دنیا بھر میں مقیم کشمیر یوں نے جمعرات کو یوم شہدائے کشمیر منایا
سرینگر میں لوگوں کو شہدائے قرستان نقشبند صاحب کی طرف مارچ سے روک دیا گیا
مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال، آزاد کشمیر میں جلسے جلوس، مظاہرے
سری نگر، مظفر آباد( ویب نیوز )
لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب، پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیر یوں نے ہفتہ کو یوم شہدائے کشمیر منایا۔ اس موقع پر مقبوضہ کشمیر کے چند علاقوں میں مکمل ہڑتال رہی،ہڑتال کی کال کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت نے دی تھی جسکا مقصد تنازعہ کشمیر کے پر امن او رمنصفانہ حل کی ضرورت پر زور دینا ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر میں میں بھی جلسے جلوس، مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ 13جولائی 1931 اورتحریک آزادی کشمیرکے دیگر تمام شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے یوم شہدا کے موقع پر خصوصی تقاریب ہوئیں۔ دن کا آغاز مساجد اور خانقاوں میں شہداء کے لئے خصوصی دعاوں سے ہوا ،ان شہدا نے ہندوسامراج کے تسلط سے آزادی کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔سرینگر میں نوہٹہ، راجوری کدل اور متعدد علاقوں میں دکانیں بند رہیں۔ بی جے پی کی قابض انتظامیہ نے لوگوں کوشہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے مزار شہدا نقشبند صاحب سرینگر جانے کی اجازت نہیں دی۔قابض بھارتی انتظامیہ نے لوگوں کو سرینگر کے نقشبند صاحب میں واقع قبرستان کی طرف مارچ سے روک دیا جہاں13جولائی کے شہداء مدفون ہیں۔ انتظامیہ نے نوہٹہ نقشبند صاحب اور ارد گرد کے علاقوں میں بڑی تعداد میں بھارتی فورسز اہلکار تعینات کر دیے۔انتظامیہ نے لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی عائد کردی جبکہ قابض فورسز نے مارچ کو روکنے کیلئے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دیں،حریت کانرنس نیہڑتال کے ساتھ ساتھ سرینگر کے نقشبند صاحب میں واقع قبرستان کی طرف مارچ کی بھی اپیل کی تھی جہاں13جولائی کے شہداء مدفون ہیں۔ بھارتی پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے 1931میں آج کے دن سرینگر میں ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے 22 کشمیریوں کی یاد میں مکمل ہڑتال کرنے پر تاجر برادری اور دکانداروں کو ہراساں کیا۔بھارتی فورسز لال چوک اور اس سے ملحقہ علاقوں میں راہگیروں کو روک کر انہیں ان کے نام پوچھ رہی ہے ۔شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں اور بڑے شہروں میں ریلیاں اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا ۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے غیر قانونی طور پر نظر بند چیئرمین مسرت عالم بٹ، شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان نے نئی دہلی کی تہاڑ جیل سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کشمیریوں پر زور دیا کہ وہ 13 جولائی 1931 کے شہداء کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے اپنی جدوجہد مقصد کے حصول تک جاری رکھیں۔ یہ دن ہر سال 13جولائی 1931 کوسرینگر میں ڈوگرہ مہاراجہ کے فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونیوالے 22کشمیریوں کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔ وہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے جو عبدالقدیر نامی ایک شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت کے موقع پرسرینگر سینٹرل جیل کے باہر اکھٹے ہوئے تھے جس نے کشمیری عوام کو ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کیلئے کہا تھا۔ نماز ظہر کے وقت ایک کشمیری نوجوان نے اذان دینا شرو ع کی جسے مہاراجہ کے فوجیوں نے گولی مارکر شہید کر دیا۔اس کے بعد ایک اور شخص اذان پوری کرنے کیلئے کھڑا ہوا تو اسے بھی شہید کردیا گیا۔ یوں اذان مکمل ہونے تک 22کشمیریوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔یہ قتل عام ڈوگرہ حکومت کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ ڈوگرہ دور کو مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے کشمیر کی تاریخ کا بدترین دور سمجھا جاتا ہے۔