بھارت کا جنگی جنون،جوہری اسلحہ کی دوڑمیں پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا
بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں میں 5 فیصد اضافہ ہوا
بھارت کے پاس 172 ، پاکستان کے پاس 170 جوہری وار ہیڈز ہیں، چین کے پاس 500 ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔سیپری رپورٹ
اسٹاک ہوم(ویب نیوز)
جنگی جنون میں مبتلا بھارت پاکستان سے زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کا مالک بن گیا۔جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جاری ہے اور انڈیا کے پاس پاکستان سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔ جبکہ چین کے پاس ان دونوں ممالک سے کہیں زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ یہ بات دنیا میں ہتھیاروں کی صورتحال اور عالمی سلامتی کا تجزیہ کرنے والے سویڈین کے موقر ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) نے اپنی تازہ سالانہ رپورٹ میں کہی ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سویڈش تھنک ٹینک سیپری کی جانب سے پیر کو جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے پاس 172 اور پاکستان کے پاس 170 جوہری وار ہیڈز ہیں۔ جبکہ چین کے پاس ان دونوں ممالک سے زیادہ 500 ایٹمی وار ہیڈز ہیں۔سیپری نے اپنی سالانہ رپورٹ 2024 میں کہا ہے کہ نو جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو مسلسل جدید بنا رہے ہیں۔کچھ ممالک نے پچھلے سال نئے جوہری ہتھیاروں کو تعینات کیا ہے یا نئے جوہری ہتھیاروں سے لیس نظام نصب کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران انڈیا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے جس کے بعد انڈیا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے بڑھ گئی ہے۔سیپری کا کہنا ہے کہ سال 2024 میں نو ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس مجموعی جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہو کر تقریبا 12 ہزار 121 ہوگئی ہے۔ پچھلے سال یہ تعداد 12 ہزار 512 تھی۔واضح رہے کہ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیپری) کا جوہری ہتھیاروں کی تعداد سے متعلق ڈیٹا عوامی طور پر دستیاب معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔ اس میں سرکاری ذرائع (سرکاری وائٹ پیپرز، پارلیمانی اور کانگریسی مطبوعات اور سرکاری بیانات) کے ساتھ ساتھ ثانوی ذرائع(نیوز میڈیا رپورٹس اور جرائد، تجارتی جرائد) میں بیان کردہ معلومات شامل ہوتی ہیں۔سیپری کی حالیہ سالانہ رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران انڈیا نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے میں تقریبا پانچ فیصد اضافہ کیا ہے۔سنہ 2023 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پاس اندازا 164 جوہری وار ہیڈز تھے۔ اس سال یہ تعداد بڑھ کر 172 ہو چکی ہے۔دوسری جانب پاکستان کے پاس موجود جوہری وارہیڈز کی تعداد بنا کسی اضافے کے 170 ہے۔سیپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے جوہری ہتھیار تیار کر رہا ہے جب کہ انڈیا کی توجہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کی تعیناتی پر مرکوز ہے۔ ایسے ہتھیار جو چین کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔انڈیا اور پاکستان کے پڑوسی اور دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت چین کے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد 22 فیصد اضافے کے ساتھ 410 وار ہیڈز سے بڑھ کر 500 ہوگئی ہے۔سیپری کا اندازہ ہے کہ جنوری 2024 تک چین نے اپنے پاس موجود ایٹمی وار ہیڈز میں سے تقریبا 24 کو لانچروں پر نصب کردیے ہیں۔سال 2023 تک چین کا کوئی بھی جوہری ہتھیار ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود نہیں تھا۔ سیپری کی سال 2024 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی نو جوہری طاقتوں کے پاس مجموعی طور پر 12 ہزار 121 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے میں عالمی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تقریبا 390 وار ہیذز کی کمی آئی ہے۔تاہم تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔گذشتہ برس کی رپورٹ کے مطابق نو ہزار 576 جوہری ہتھیار ممکنہ استعمال کے لیے فوجی اسلحہ خانوں میں موجود تھے۔ اس سال یہ تعداد بڑھ کر نو ہزار 585 ہو گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 3904 وار ہیڈز آپریشنل فورسز کے ساتھ تعینات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2100 ایٹمی وار ہیڈز بیلسٹک میزائلوں میں نصب ہیں۔ان میں سے بیشتر میزائل امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔ تاہم پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چین نے بھی اپنے کچھ وار ہیڈز میزائلوں میں نصب کیے ہیں۔سپری نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈیا، پاکستان اور شمالی کوریا بھی مسلسل اپنے میزائلوں کو جوہری وار ہیڈز سے لیس کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ روس، فرانس اور امریکہ پہلے بھی یہ کام کر رہے ہیں اور حال ہی میں چین نے بھی یہ کام کیا ہے۔ اس سے وار ہیڈز کی تعیناتی میں مزید تیزی آسکتی ہے۔ ایسے میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کی تباہی کی طاقت مزید بڑھ سکتی ہے۔سیپری کی رپورٹ کے مطابق روس اور امریکہ کے پاس دنیا کے کل جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد ذخیرہ موجود ہے۔سال 2023 کے دوران امریکہ کے مجموعی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے جبکہ روس کے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں 109 وار ہیڈز کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔تاہم تھنک ٹینک کا کہنا ہے گذشتہ ایک سال میں روس نے 36 نئے وار ہیڈز نصب کیے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے اس دعوے کی کوئی شواہد نہیں ملے ہیں کہ روس نے بیلاروسی سرزمین پر جوہری ہتھیار تعینات کیے ہیں۔سیپری کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روس اور امریکہ نے مجموعی طور پر 2500 پرانے جوہری ہتھیار اپنے ذخائر میں سے نکال دیے ہیں۔ وہ انھیں آہستہ آہستہ تباہ کر رہے ہیں۔سیپری کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کے پاس 50 ایٹمی وار ہیڈز ہیں جب کہ یہ مزید جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اس کی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کے پاس 90 جوہری وار ہیڈز بنانے کے لیے کافی جوہری مواد موجود ہے۔سیپری کی اس سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے کبھی کھلے عام تسلیم نہیں کیا کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کو جدید بنا رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق لگتا ایسا ہے کہ اسرائیل ڈیمونا میں موجود اپنے پلوٹونیم پروڈکشن ری ایکٹر کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، سیپری کے ڈائریکٹر ڈین سمتھ کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے سرد جنگ کے دور کے ہتھیار تباہ کیے جا رہے ہیں، جوہری وار ہیڈز کی کل تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آپریشنل وار ہیڈز کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ڈین سمتھ کے خیال میں آنے والے دنوں میں ان وار ہیڈز کی تعداد کم نہیں ہونے والی ہے جو کہ بہت تشویشناک ہے۔