پلوامہ حملہ، پاکستان کے خلاف بھارت کا جنگی ہتھیار…..غلام اللہ کیانی
  • سابق گورنر ستیہ پال ملک کے انکشافات نے ایک بار پھر فروری 2019 کے پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی تصدیق کر دی ہے…
  • مودی حکومت پاکستان اور کشمیریوں کی تحریک کو دنیا میں بدنام کرنے کے لئے جی 20سربراہ کانفرنس کے موقع پر کسی نام نہاد حملے کا ڈرامہ رچا سکتی ہے..
  • دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک کار نے ٹکر ماری۔زوردار دھماکہ ہواجس میں 76 ویں بٹالین کے 49 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے….
  • ”کار کے ٹکڑوں ” کے ڈی این اے نمونے عادل احمد ڈار کے والد سے مماثل قرار دیئے گئے۔.. اس وقت بھی ڈار بھارتی فورسز کی حراست میں تھا
  • 26 فروری کو ہندوستانی فضائیہ کے 12 میراج 2000 جیٹ طیاروں نے جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے عبور کیا اور بالاکوٹ پر بم گرائے۔
 بھارت کے غیر قانونی اور جبری زیر قبضہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے انکشافات نے ایک بار پھر فروری 2019 کے پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کی تصدیق کر دی ہے۔ستیہ پال نے صاف طور پر کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور نیشل سیکورٹی ایڈوائز ر اجیت دوول نے انہیں حملے میں فورسز کی لاپرواہی اورنا اہلی پر خاموش رہنے کو کہا تا کہ انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی یقینی بنے اور پاکستان پر الزام ڈال دیا جائے۔اس حملے نے خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ مودی حکومت پاکستان اور کشمیریوں کی تحریک کو دنیا میں بدنام کرنے کے لئے جی 20سربراہ کانفرنس کے موقع پر کسی نام نہاد حملے کا ڈرامہ رچا سکتی ہے جیسے کہ بھارتی حکومت نے سال2000ء  کوامریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر مقبوضہ کشمیر کے چھٹی سنگھ پورہ علاقہ میں تین درجن سے زیادہ نہتے سکھ افراد کو اپنی فورسز کے زریعے حملے میں قتل کر کے الزام پاکستان اور کشمیری مجاہدین پر ڈال دیا تھا۔ گورنر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بی جے پی، آر ایس ایس کے لیڈر رام مادھو جسے ”پردھان منتری کے لوگ“قرار دیا،نے انہیں مقبوضہ کشمیر میں پن بجلی گھر کی تعمیر اور ریلائنس انشورنس سکیم کی اجازت دینے کے لئے 300کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی۔”مودی اپنے آپ میں مست ہیں، کشمیر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، مقبوضہ کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرنا غلطی تھی“، یہ خیالات ہیں کشمیر کو دوکالونیوں میں منقسم کرنے سے پہلے آخری گورنر ستیہ پال کے جسے اگست 2018کو مقبوضہ کشمیر کا گورنر مقرر کیا گیا جب مقبوضہ ریاست پر صدر راج نافذ تھا۔ بھارتی پورٹل”دی وائر“ کے
معروف صحافی”کرن تھاپر“ کو دیئے گئے انٹرویو میں ان انکشافات سے واضح ہوگیا کہ کس طرح بھارت کی مودی حکومت شروع دن سے ہی صرف اقتدارکے لئے نام نہاددہشت گردی، پاکستان اور اسلام دشمنی کی آڑ لیتے ہوئے مظلوم بن کر شرمناک بیانیہ اورہندواتوا کے جن سنگھی ایجنڈے کو آگے بڑھارہی ہے۔دنیا ان انکشافات اور بھارت کی خودغرضی وسیاسی مفادات پرمبنی پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لے۔ بھارت نے ان انکشافات میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ بھارت نے پلوامہ حملے کے بعد علاقائی امن کو شدید نقصان پہنچایا جس کے لئے عالمی برادری نئی دہلی کو جوابدہ ٹھہرائے۔پاکستان نے بھارت کے گمراہ کن بیانیے کا مقابلہ اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود صبر و تحمل اور ثابت قدمی و ذمہ داری کے ساتھ کیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی،جسے گجرات کا قصائی کہا جاتا ہے، نے فروری 2019 میں پلوامہ حملے کے اہم حقائق عوام سے چھپائے، مذکورہ حملے میں بھارتی فورسز کے49 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ ستیہ پال ملک نے بتایا کہ انہیں فوری طور پر احساس ہوگیا تھا کہ نریندر مودی اس حملے کو پاکستان پر الزام لگا کر اپنی حکومت اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں گے۔ ستیہ پال ملک 2019 میں ہوئے پلوامہ حملے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370-35اے کے خاتمے کے وقت مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر تھے۔گورنر نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم کو کشمیر کے بارے میں ’غلط معلومات‘ دی گئیں یا وہ ’ناواقف تھے اور انہوں نے ستیہ پال ملک سے کہا تھا کہ وزارت داخلہ کی کوتاہیوں پر بات نہ کریں کہ جس کے نتیجے میں پلوامہ حملہ ہوا اور یہ کہ پلوامہ حملہ بھارتی نظام بالخصوص سی آر پی ایف اور وزارت داخلہ کی ’نااہلی‘ اور ’لاپرواہی‘ کا نتیجہ تھا۔
14 فروری 2019 کو، 78 گاڑیوں کا ایک قافلہ جو سنٹرل ریزرو پولیس فورس (CRPF) کے 2,500 سے زیادہ اہلکاروں کو جموں سے سری نگر لے جا رہا تھا، شاہراہ پر سفر کر رہا تھا۔ یہ قافلہ صبح جموں سے نکلا۔ شاہراہ دو روز قبل برفباری کی وجہ سے بند رہنے کی بدولت اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اونتی پورہ کے قریب لیت پورہ میں، تیسرے پہر27 اہلکاروں کو لے جانے والی ایک بس کو دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک کار نے ٹکر ماری۔زوردار دھماکہ ہواجس میں 76 ویں بٹالین کے 49 سی آر پی ایف اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔زخمیوں کو سری نگر کے آرمی بیس اسپتال منتقل کیا گیا۔ یہ 1989 کے بعد کشمیر میں ہندوستان کے قابض اہلکاروں پر سب سے مہلک حملہ تھا۔
لیت پورہ جنوبی کشمیر کا علاقہ ہے جو سرینگر جموں شاہراہ پر واقع ہے۔ اس علاقے کے نزدیک بھارتی فضائیہ کا ہوائی اڈہ اونتی پورہ میں ہے۔ یہ ائر پورٹ پلوامہ سے چند کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔جس جگہ حملہ ہوا وہ چڑھائی پر واقع ہے۔ کانوائے برفباری کی وجہ سے جموں اور اودھمپور میں پھنسی ہوئی تھی۔ تقریباً تین ہزار سی آر پی ایف اہلکار ان گاڑیوں پر سوار تھے۔ سی آر پی ایف 1990کے اوائل میں جب کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہوئی، کشمیریوں کے شدید ٹارچر کے لئے بدنام ہے۔ اس وقت یہی فورس مجاہدین کے خلاف آپریشنز کرتی تھی۔بھارتی فورسز نے آپریشن کے دوران کرپشن تیز کر دیئے اور آپسی رسہ کشی شروع کر دی۔ بارڈر سیکورٹی فورس(بی ایس ایف)، راشٹریہ رائفلز(آر آر)، سی ایس ایف، کشمیر پولیس کی ٹاسک فورس اور دیگر بھی آپریشنز میں شامل کی گئیں۔ ریگولر فوج بھی ہمیشہ تشدد اور مظالم روا رکھنے میں شامل رہی۔ سی آر پی ایف کو آپریشنز سے ہٹا کر صرف سرکاری تنصیبات کی سیکورٹی تک محدود کیا گیا۔کچھ عرصہ بعد اس نیم فوجی فورس کو پھر سے آپریشنز پر لگا دیا گیا۔ یہ فورس ریاستی دہشتگردی،کشمیریوں کی پکڑ دھکڑ اور ظالمانہ کارروائیوں میں سب فورسز سے آگے رہی۔ اس کے خلاف عوامی میں نفرت بھی دیگر سے زیادہ رہی ہے۔ مگر بھارت کی فوج یا نیم فوجی فورس نے ہمیشہ کشمیریوں پر تشدد روا رکھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کی۔
خودکش حملے میں استعمال ہونے والے ”کار کے ٹکڑوں ” کے ڈی این اے نمونے عادل احمد ڈار کے والد سے مماثل قرار دیئے گئے۔ قابض فورسز نے پلوامہ کے کاکاپورہ علاقے کے رہنے والے 22 سالہ عادل احمد ڈارکو حملے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ڈار کے والدین کے مطابق، ڈار کو ستمبر 2016 اور مارچ 2018 کے درمیان قابض فورسز نے چھ بار گرفتار کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ جب یہ حملہ ہوا اس وقت بھی ڈار بھارتی فورسز کی حراست میں تھا۔بھارتی تفتیش کاروں نے بتایا کہ خود کش کار میں 300 کلوگرام سے زیادہ دھماکہ خیز مواد تھا، جس میں 80 کلوگرام آر ڈی ایکس اور امونیم نائٹریٹ شامل تھا۔
حملے میں پاکستان کو ملوث قرار دیا گیا۔ نئی دہلی نے کسی بھی طرح کی تحقیقات کئے بغیر اس کا الزام پاکستان پر عائدکیا۔بھارت کا الزام تھا کہ یہ حملہ جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہرنے کرایا، ساتھ ہی حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اس معاملے کو پاکستان سے جوڑدیا۔
پلوامہ حملہ سے بھارت نے اندرونی سطح پر سیاسی اور عالمی سطح پر سفارتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ حملہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی بھارتی سازش کے طور پر دیکھا گیا۔پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی۔نئی دہلی نے فوری طور پرپاکستان سے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ واپس لے لیا۔ پاکستان سپرلیگ کی نشریات پر بھی پابندی عائد کردی۔ پاکستان نے بھارتی الزامات کی سختی سے تردید کی۔ بھارتی درآمدکنندگان نے پاکستانی سیمنٹ کی درآمد روک دی جس کے نتیجے میں پاکستان کی سیمنٹ فیکٹریوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔بھارت میں اور مقبوضہ جموں کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں نے مسلمان شہریوں کے گھروں اور املاک کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں درجنوں مسلمان خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ہندوستان کو درآمد کی جانے والی تمام پاکستانی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا کر 200% کر دی گئی۔ حکومت ہند نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ (FATF) پر زور دیا کہ وہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالے۔ ایف اے ٹی ایف نے بھارت کے پروپگنڈہ کا شکار ہو کر پاکستان کو ‘گرے لسٹ’ میں رکھنے کا فیصلہ کیا اورگرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ چند دن بعد ہی17 فروری کو، قابض ریاستی انتظامیہ نے آزادی پسند حریت رہنماؤں کے لئے حفاظتی انتظامات منسوخ کر دیئے۔بھارت بھر میں احتجاج، بند اور کینڈل لائٹ مارچ منعقدکئے گئے۔جموں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے جس کے نتیجے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ برطانیہ میں ہندوستانی کمیونٹی نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ہندوستانی ڈاکٹروں کے ایک وفد نے 7 مارچ کو لاہور میں ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن کے زیر اہتمام 13ویں ایسوسی ایشن آف اینستھیزیولوجسٹ کانگریس کے لئے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کر دیا۔ آل انڈین سینی ورکرز ایسوسی ایشن نے بھارتی فلم انڈسٹری میں پاکستانی اداکاروں اور فنکاروں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا، اور کہا کہ اس کی خلاف ورزی کرنے والی کسی بھی تنظیم کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انڈین فلم اینڈ ٹیلی ویژن ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں پر بھارت میں بننے والی فلموں اور موسیقی پر پابندی کا اعلان کیا۔ تنظیم کے صدر نے دھمکی دی کہ وہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کسی بھی ہندوستانی فلم پروڈکشن کے سیٹ کو ”توڑ پھوڑ” کر دیں گے۔20 فروری 2019 کو، پاکستانی قیدی شکر اللہ، جو بھارت کی جے پور سنٹرل جیل میں کالے قانون غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا، کو چار دیگر قیدیوں نے چاقو کے وار کرکے قتل کر دیا۔بھارت میں رہنے والے کشمیری طلباء، کاروباری حضرات، مزدور اور ملازمین کو حملے کے بعد ردعمل تشدد اور ہراساں کیا گیا اور ان کو ہوٹلوں اور گھروں سے بے دخلی کر دیا گیا۔بھارت سے فرار ہونے والے کشمیریوں کی تعداد ”سیکڑوں ” تک پہنچ گئی۔جموں و کشمیر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اطلاع دی کہ ڈیرہ ڈون میں 97% کشمیری طلباء کو نکال دیا گیا۔بھارتی کالجوں نے اعلان کیا کہ کسی بھی نئے کشمیری طالب علم کو داخلہ نہیں ملے گا۔ ان کالجوں میں سے ایک، الپائن کالج نے اپنے ڈین کو معطل کر دیا، جو ایک کشمیری تھا۔ہندوستانی ریاست میگھالیہ کے گورنر تتھاگتا رائے نے ٹویٹ کرکے بھارت میں ”کشمیرکی ہر چیز” کے بائیکاٹ کی حمایت کی۔ کولکتہ میں کشمیری تاجروں کو مارا پیٹا گیا۔

26 فروری کو ہندوستانی فضائیہ کے 12 میراج 2000 جیٹ طیاروں نے جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے عبور کیا اور بالاکوٹ پر بم گرائے۔بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے جیش محمد کے تربیتی کیمپ پر حملہ کیا اور بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو ہلاک کیا، جن کی تعداد 300 سے 350 کے درمیان بتائی گئی۔ پاکستان نے طیاروں کو روکنے کے لیے تیزی سے جیٹ طیاروں کو گھیرے میں لے لیا، جنہوں نے  تیزی سے واپس جانے کے لئے اپنے پے لوڈز کو گرا دیا۔اس کے بعد پاکستان نے بھارت کو سرپرائز دیا۔ اس کے لڑاکا طیارے مار گرائے۔ پائلٹ قید ہو گئے اور خیر سگالی طور پر ایک پائلٹ کو”فنٹاسٹک چائے“ پلا کر واپس کر دیا۔
مقبوضہ کشمیر کے سابق گورنر کے انکشافات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارتی مودی حکومت نے پلوامہ حملے کو پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔مودی سرکار اسی طرح اپنے فورسز اور نہتے شہریوں پر حملے کرانے کے بعد سیاسی فوائد حاصل کرتی ہے۔ دہلی کے حکمران کشمیریوں کی گولی ہی نہیں بلکہ کنکریوں کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ حقائق سے جان چھڑاکر بھارت نے دنیا کو بھی اور اپنے عوام کو بھی گمراہ کیا۔ کشمیریوں کوبھارت کی دہشتگردی نے بھی جوق در جوق بندوق اٹھانے پر مجبور کیا۔ اگر چہ اقوام متحدہ بھی بندوق اٹھانے کی اجازت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراداد نمبراے /آر ای ایس/۷۳/۳۴ بتاریخ 3دسمبر1982میں صاف طور پر”بیرونی قبضے کے خلاف  آزادی کی جنگ میں مسلح جدوجہد سمیت تمام دستیاب وسائل کے استعمال“ کی اجازت دیتی ہے۔ بھارت نے بھی کشمیر پر جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ اس قبضے کو ختم کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں بھارتی حکمرانوں نے وعدے کئے۔ سلامتی کونسل کی قرادادیں موجود ہیں۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ کشمیر میں رائے شماری کرانے کے وعدوں کو وفا نہ کیا۔کشمیریوں کا قتل عام کیا گیا، ان کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنا یا گیا۔ سیکڑوں نوجوانوں کو تشدد کے دوران شہید اور معذور کیا گیا۔ ہزاروں نوجوانوں اور بچوں و خواتین تک کو پیلٹ فائرنگ سے بینائی سے محروم کیا گیا۔ کشمیریوں کی بینائی چھین کر بھارت کس امن اور ترقی کی امید رکھتا ہے۔ کشمیریوں پرگولہ باری کرنے والے فورسز پر کشمیری کیسے گل باری کر سکتے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی۔ مسلہ کشمیر کو عالمی مسلے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مسلہ بنا کر پیش کیا گیا۔ جب آج کا نوجوان اپنے سامنے اپنے والد، بھائی کو قتل ہوتے دیکھتا ہے، اپنی ماں بہن کی تذلیل دیکھتا ہے، اپنے لئے تعصب اور امتیازی سلوک دیکھتا ہے تو اس میں بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا نیا ولولہ پیداہوتا ہے۔ بھارت نے پلوامہ حملے جیسے ڈرامے رچا کر کشمیریوں کی تحریک کو بندوق سے کچلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔کشمیریوں کی سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ اس نے بھارت سے آزادی لینی ہے۔ بیرونی قبضے کو ختم کرنا ہے۔ بھارت طاقت اور تشدد آزما کر تحریک کو ختم کرنا چاہتا ہے مگر وہ آزادی کے جذبہ کو کچل نہ سکا۔ اس میں اسے ناکامی ہوئی۔ کشمیری دنیا کے حالت دیکھ کر اور جس طرح افغان قوم نے پہلے سوویت یونین اور اب امریکہ سمیت پوری دنیا کو شکست فاش دی ہے، اس نے کشمیری کو بھی اس طرف مائل کیا ہے کہ بیرونی قبضے مسلسل جدوجہد سے ختم ہو سکتے ہیں۔ کشمیری سرینڈر یا کسی یک طرفہ سمجھوتے پر آمادہ نہیں۔ بھارت کو کسی بھی صورت میں کشمیر سے واپس جانا ہو گا۔
The writer is a freelance journalist based in Islamabad/Muzaffarabad and can be reached at gkyani@gmail.com, whatsApp +923009568439