پیپلزپارٹی کا وزارت عظمی کے لیے ن لیگ کی حمایت کرنے، حکومت کا حصہ نہ بننے کا اعلان
ہمیں مینڈیٹ نہیں ملا اس لیے خود کو وزیراعظم کی دوڑ میں شامل نہیں کررہا،بلاول بھٹو
پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے
کمیٹی حکومت سازی کے لیے دوسری جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔پریس کانفرنس
اسلا م آباد(ویب نیوز)
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے ہم ایک بار پھر پاکستان کھپے کا نعرہ لگائیں، اس لیے پاکستان پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم حکومت کی تشکیل میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دیں گے، تاہم وفاقی حکومت میں ہم وزارتیں نہیں لیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی ( سی ای سی )اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پی پی پی کی سی ای سی کا دو روزہ اجلاس مکمل ہوا جہاں ملکی اور سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی، پاکستان کے بحران پر بات کی گئی، پاکستان کا اصولی فیصلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کا ساتھ دینا ہے اور ملک کو مستحکم کرنا اور اس بحران سے نکالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ پھر وقت آگیا ہے کہ پی پی پی پاکستان کھپے کا نعرہ لگائے، حقیقت یہ ہے پی پی پی کے پاس وفاقی حکومت بنانے کے لیے مینڈیٹ نہیں ہے، اسی وجہ سے میں خود کو وزیراعظم پاکستان کے امیدوار کے طور پر شامل نہیں کر رہا ہوں۔ہمیں مینڈیٹ نہیں ملا اس لیے خود کو وزیراعظم کی دوڑ میں شامل نہیں کررہا۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن نے ہمیں حکومت کا حصہ بننے کی دعوت دی ہے مگر پیپلزپارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ بننے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔بلاول بھٹو نے کہاکہ پیپلزپارٹی ملک میں سیاسی افراتفری اور بحران نہیں چاہتی اس لیے حکومت کی تشکیل یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کے وزارت عظمی کے امیدوار کو ووٹ دیں گے،بلاول بھٹو نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اپنے منشور کے مطابق چلے گی، پیپلزپارٹی نے وفاقی کابینہ میں وزارتیں نہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم 16 ماہ تک مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحادی حکومت میں رہے جس سے پارٹی کو شکایات ہیں، ہم نے سی ای سی کے اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔بلاول بھٹو نے کہاکہ عمران خان نے تو کہہ دیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہے جس کے بعد پی ٹی آئی کا حکومت میں آنے کا امکان ختم ہوگیا۔ پی ٹی آئی سے کہتا ہوں اس وقت اپنے لیے نہیں ملک کے لیے سوچیں۔انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں حکومت سازی کا عمل جلد مکمل ہو، کیونکہ اگر سیاسی بحران ختم نہیں ہوتا تو ایک اور الیکشن کی طرف جانا پڑے گا جو ٹھیک نہیں ہے۔چیئرمین پی پی پی نے کہاکہ پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، کمیٹی حکومت سازی کے لیے دوسری جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ پاکستان میں اب مزید بدامنی نہیں ہونی چاہیے۔بلاول بھٹو نے کہاکہ ایک تجویز آئی کہ 18 مہینے کے لیے ن لیگ کے ساتھ حکومت میں بیٹھیں لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا سے پیپلز پارٹی نمائندگان نے اعتراض کیا کہ پچھلی اتحادی حکومت میں بھی ان کے کام نہیں ہوتے تھے۔بلاول بھٹو نے کہاکہ پیپلزپارٹی کو ان انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے شکایات ہیں لیکن ہم ملک کے وسیع تر مفادات میں الیکشن کے نتائج کو قبول کریں گے۔انہوں نے کہاکہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی حکومت بنائے گی۔ جبکہ آئینی عہدوں کے انتخابات میں ہم اپنے امیدوار سامنے لائیں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ صدارت کے الیکشن میں میری خواہش ہوگی کہ آصف زرداری اس میں حصہ لیں۔ کیونکہ وہی ملک میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہاکہ مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارت عظمی کے لیے نواز شریف آگے آئیں یا شہباز شریف یہ ان کی پارٹی کا فیصلہ ہے۔انہوں نے کہاکہ الیکشن میں مسلم لیگ ن پر تنقید ووٹ حاصل کرنے کے لیے کی، ان کو اپنی غلطیاں ماننی چاہییں۔ایک اور سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پنجاب پیپلزپارٹی کا مرکز تھا مگر اس الیکشن میں جو ہمارے ساتھ ہوا اس کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ ہم الیکشن سے متعلق اعتراضات کو متعلقہ فورمز پر اٹھائیں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کو عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن لیڈر کا عہدہ چھوڑنے کا کس نے کہا تھا، جب شہباز شریف اور راجہ ریاض نے ہی فیصلہ کرنا تھا تو گڑبڑ تو ہونا تھی۔چیئرمین پی پی پی نے کہاکہ دوبارہ گنتی کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو زیادہ نشستیں نہیں مل سکتیں، دھرنا، عدم استحکام اور نتائج نہ ماننا پی ٹی آئی کی سیاست کا خاصا ہے۔انہوں نے کہاکہ جب پی ٹی آئی یہ کہتی ہے کہ کسی سے بات نہیں کرے گی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ پاپولزم کی سیاست کرتی رہے گی جس سے ملک کو خطرات لاحق ہیں۔چیئرمین پی پی پی نے ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ متحدہ کو عام انتخابات میں ملنے والی 18 نشستوں پر شدید حیرت ہے اور نتائج پر تحفظات ہیں۔بلاول بھٹو نے کہاکہ ایم کیو ایم کے دہشت گرد اس الیکشن میں آزاد کرائے گئے۔ ہم نفرت کی بنیاد پر کراچی کے امن کو خراب نہیں ہونے دیں گے،ایک سوال کے جواب میں بلاول کا کہنا تھاکہ ہم چاہیں گے کہ پارلیمنٹ اور وزیراعظم اپنی مدت پورے کریں، دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں تو کوئی سیاسی جماعت نتائج قبول نہیں کرے گی۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ عوام کے لیے پیغام ہے کہ ٹی وی اسکرینز پر جو افراتفری اور سیاسی عدم استحکام نظر آرہا ہے اس کے پیش نظر میں یقین دلاتا ہوں کہ پارلیمان بنے گا اور پارلیمان وہ فورم ہے جہاں آپ کے مسائل حل کروائے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی اپنے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے حکومت سازی کا عمل مکمل ہو، اس سے سیاسی استحکام ہو اور حکومت چل پڑے، ایسا نہ وہ کہ ہمیں نئے انتخابات کی طرف جانا پڑے اور ایک بار اس سلسلے میں دھکیلا جائے، جس کے نتیجے میں سیاسی افراتفری ہو۔دوبارہ انتخابات کے حوالے سے سوال پر بلاول نے کہا کہ واضح مینڈیٹ کیسے ملے گا پتا نہیں، ابھی ہم اتنے بڑے عمل سے گزرے ہیں حالانکہ سب کا خیال تھا کہ واضح مینڈیٹ آئے گا لیکن واضح مینڈیٹ نہیں آئے، نہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار اس پوزیشن میں ہیں وہ اپنے طور پر حکومت بنائیں اور نہ مسلم لیگ (ن) اور نہ ہی میں اس پوزیشن میں ہوں کہ اپنے طور پر حکومت بنائیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں جو انتخابی نتائج ہوں گے میرا نہیں خیال کہ کوئی سیاسی جماعت ان نتائج کو قبول کرے گی، پاکستان کے عوام جو پیغام بھیج رہے ہیں اس کو سیاست دان سن نہیں رہے ہیں، عوام چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات کریں اور کام کریں، اگر کسی ایک جماعت کو چاہتے تو اس جماعت کو چاروں صوبوں میں مینڈیٹ مل جاتا۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے منقسم مینڈیٹ اس لیے دیا تاکہ کسی ایک کے زور زبردستی پر نہ چلے بلکہ پارلیمان میں بات کرکے مسائل کا حل نکالا جائے، لیکن افسوس ہے کہ اس سب کے باوجود پی ٹی آئی آج بھی ایسے فیصلے کر رہی ہے جو جمہوریت کے حق میں نہیں ہے، یہ کہنا ہم کسی سے بات نہیں کریں گے تو نہ کریں لیکن لوگوں نے آپ کو ووٹ کیوں دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی طاقت بات کرنے کو تیار نہیں ہے، دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ بھی بات تو کرتے ہیں مگر سننا بھی پڑے گا، اگر سنے بغیر اپنا کام کریں گے تو بسم اللہ کریں لیکن اس کا نقصان پاکستان اور جمہوریت کا ہوگا تو عوم کا نقصان ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پی پی پی حکومت میں وزارتیں نہیں لے گی، ایشو ٹو ایشو، ہمارے منشور اور اہم ووٹس پر حکومت کا ساتھ دے گی، لیکن ہماری مذاکرات کی ٹیم موجود ہوگی، جو بھی ہمارے اعتراضات ہیں وہ طے کیے جاسکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ میں اپوزیشن لیڈر بن سکوں گا۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی جماعت کا وزارتوں کی صورت میں حصہ بنے بغیر تعاون کریں گے، جس طرح پی ڈی ایم ٹو کی بات کی جارہی ہے اس طرح ہم حکومت کا حصہ نہیں ہوں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جہاں تک وزارت عظمی کے لیے ووٹ ہے، بجٹ، قانون سازی پر ایشو ٹو ایشو تعاون کریں گے اور آئینی عہدوں پر پی پی پی اپنے امیدوار کھڑے کرے گی اور یہ ہمارا حق ہے کیونکہ ہم انتخابات لڑ کر آئے ہیں، اس لیے ہم صدارت، چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر شپ کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) یا کسی دوسری جماعت کے وزیراعظم کا امیدوار کا فیصلہ ان کا اپنا ہوگا، پی پی پی کا آئینی عہدوں پر کون امیدوار ہوں گے وہ پارٹی کا فیصلہ ہوگا لیکن میری خواہش ہوگی کہ جب صدارتی انتخاب کا موقع آئے تو صدر زرداری اس میں حصہ لے اور اس ملک کا صدر بنے۔انہوں نے کہا کہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ زرداری میرا والد ہے تو وہ صدر بنے بلکہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ملک میں اس وقت آگ پھیل رہی ہے، پاکستان جل رہا ہے اور اگر کوئی اس آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ صدر آصف علی زرداری صاحب ہیں، اس لیے ملک کے لیے ضروری ہے کہ زرداری صاحب ایک مرتبہ پھر یہ عہدہ سنبھالیں