ماما عبدالقدید بلوچ کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا معاملہ،سپریم کورٹ میں وفاقی حکومت کی سماعت کاموقع دے کرفیصلہ کرنے کی یقین
ہم دیکھیں گے کہ کسی شخص کانام ای سی ایل پرڈالنا آئین کے مطابق ہے کہ نہیں ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
عدالتی حکم کو بے معنی نہیں بناسکتے، اگر حکم چاہتے ہیں توہم جاری کرسکتے ہیں، بہتر ہوگادرخواست واپس لے لیں۔دوران سماعت ریمارکس
عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان میں وفاقی حکومت نے ماما عبدالقدید بلوچ کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے معاملہ پر سماعت کاموقع دے کرفیصلہ کرنے کی یقین دہانی کروادی۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ کسی شخص کانام ای سی ایل پرڈالنا آئین کے مطابق ہے کہ نہیں ، آئین لوگوں کو پسندنہیں، آئین میں کیا لکھا ہے۔ کچھ اورہی نہ ہوجائے، قانون کواٹیک نہ کروادیں، قانون دکھائیں، شقیں دکھائیں۔ اگر اُس کے خلاف کوئی فوجداری کیس درج نہیں توجہاںمرضی جائے،اگر کیس درج ہوتوپھر عدالت کی مرضی ہے کہ وہ باہر جانے کی اجازت دے یانہ دے۔ ایسا تونہیں ہوسکتا کہ وفاقی حکومت روزانہ نام ای سی ایل پر ڈالتی رہے اور ہائی کورٹ روزانہ نام ای سی ایل سے نکالتی رہے یا توآپ عدالت کے حکم کو چیلنج کریں۔ عدالتی حکم کو بے معنی نہیں بناسکتے، اگر حکم چاہتے ہیں توہم جاری کرسکتے ہیں، بہتر ہوگادرخواست واپس لے لیں۔عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 2رکنی بینچ نے ماما عبدالقدیر بلوچ اوردیگر کانام ای سی ایل پر نام ڈا؛نے کے معاملہ پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف وفاقی وزارت داخلہ کے توسط سے وفاقی حکومت کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان اوروزارت داخلہ کے حکام پیش ہوئے۔ چوہدری عامر رحمان نے بتایا ماماعبدلقدیر بلوچ کانام ای سی ایل پر ڈالا گیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاسپورٹ بھی وفاقی حکومت کامحکمہ ہے کیا پاسپورٹ الگ ہے اور وفاقی حکومت الگ ہوتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایسا تونہیں ہوسکتا کہ وفاقی حکومت روزانہ نام ای سی ایل پر ڈالتی رہے اور ہائی کورٹ روزانہ نام ای سی ایل سے نکالتی رہے یا توآپ عدالت کے حکم کو چیلنج کریں۔چیف جسٹس کاکہناتھا کیا متاثرہ شخص ہرروز آئینی درخواست دائر کرتا رہے۔چوہدری عامررحمان کاکہناتھا کہ 28اکتوبر2021کااسلام آباد ہائی کورٹ کاحکم ہے ، درخواست منظور ہوئی۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اس حکم کوچیلنج کرتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں جاتے، ہم استدعا کونہیں دیکھیں گے، عدالتی حکم کودیکھیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کچھ اورہی نہ ہوجائے، قانون کواٹیک نہ کروادیں، قانون دکھائیں، شقیں دکھائیں۔ چوہدری عامر رحمان کاکہناتھا کہ ماما عبدالقدیر کانام وفاقی کابینہ کے فیصلے اور انٹیلیجنس ایجنسی کی رپورٹ پر نام ای سی ایل پر ڈالا گیا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کابینہ کافیصلہ کدھر ہے۔چوہدری عامر رحمان کاکہناتھا کہ قانون کے مطابق مدعا علیہ وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف 15روز کے اندر نظرثانی درخواست دائر کرسکتا ہے۔چیف جسٹس کا چوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ بہترہو گا آپ اس درخواست پر زورنہ دیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ آئین کے مطابق ہے کہ نہیں ، آئین لوگوں کو پسندنہیں، آئین میں کیا لکھا ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگر اُس کے خلاف کوئی فوجداری کیس درج نہیں توجہاںمرضی جائے،اگر کیس درج ہوتوپھر عدالت کی مرضی ہے کہ وہ باہر جانے کی اجازت دے یانہ دے۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوحکم جاری کئے آپ نے ان کو نظرانداز کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ آرڈر آپ کے حق میں ہے، ایک سماعت دینی ہے، ہوسکتا ہے ہم زیادہ ریلیف دے دیں۔ چیف جسٹس کاکہناچوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ کیاآپ درخواست پر حکم چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کاچوہدری عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ کیاآپ جانتے ہیں کہ پراسیس کاغلط استعمال کیا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عدالتی حکم کو بے معنی نہیں بناسکتے، اگر حکم چاہتے ہیں توہم جاری کرسکتے ہیں، بہتر ہوگادرخواست واپس لے لیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں پورے قانون،آئین اور درخواست گزار کے کنڈکٹ کودیکھنا ہوگا۔ چیف جسٹس ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ مجھے آپ کے رولز کی کوئی پریشانی نہیں۔ چوہدری عامر رحمان کاکہناتھا انہیں عدالت کو کسی قسم کی یقین دہانی کروانے سے قبل متعلقہ حکام سے ہدایات لینا ہوں گی۔ اس پر چیف جسٹس نے کیس التوامیں رکھ دیا اورایڈیشنل اٹارنی جنرل کوہدایت کی متعلقہ حکام سے ہدایات لے لیں۔ جس عدالتی وقفہ کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چوہدری عامر رحمان نے بتایا کہ وزارت داخلہ ماما عبدالقدیر کو الزامات پر جواب دینے کا موقع دے کر فیصلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی یقین دہانی کے بعد عدالت نے درخواست نمٹا دی۔