہ بتائیں مطیع اللہ جان، اسد طور، عامر میر، شفقت عمران کے علاوہ کون سے مقدمات ہیں، صحافیوں پر جو ایف آئی آرز ہوئیں اس کا ریکارڈ دیا جائے، جو صحافیوں نے ایف آئی آرز کرائیں ان کا بھی سارا ریکارڈ دیا جائے، ڈی جی ایف آئی اے اور آئی جی پولیس جیسے افسران سے تفصیلات لی جائیں۔عدالت نے صحافیوں کی ہراسگی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت آج (منگل تک ) ملتوی کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو صحافیوں پر تشدد کیخلاف رپورٹ دوہفتے میں فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔