ہم 2010 سے آپریشن کے نام پر مار کھا رہے ہیں،مولانا فضل الرحمن
 عزم استحکام کے نام پر پتہ نہیں کیا چیز شروع کردی گئی ، اس سے استحکام نہیں عدم استحکام آئے گا، یہ چین کو جواب دے رہے ہیں
 جنرل باجوہ نے میرے سامنے کہا کہ باڑ لگا دی اب کوئی دہشت گرد نہیں آسکتا، اب کہا جا رہا ہے کہ باڑ اکھاڑ دی ہے
 قوم سے ٹیکس دینے کا مطالبہ تو کرتے ہیں حقوق نہیں دے رہے، جب قوم کو حقوق نہیں ملتے تو ٹیکس کیسے لے سکتے ہیں
اقلیت حکومت کر رہی ہے، پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ، حکومت سمجھتی ہے عوام دوست بجٹ ہے مگر ملک کا کباڑہ ہوگیا ہے
حکومت عوام دوست بجٹ سمجھتی ہے مگر ملک کا کباڑہ ہوگیا،قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال ، میڈیا سے گفتگو

اسلام آباد (ویب  نیوز)

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہم 2010سے آپریشن کے نام پر مار کھا رہے ہیں ،حکومت عوام دوست بجٹ سمجھتی ہے مگر ملک کا کباڑہ ہوگیا۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ ٹیکس لگانے پر دی گئی، میں اپنے لوگوں کا موقف دینا چاہتا ہوں، تمام دعوئوں کے باوجود معاشی طور پر ملک کہاں کھڑا ہے،اگر میں  ایوان میں لیٹ آیا ہوں تو میں مانتا ہوں، اگر آپ کہتے ہیں رولز سے ہٹ کر مجھے اجازت دی ہے تو میں واک آئوٹ کرتا ہوں، اس پر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ مولانا صاحب! آپ کو اجازت دی ہے آپ بات کریں۔ انہوںنے کہا کہ حکومت لوگوں کو بے روزگار کرنے جارہی ہے، اس محکمے کو ختم کیا جا رہا ہے جو پاکستان سے بھی پرانا ہے، تنخواہ اور کاروبار پر ٹیکسز عائد کر دئیے گئے ہیں، ہم قوم سے ٹیکس دینے کا مطالبہ تو کرتے ہیں حقوق نہیں دے رہے، جب قوم کو حقوق نہیں ملتے تو ٹیکس کیسے لے  سکتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عوام آپ کو ٹیکس نہیں دیں گے کیونکہ عوام کو آپ پر اعتماد نہیں ہے، عوام کو پتہ ہے کہ ان کے پیسے آئی ایم ایف کو دیئے جائیں گے، برصغیر کا باسی فرنگی کو بھی ٹیکس نہیں دیتا تھا، ہم آپریشن عدم استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔ عزم استحکام کے نام پر پتہ  نہیں کیا چیز شروع کردی گئی ، اس سے استحکام نہیں عدم استحکام آئے گا، ہم 2010سے آپریشن کے نام پر مار کھا رہے ہیں، یہ عزم استحکام نہیں یہ چین کو جواب دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آپریشن کے لئے لوگوں کو علاقے خالی کرنے کا کہا۔ عوام نے اپنے علاقوں میں ہجرت کی قبائلی خواتین کو صحراہوں میں بھیجا گیا، قبائلی علاقوں میں متعدد جگہوں کو لوگوں سے خالی کروالیا اور انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کی چادریں تار تار کردیں اور روایات کو نقصان پہنچایا۔فضل الرحمن نے کہا کہ متاثرین کو مکان بنانے کے لئے چار لاکھ دیئے جارہے ہیں۔ چار لاکھ سے گھر تو کیا غسل خانہ بھی نہیں بن سکتا،آپ مذاق کررہے ہیں، ان کو چار لاکھ بھی نہیں دیئے گئے بلکہ ٹوکن دیئے گئے ، ریاست نے ہمیں کہاں کھڑا کردیا ہے، کیا بطور شہری ہم ریاست پر کوئی حق نہیں رکھتے ، ہم نے ان سے کہا تھا کہ یہ پنگا نہ لیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 25 سے 30 ہزار افغانی اپنے ملک گئے اور 40 سے 50 ہزار پاکستان واپس آگئے۔ جنرل باجوہ نے میرے سامنے کہا کہ باڑ لگا دی اب کوئی دہشت گرد نہیں آسکتا، اب کہا جا رہا ہے کہ باڑ اکھاڑ دی ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے ملک میں بیشتر علاقوں میں صورت حال فاقوں تک پہنچ گئی ہے، چمن میں 9 ماہ سے لوگ احتجاج کررہے ہیں، کیا کسی ملک میں سرحدی علاقوں کے لوگوں سے یہ سلوک کیا جاتا ہے، ان لوگوں کے پاس کوئی متبادل روزگار نہیں ہے۔ ماں بہنوں نے زیورات بیچ دیئے مگر یہ رقم بھی ختم ہوگئی۔ لوگ اب گھر کے برتن اور دروازے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کیا ریاست کو اس بات کا احساس ہے۔دریں اثنا وزیر اعظم مولانا فضل الرحمان کو ایوان میں دیکھ کر اپنی نشست سے اٹھ گئے، شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمان کی نشست پہ جا کر ان سے ملاقات کی، مولانا فضل الرحمان سے معانقہ کے بعد وزیر اعظم اگلی صف میں بیٹھے ۔دوسری جانب وزیر اعظم نے  اپوزیشن ارکان علی محمد خان، اسد قیصر اور عمر ایوب خان سے بھی مصافحہ کیا۔قبل ازیں پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اقلیت حکومت کر رہی ہے، پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ نہیں ، حکومت سمجھتی ہے عوام دوست بجٹ ہے مگر ملک کا کباڑہ ہوگیا ہے۔