سپریم کورٹ نے  مبارک احمد ثانی کیس میں  وفاق کی درخواست منظور کر لی
 6 فروری اور 24جولائی کے فیصلوں سے 49 سی، 42 اور 7 پیراگراف حذف
مولانا فضل الرحمان, مفتی منیب الرحمان،مفتی تقی عثمانی، فرید پراچہ،ابو الخیر محمد زبیر،مفتی شیر محمد اور دیگر کے دلائل

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاق کی درخواست منظور کرتے ہوئے مبارک احمد ثانی کیس کے 6 فروری اور24 جولائی کے فیصلوں سے 49 سی، 42 اور 7 پیراگراف حذف کر دیے ہیں۔جمعرات کو  سماعت کے دوران علمائے کرام مولانا فضل الرحمان, مفتی منیب الرحمان،مفتی تقی عثمانی، فرید پراچہ،ابو الخیر محمد زبیر،مفتی شیر محمد اور دیگرکے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متنازع پیرگراف عدالتی نذیر نہیں ہوں گے، تاہم 6 فروری اور 24 جولائی کے فیصلوں سے 49 سی، 42 اور 7 کو حذف کیا جاتا ہے۔ٹرائل کورٹ ان متنازع پیراگراف سے اثر لیے بغیر اپنی کارروائی جاری رکھے۔توہین مذہب سے متعلق مبارک ثانی نظرثانی فیصلے میں تصحیح کے لیے پنجاب حکومت کی درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے عدالت سے استدعا کی کہ انہوں نے ایک درخواست دائر کر رکھی ہے اس کو نمبر لگوا لیں، جس پر چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے 3رکنی بینچ نے ان سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں۔اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ جب اس عدالت نے نظر ثانی درخواست میں فیصلہ دیا تو پارلیمینٹیرین اور علما کرام نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا۔ جنہیں کہا گیا کہ حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے خط ملا تھا اور وزیراعظم کی جانب سے بھی ہدایات کی گئی تھیں، ظاہر ہے دوسری نظرثانی تو نہیں ہوسکتی، اس لیے ضابطہ دیوانی کے تحت آپ کے سامنے آئے ہیں۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب عدالت کی جانب سے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے گئے تو فریقین عدالت میں اور ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے درخواست کی کہ کیونکہ معاملہ مذہبی ہے تو علما کرام کو سن لیا جائے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن مجبور ہوں، میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ کروائے، انسان اپنے قول فعل سے پہچانا جاتا ہے، پارلیمان کی بات سر آنکھوں پر ہے، آئین کی 50ویں سالگرہ پر میں خود پارلیمنٹ گیا تھا۔عدالت نے مولانا فضل الرحمان، مفتی شیر محمد اور کمرہ عدالت میں موجود علما سے معاونت لینے کا فیصلہ کیا۔ جس پر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر ،جماعت اسلامی کے فرید پراچہ نے  بھی عدالت کی معاونت کی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے مفتی تقی عثمانی سے بھی معاونت کا کہا تھا وہ ترکیہ میں ہیں، اس کے علاوہ ہم نے مفتی منیب الرحمان کو آنے کی زحمت دی وہ نہیں آئے۔اس پر مفتی منیب الرحمن کے نمائندے نے بتایا کہ انہیں مفتی منیب الرحمن نے مقرر کیا ہے، اس کے بعد مفتی تقی عثمانی بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوگئے۔ انہوں نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مبارک ثانی مقدمے سے متعلق 6 فروری کے فیصلے اور بعد ازاں نظرثانی فیصلے پر تبصرہ بھیجا تھا مجھے نہیں معلوم آپ تک میری رائے پہنچی کہ نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ منگوا لیں گے لیکن آپ کو زبانی طور پر بھی سننا چاہتے ہیں۔مفتی تقی عثمانی نے 29 مئی کے فیصلے سے 2پیراگراف حذف کرنے کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 29 مئی کے فیصلے سے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کیا جائے۔ پیراگراف 42 میں تبلیغ کا لفظ استعمال کیا گیا یعنی غیر مشروط اجازت دی، اس پر چیف جسٹس نے سیکشن 298 سی پڑھ کر سنایا۔ جس کے مطابق غیر مسلم کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے تبلیغ کی اجازت نہیں، مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ قادیانی اقلیت میں ہیں لیکن خود کو غیر مسلم نہیں تسلیم کرتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تقی عثمانی صاحب میں معذرت چاہتا ہوں، اور وضاحت کرنا چاہتا ہوں جنہیں نوٹس کیا تھا ان کی جانب سے ہمیں بہت سارے دستاویزات ملے، اگر ان سب کا باغور جائزہ لیتے تو شاید فیصلے کی پوری کتاب بن جاتی، ان تمام دستاویزات کو دیکھ نہیں سکا وہ میری کوتاہی ہے۔عدالتی فیصلے میں جو غلطیاں اور اعتراض ہیں، ہمیں نشاندہی کریں، اگر کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو ہم سوال کریں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا ملک اسلامی ریاست ہے اس لیے عدالتی فیصلوں میں قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں اور میں کوئی غلطی سے بالاتر نہیں ہے۔اس پر مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ معاملہ ایسا ہو تو لمبے فیصلے لکھنے پڑھتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ 6 فروری کا فیصلہ نظر ثانی فیصلے کے بعد بہت پیچھے رہ گیا ہے اب ہمیں آگے کی طرف دیکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ ہم امریکا برطانیہ کی مثالیں دیتے ہیں اپنی کیوں نہ دیں، کوئی میٹرک کا امتحان نہ دے تو فیل ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔اس پر مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ آپ فیصلے میں طے شدہ مسائل سے زیادہ اصل مسئلہ کو وقت دیتے، آپ نے فیصلہ کے پیراگراف 7میں لکھا کہ احمدی نجی تعلیمی ادارے میں تعلیم دے رہا تھا، اس سے تاثر مل رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی میں لوگ قاضی یا جج بننا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ یہ مشکل کام ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے بھی قاضی بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ مفتی تقی عثمانی کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دی ہم نے فوری لگادی کوئی بات نہیں چھپائی۔جمیعت علما اسلام کے سربراہ فضل الرحمن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر اب یہ نظر ثانی نہیں نظر ثالث ہے اور اس سے پہلے اس مقدمے میں کئی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ علما کی اپنی رائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنے آچکی ہے، جو آپ کے فیصلوں کے خلاف ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے جب فیصلوں کہا تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا کوئی اور بھی فیصلہ تھا جس کے لیے آپ نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے تو مولانا فضل الرحمن نے برجستہ کہا کہ آپ نے بھی جمع کا صیغہ استعمال کیا کہ مجھ سے غلطیاں ہو جاتی ہیں، ہمارا بھی جمع کا صیغہ اگنور کر دیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں 72 سال کی عمر میں پہلی بار کسی عدالت کے سامنے کھڑا ہوا، مجھے اللہ نے عدالت سے بچائے رکھا، اس پر چیف جسٹس بولے ہم اتنے برے بھی نہیں ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قادیانی پوری امت مسلمہ کو غیر مسلم کہتے ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی کہتا تھا جو اس پر ایمان نہ لائے وہ غیر مسلم ہے، یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں غیر مسلم کہتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اس پر بات نہیں ہوتی۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قادیانی مرتد ہیں تو ہم نے انہیں غیر مسلم کا نام کیوں دیا یہ سوال بھی ہے، ہم پاکستان میں غیر مسلموں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ چیف جسٹس نے مولانا فضل الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے والد ہمارے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے ہماری والدہ کے پاس آئے تھے، میرے والد کا کردار آپ کے علم میں ہوگا قیام پاکستان میں کیا تھا۔ہمیں گرداسپور اور فیروزپور ملتے تو کشمیر بھی ہمیں مل جاتا، اس طرف سے سازش سے یہ علاقے ہم سے الگ نہ رکھے جاتے تو کشمیر بھی ہمیں ملتا، چیف جسٹس نے کہا کہ میرے والد نے ایک قلم بھی پاکستان سے نہیں لیا اور میں نے بھی کوئی پلاٹ نہیں لیا اگر لیا ہے تو مجھ پر انگلی اٹھائیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج آپ سب شکایات کا ازالہ کررہے ہیں، مبارک ثانی کو آپ ضمانت کا مستحق سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے، اس کے توہین آمیز اقدامات پر مگر دفعات ساری اس پر لگیں گی۔ مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے والی کمیٹی کا فیصلہ پارلیمان نے ویب سائیٹ پر ابھی نہیں ڈالا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ آپ پارلیمنٹ میں اٹھائیں، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل کی آرا کو مدنظر رکھا جائے۔ مولانا فضل الرحمان جب عدالت کو بتا رہے تھے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کیا کیا دعوے کرتا تھا تو چیف جسٹس نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں اس کی باتوں کو سننا بھی نہیں چاہتا اور نہ میں نے اس کی تفسیر صغیر کی آج تک شکل دیکھی ہے، جس پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اللہ آپ کو نہ ہی دکھائے۔ مولانا فضل الرحمن کے دلائل مکمل ہوئے تو سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو، مفتی طیب قریشی نے دلائل کا آغاز کردیا، اور کہا کہ مجھ سے پہلے جن علما نے رائے دی ہے ان سے متفق ہوں، قادیانیوں نے اپنی تفسیر صغیر مسلمانوں کی طرز پر ترتیب دی ہے، کوئی عام مسلمان اپنی اور قادیانیوں کی تفسیر میں تفریق نہیں کر پاتا۔مفتی طیب قریشی نے کہا کہ عدالت سے ہاتھ باندھ کر استدعا کر رہا ہوں کہ مسلمان مضطرب ہیں انہیں تسلی دیں، جو تجاویز علما نے دی ہیں ان پر عملدرآمد کیا جائے، مفتی طیب قریشی نے چیف جسٹس کو پشاور میں مسجد مہابت خان کے دورے کی دعوت دی۔جس پر چیف جسٹس بولے کہ یہ مسجد شاید چوک یادگار میں ہے؟ میرے والد نے تحریک پاکستان میں سب سے بہترین تقریر چوک یادگار میں کی تھی، میرے والد کہتے تھے کہ سارا مجمع مسلم لیگ مخالف تھا لیکن تقریر کے بعد سب نے قائداعظم کے نعرے لگائے۔صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نظرثانی فیصلے کا پیراگراف 42 حذف کرے، میری تجویز ہے کہ معاملہ ضمانت کا تھا اس کو ضمانت تک محدود رکھا جائے، فیصلہ کے دیگر تمام پیراگراف کو حذف کیا جائے، قانونی معاملات کے لیے وکلا کو بھی سنا جائے۔سپریم کورٹ کے مبارک احمد ثانی کیس میںامیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کے نمائندہ فرید پراچہ  نے دلائل دیتے ہوے کہا کہ قادیانی اپنے آپ کو غیر مسلم نہیں مانتے اسی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے، قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا جرم ہے، قادیانی چاہے تشہیر گھر کی چاردیواری میں کریں یا باہر وہ جرم ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ قتل گھر کے اندر ہو یا باہر دونوں صورتوں میں جرم ہے، قادیانیوں کو اپنے عقائد کو مسلمانوں کی طرح کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے، عدالتی فیصلے کے پیرا نمبر 7 پر ہمیں اعتراض ہے۔عدالت فیصلے کے پیراگراف 7، اور 42 کو حذف کرے،  عدالت ماضی کے فیصلوں کے تناظر میں پیراگراف 37,38,39,40 49 کا بھی جائزہ لے،  عدالتی فیصلے میں قرآن پاک کی آیات کا غلط حوالہ قادیانیوں کو دلیل فراہم کرے گا،اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اگر مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمان نے جو تفصیلات رکھیں، اس کے علاوہ کوئی نئی بات ہے تو بتائیں۔اس پر فرید احمد پراچا نے کہا کہ یہ صرف مبارک ثانی کیس کا معاملہ نہیں بلکہ سو سالہ جہدوجہد اور تاریخ کامعاملہ ہے، عدالتی فیصلے کے پیرا 37،38،39،40 اور 49 سی کا بھی دوبارہ جائزہ لیا جائے۔مذہبی اسکالر عطاالرحمان نے اپنے دلائل میں کہا کہ کچھ چیزیں قابل تعریف ہیں ان کا ذکر ہونا چاہیے، آپ عدالتی فیصلوں پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کا معاملہ قابل تحسین اقدام تھا۔ شریعت اپیلیٹ بینچ کئی عرصے سے التوا کا شکار تھا، اسے آپ نے مکمل کیا۔انہوں نے کہا کہ مبارک احمد ثانی کیس میں ہمیں امید ہے یہ آخری موقع ہوگا اور مناسب فیصلہ آئے گا، قادیانیوں کا مسئلہ یہ ہے وہ تو آئین پاکستان کو ہی نہیں مانتے، قادیانی ابھی بھی تفسیر صغیر کی تشہیر کررہے ہیں۔اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اس پر تو پھر ایف آئی آر کاٹی جاسکتی ہے، جب کہ عطاالرحمان نے مزید کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز پر ہم دیگر علما کی طرح متفق ہیں، مسلمانوں کے جذبات اس معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔اس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے پھر اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قادیانیوں کو آئین اور قانون کے مطابق حقوق 2 صورتوں میں ملیں گے، قادیانی خود کو غیر مسلم تصور کریں یا پھر ختم نبوت کو مان لیں۔اس پر عطالرحمان نے کہا کہ آئین کہتا ہے قرآن اور سنت کے برعکس کوئی قوانین نہیں بن سکتے  اس دوران مولانا فضل الرحمان نے بھی نے بھی حافظ احسان کے نمائندے کی تائید کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ 6 فروری سے اب تک جتنے فیصلہ ہوئے ان کو کالعدم قرار دیا جائے، عدالت نیا فیصلہ جاری کرے تاکہ کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔فضل الرحمان بولے کہ یہ آپ کی عدالت ہے، یہاں آپ کا حکم چلتا ہے میں کیا کرسکتا ہوں۔ تاہم، چیف جسٹس خاموش ہوگئے۔ سماعت میں کچھ دیر کا وقفہ کر دیا گیا۔
#/S