سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواست مسترد، مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ
سنی اتحادکونسل کی جانب سے بروقت ترجیحی فہرستیں جمع نہیں کروائی گئیں، مخصوص نشستوں کی حقدارنہیں
مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں ان کی سیٹوں کے تناسب سے تقسیم کی جائیں گی، اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں،، تحریری فیصلہ جاری
ممبر پنجاب الیکشن کمیشن بابرحسن بھروانہ کامخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کودینے پراختلافی نوٹ
اسلام آباد( ویب نیوز)
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کیلئے سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کر تے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ سنی اتحادکونسل کومخصوص نشستیں جاری نہیں کی جاسکتیں،سنی اتحادکونسل خواتین،اقلیتوں کے مخصوص نشستوں کے کوٹے کی مستحق نہیں۔الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیگر جماعتوں کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں میں ان کی سیٹوں کے تناسب سے تقسیم کی جائیں گی، اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جا سکتیں،الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے متعلق محفوظ فیصلہ جاری کر دیا، الیکشن کمیشن نے 1-4 کے تناسب سے فیصلہ جاری کیا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔ چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کا دعوی کرنے کی مستحق نہیں ہے کیونکہ اس نے مخصوص نشستوں کے لیے پارٹی لسٹ جمع کرانے کی لازمی قانونی شق کی خلاف ورزی ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں خالی نہیں رکھی جائیں گی، وہ سیاسی جماعتوں کی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے انہیں الاٹ کی جائیں گی۔چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔سنی اتحاد کونسل کو قومی اسمبلی میں20خواتین اور 3 اقلیتی نشستوں الاٹ ہونی تھیں۔سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے پر ممبر الیکشن کمیشن آف پاکستان بابر حسن بھروانہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ میں اختلاف کرنے والے ممبر بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ حتمی فیصلے سے جزوی اتفاق کرتا ہوں، ترجیحی فہرست وقت پر جمع کرانا قانونی ضرورت تھی جو نہیں کرائی گئی۔انہوں نے لکھا کہ متناسب نمائندگی کی بنیاد پر باقی جماعتوں کو نشستوں کی تقسیم پر اختلاف ہے، آئین واضح ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جنرل نشستوں کی بنیاد پر مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں، مخصوص نشستیں آئین کے آرٹیکل اکان اور 106 میں ترمیم تک یہ نشستیں خالی تصور کی جائیں گی۔28 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سنی اتحاد کونسل کا کمیشن کو لکھا خط پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہییں تو آپ کیوں ان کو مجبور کر رہے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر نے سنی اتحاد کونسل کا خط بیرسٹر علی ظفر کو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے 26 فروری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا جس میں سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس نے جنرل الیکشن لڑے، نہ اسے مخصوص نشستیں چاہییں۔بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کو سنی اتحاد کونسل نے ایسے کسی خط کے حوالے سے نہیں بتایا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد 28 فروری کو درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے پیر کو جاری کیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا، مخصوص نشستیں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی ف کو دینے کی درخواست منظور کر لی، الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 صفحات پر مشتمل ہے۔سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ متفقہ طور پرسنایا گیا تاہم مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کے فیصلے سے ممبر پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلاف کیا۔اس سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اور وکیل حامد خان، پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر علی، پی ٹی آئی وومن ونگ کی صدر کنول شوزب، مسلم لیگ(ن) کے وکیل اعظم نذیر تارڑ ، پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پاکستان) کے وکیل فروغ نسیم، جمعیت علمائے اسلام(جے یو آئی ف) کے کامران مرتضی، سنی اتحادکونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا الیکشن کمیشن میں موجود تھے۔سنی اتحاد کونسل میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی نے اپنے انتخابی نشان کے بغیر انتخابات جیتنے کے بعد شمولیت اختیار کی تھی، بعدازاں سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا جس میں بلوچستان کے سوا قومی اور 3 صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔تاہم الیکشن کمیشن نے اس درخواست پر اس وقت تک غور نہیں کیا جب تک سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں ملنے کے خلاف دیگر درخواستیں بھی آئیںجس میں یہ کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل پارلیمانی پارٹی نہیں ہے اور اس نے مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی ترجیحی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے خلاف درخواستوں کی 2 روز سماعت کے بعد ان درخواستوں کو سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کے ساتھ منسلک کردیا گیا تھا اور کچھ دیگر پارلیمانی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔الیکشن کمیشن نے اب تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے کل 226 مخصوص نشستوں میں سے 78 کی الاٹمنٹ کو روک رکھا ہے، طے شدہ فارمولے کے تحت یہ تمام نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی تھیں۔قومی اسمبلی میں خواتین کی کل 60 مخصوص نشستوں میں سے الیکشن کمیشن نے اب تک 40 نشستیں مختلف سیاسی جماعتوں کو مختص کی ہیں، ان میں پنجاب کی کل 32 نشستوں میں سے 20، خیبرپختونخوا کی 10 میں سے 2، سندھ کی تمام 14 اور بلوچستان کی چاروں نشستیں شامل ہیں، اسی طرح الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے مخصوص 10 نشستوں میں سے اب تک 7 نشستیں مختص کی ہیں۔پنجاب اسمبلی میں خواتین کے لیے کل 66 مخصوص نشستوں میں سے 42 نشستیں اور 8 میں سے 5 اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں مختص کی جاچکی ہیں۔سندھ اسمبلی میں الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے مخصوص 29 نشستوں میں سے 27 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 9 میں سے 8 نشستیں مختص کی ہیں۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں الیکشن کمیشن نے خواتین کے لیے کل 26 مخصوص نشستوں میں سے 5 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 4 میں سے ایک مخصوص نشستیں مختص کی ہے۔بلوچستان اسمبلی میں خواتین کے لیے تمام 11 اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 3 نشستیں پہلے ہی مختص کی جا چکی ہیں۔۔