امریکا کی کال آنے سے قبل بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنا چاہیے، مشاہد حسین
8 فروری کے انتخابات کے بعد سب سرکاری سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں اور اس کی بنیاد فارم 47 ہے
دوسری طرف عوامی قوت ہے، جس کی بنیاد فارم 45 ہے، اور وہ ایک قیدی 804 کے گرد گھوم رہی ہے
ہماری جماعت کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی
اگر آپ اپنے گھر میں نامعلوم افراد اورگمنام لوگوں سے ہار جائیں تو کچھ سبق سیکھنا چاہیے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے
اگر آپ لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے، آئین کی پاسداری نہیں کریں گے اور ماضی غلطیاں دہرائیں گے تو معاملہ گڑ بڑ ہوگا، انٹرویو
اسلام آباد( ویب نیوز)
مسلم لیگ(ن)کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے، اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں انتخابات جیت کر کہیں کہ انہیں رہا کردیں۔ ایک انٹرویو میں مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد سب سرکاری سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں، اور اس کی بنیاد فارم 47 ہے، جبکہ دوسری طرف عوامی قوت ہے، جس کی بنیاد فارم 45 ہے، اور وہ ایک قیدی 804 کے گرد گھوم رہی ہے۔ مسلم لیگ(ن)کے رہنما نے بتایا کہ ہماری جماعت کو پنجاب میں اتنا بڑا دھچکا لگا ہے، 30 سال کی سیاست 8 فروری کو ملیا میٹ ہو گئی، اگر آپ اپنے گڑھ میں اپنے گھر میں ہار جائیں اور نامعلوم افراد سے ہار جائیں، گمنام لوگوں سے ہار جائیں تو کچھ سبق سیکھنا چاہیے کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ مشاہد حسین سید کا کہنا تھا اگر آپ لوگوں کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے، آئین کی پاسداری نہیں کریں گے اور ماضی غلطیاں دہرائیں گے تو معاملہ گڑ بڑ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو کہا ہے کہ دست شفا کی ضرورت ہے، دست شفا میں تمام سیاستدان، سیاسی جماعتیں سب شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت کرنے کو تیار ہیں، نریندر مودی سے بات کرنے کو تیار ہیں، را کے بندوں نے آ کر چار سالوں میں 20 دفعہ ہمارے بندے مارے ہیں، دہشت گردی کی ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ دوسری طرف ہمارے جنرل کابل میں جا کر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)سے مذاکرت کرتے ہیں، تو ہم دہشت گردوں سے بھی مذاکرات کرتے ہیں، تو اپنے لوگوں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے، خاص طور پر جس کا مینڈیٹ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بشمول بانی پی ٹی آئی سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، اس سے پہلے کہ کوئی ٹیلی فون کال آئے، 5 نومبر کو امریکا میں الیکشن ہے، اگر ٹرمپ جیت جائے اور پھر وہاں سے کال آئے، تو اس سے پہلے آپ فیصلہ کریں، اس میں مسئلہ کسی شخص یا جماعت کا نہیں ہے، ایشو پاکستان کا ہے۔ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ مسلم لیگ(ن)چھوڑ تو نہیں رہے، جس پر انہوں نے قہقہ لگاتے ہوئے جواب دیا کہ اس وقت جماعتیں میٹرز نہیں کرتیں، اس وقت پاکستان کی بقا، پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری استحکام کا ایشو ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں، وہ فارم 47 کے چھتری تلے سرکاری سسٹم میں آ گئی ہیں، اور باقی دوسری طرف ہیں، ہم نے پل کا کردار ادا کرنا ہے، ہم نے ہیلنگ ٹچ دینا ہے۔ ان سے سوال پوچھا گیا کہ آپ میاں(نواز شریف)کو کوئی مشورہ دیں گے، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں اپنی رائے دے چکا ہوں، جب سب کہہ رہے تھے کہ چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے، اس وقت بھی مشورہ دیا تھا کہ اس کا چانس نہیں ہے، اگر سسٹم میں آنا ہے صدر بن سکتے ہیں، وزیر اعظم بننے کا چانس نہیں ہے، لوگ مجھ سے ناراض بھی ہوئے تھے، وہی بات صحیح ثابت ہوئی۔ مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے بلا نہ دینے کا فیصلہ غلط ہوا تھا، اب کیا فائدہ ہوا، سپریم کورٹ نے بھی وہ فیصلے معطل کردیے۔ انہوں نے کہا کہ مذاق بن گیا ہے کہ فارم 45 کیا ہے اور فارم 47 کیا، ماضی کے نگران وزیر اعظم حکمران جماعت کو طعنہ دے رہے ہیں کہ چپ ہو جا، ورنہ میں تمہاری اصلیت بتا دوں گا کہ تم فارم 47 کی پیداوار ہو۔ رہنما مسلم لیگ (ن)کا کہنا تھا کہ یعنی آپ کا مینڈیٹ جعلی ہے، اگر ہمارے اپنے لوگ اصلیت جانتے ہیں تو باہر کے لوگ نہیں جانیں گے، اگر آپ کی عزت نہیں ہے تو کیا رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ یاد رکھیں کہ جس راستے سے آپ آئے ہیں، اسی راستے سے جا بھی سکتے ہیں۔