آئی ایم ایف سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، آئی ایم ایف نے یہ تونہیں کہا کہ عمر کی بالائی حد میں رعایت دیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
77سال پاکستان کو بنے ہوئے ہوگئے ہیں، قرضوں میں ڈوبے جارہے ہیں
عمر کی حد میں رعایت دینے کاآغاز 1961میں ہوا، آمر کازمانہ آگیا، ایوب خان تھے ان کو توکوئی چھوہی نہیں سکتا تھا
ایک سیکشن افسر نے رول بنادیا ساراپاکستان اس کے تابع ہے، پاکستان کی اس طریقہ سے تباہی کررہے ہیں
انتظامیہ ،مقننہ کے تابع ہے اُس نے اختیار نہیں دیا،پینشن کابل پاکستان کو دبائے جارہا ہے
آئین کہتا ہے کہ کوئی اختیارنہیں ہوگا یاتو 35سال عمر کردیں۔ صدر اور وزیر اعظم کیوں رعایت دے سکتا ہے، وجہ بتائیں۔دوران سماعت ریمارکس
اس قانون کااتناغلط استعمال کیا گیا ہے کہ اپنے من پسند لوگوں کو 10،10سال12،12سال رعایت دی گئی۔ جسٹس عرفان سعادت خان
سپریم کورٹ کا تمام صوبائی حکومتوں اوروفاقی حکومت کو 12جولائی 2024کے حکم کی روشنی میں عمر کی بالائی حد کے حوالہ سے دوبارہ تحریری جواب جمع کرونے کاحکم
عدالت کی ایک ماہ میں جواب جمع کروانے کی ہدایت،کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
اسلام آباد( ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، آئی ایم ایف نے یہ تونہیں کہا کہ عمر کی بالائی حد میں رعایت دیں، 20سال اور30سال نوکری کرنے والے کوبھی پینشن دیتے ہیں، کم ازکم 30سال ملازم سے کام توکروائیں۔پا کستان قرضوں میں ڈوب گیا ہے، آئی ایم ایف کے پاس چلے جائیں گے اوربھیک مانگیں گے، عمرکی بالائی حد میں رعایت دینے سے پاکستان کے لوگوں کوکیا فائدہ ہوتا ہے۔ 77سال پاکستان کو بنے ہوئے ہوگئے ہیں، قرضوں میں ڈوبے جارہے ہیں۔عمر کی حد میں رعایت دینے کاآغاز 1961میں ہوا، آمر کازمانہ آگیا، ایوب خان تھے ان کو توکوئی چھوہی نہیں سکتا۔ ایک سیکشن افسر نے رول بنادیا ساراپاکستان اس کے تابع ہے، پاکستان کی اس طریقہ سے تباہی کررہے ہیں، یہ خیراتی چینل بنادیا، صدرکا لکھا، وزیر اعظم کالکھا، چیف جسٹس اوراٹارنی جنرل کاکیوں نہیں لکھا کہ وہ بھی عمرکی بالائی حد میں رعایت دے سکتے ہیں۔ انتظامیہ ،مقننہ کے تابع ہے اُس نے اختیار نہیں دیا،پینشن کابل پاکستان کو دبائے جارہا ہے، میں بادشاہ ہوں جومرضی کروں، آئین کہتا ہے کہ کوئی اختیارنہیں ہوگا یاتو 35سال عمر کردیں۔ صدر اور وزیر اعظم کیوں رعایت دے سکتا ہے، وجہ بتائیں۔ میرٹ پرآنے والوں کوتورعایت نہیں دینی اور جو میرٹ پر نہیں انہیں رعایت دینی ہے چیف سیکرٹری سندھ کے پاس بڑے اختیارات ہیں وہ 15سال عمر کی بالائی حد میں رعایت دے سکتا ہے، ہم یہ کردیتے ہیں کہ جوعمر کی بالائی حد میں رعایت دے وہ اپنی جیب سے پینشن دے ، صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ جو بھی رعایت دے وہ پینشن دے۔ یہ صاحب توچھوڑ دو، یہ آزاد ملک ہے، غلامی کی ذہنیت ہی نہیں جائے گی، چیف سیکرٹری صاحب۔ جب اشتہاردیں تو مرووں کے لئے عمر کی حد30سال اورخواتین کے لئے 35سال مقررکردیں ہم اس کو چھوئیں گے بھی نہیں، ہم صوابدیدی اختیارواپس لیں گے، کیوں عمر کی بالائی حد میں رعایت دیں۔ کیوں عمر کی بالائی حد کالفظ استعمال کررہے ہیں اس لفظ کوختم کریں۔ کیوں رعایت ہو، کیوں چوردروازہ کھول رہے ہیں۔ جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس قانون کااتناغلط استعمال کیا گیا ہے کہ اپنے من پسند لوگوں کو 10،10سال12،12سال رعایت دی گئی۔ بچے ڈگریاں لے کراِدھر سے اُدھرجارہے ہیں۔ جبکہ عدالت نے تمام صوبائی حکومتوں اوروفاقی حکومت کو 12جولائی 2024کے حکم کی روشنی میں عمر کی بالائی حد کے حوالہ سے دوبارہ تحریری جواب جمع کرونے کاحکم دیتے ہوئے قراردیا ہے کہ جواب میں تمام رولز، ریگولیشنز اور نوٹیفکیشنز کاحوالہ دیا جائے۔وفاق کے جواب پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اوراٹارنی جنرل جبکہ صوبوں کے جواب پر چیف سیکرٹریز، متعلقہ سیکرٹریز اورایڈووکیٹ جنرلز کے دستخط کے ساتھ جمع کروائے جائیں۔عدالت نے ایک ماہ میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روزچیف سیکرٹری خیبرپختونخوا ، پشاوراوردیگر کی جانب سے ماجدخان، میجرطاہرزمان اوردیگر کی جانب سے عمرکی بالائی حد میں رعایت کے حوالہ سے دائر دودرخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے 12جولائی2024کو درخواست کی سماعت کے دوران سرکاری ملازمت کے لئے عمر کی بالائی حد میں رعایت دینے کے معاملے کانوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت اورچاروں صوبوںکو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا گیا تھا۔ عدالتی نوٹس پر وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسداللہ خان، صوبہ پنجاب کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق، صوبہ سندھ کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سیف اللہ، صوبہ خیبر پختونخوا کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل الیاس اور صوبہ بلوچستان کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمد ایازخان سواتی پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سوالوں کے جواب دیئے ہیں یادیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا اسد اللہ خان نے بتایا کہ انہوں نے جواب جمع کروادیا ہے،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ میں جواب جمع کروادیا ہے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ وہ جواب لائے ہیں تاہم جمع نہیں کروایاجوبعد ازاں جمع کروادیا گیا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ انہوں نے جواب جمع کروادیا ہے جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ انہیں صرف نوٹس جاری ہوا ہے جواب طلب نہیں کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سب سے پہلے وفاق کامئوقف سن لیتے ہیں، کدھر آپ کامئوقف ملے گا، کون بالائی عمرکی حد میں رعایت دیتا ہے، خودبخود ہوتا ہے یاکوئی آرڈر پاس کرناہوتا ہے۔ رانااسداللہ خان کاکہنا تھا کہ خودبخود ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ سمجھائیں، کوئی شخص وفاقی حکومت کاملازم اُس وقت بنے گاجب وہ بھرتی ہوگا، کیوںکاجواب دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈرائیونگ لائسنس18سال کی عمر میں ملتا ہے تواس کاجواب دیں گے، بندوق کالائسنس بچے کوتونہیں دیتے، نوٹس دینے کامقصد ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کون سے ایکٹ کے تحت رول بنتے ہیں، عمر میں رعایت والا سیکشن بتائیں،پہلے قانون میںبتائیں گنجائش ہے ،لاء افسر کے طورپر ایکٹ کریں، ذاتی مسئلہ نہ سمجھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں قانون کی کلاس میں پڑھایا گیا تھا کہ رول بنانے کے لئے وہ پاور استعمال ہوگی جوقانون میں ہے، اگراختیار نہیں تواستعمال کیسے کررہے ہیں،بیچ میں بنیادی طور پر کہاں سے آجاتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رولز وہ بناسکتے ہیں جس کاتذکرہ ہو، عمر کی بالائی حد میں رعایت کارول بناسکتے ہیں یہ بتادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ مقننہ کے تابع ہیں، حکومت مقننہ کے تابع ہے، اگر پارلیمنٹ نے اختیاردیا ہے توآگے بڑھتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ اس قانون کااتناغلط استعمال کیا گیا ہے کہ اپنے من پسند لوگوں کو 10،10سال12،12سال رعایت دی گئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عمر 30سال لکھتے ہیں اوراپنے 35سالہ بندے کو بھرتی کرلیتے ہیں، کبھی کبھی ہم تھوڑی عقل بھی استعمال کرلیا کریں، ایک سیکشن افسر نے رول بنادیا ساراپاکستان اس کے تابع ہے، پاکستان کی اس طریقہ سے تباہی کررہے ہیں، یہ خیراتی چینل بنادیا، صدرکا لکھا، وزیر اعظم کالکھا، چیف جسٹس اوراٹارنی جنرل کاکیوں نہیں لکھا کہ وہ بھی عمرکی بالائی حد میں رعایت دے سکتے ہیں، یا توکہیں 30سال ایٹمی سائندان نہیں ملا، پھر بے شک عمر کی حد بڑھادیں، بیک ڈور کیوں کھول رہے ہیں۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ معاونت کریں یا بیٹھ جائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انتظامیہ ،مقننہ کے تابع ہے اُس نے اختیار نہیں دیا،پینشن کابل پاکستان کو دبائے جارہا ہے، میں بادشاہ ہوں جومرضی کروں، آئین کہتا ہے کہ کوئی اختیارنہیں ہوگا یاتو 35سال عمر کردیں۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جب کچھ کہنے کو نہ ہوتوبنیادی طور پرکہہ دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلا مرحلہ طے نہیں کررہے آئین کامرحلہ تواورمشکل ہو گا، آئین کاآرٹیکل 27پڑھیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس کومرضی عمر کی حدمیں رعایت دے دیں، میں نے اپنے بندے کو دینا ہے، 500بندے آئیں گے اورایک درخواست آجائے گی نوکری اُس کو مل جائے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صرف حکومت کے ملازمین کو ٹیکس دہندگان پیسے دیتے ہیں، پرائیویٹ سیکٹر کو حکومت پیسے نہیں دیتی وہ جو مرضی کرے اور جس کومرضی رکھے، صدر اور وزیر اعظم کیوں رعایت دے سکتا ہے، وجہ بتائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس دوسراجھگڑآیا تھا کہ وفاق کے رولز صوبوں پر لاگونہیں ہوتے۔ چیف جسٹس کارانا اسداللہ خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کس سیکشن افسر نے جواب لکھا ہے، پاکستان چلا ہی سیکشن افسر رہا ہے،جو نیچے سے ترقی کرکے سیکشن افسر بنتا ہے،کیا جواب پر دستخط کئے، کس کی ہدایت پر جواب دائر ہوا ہے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، سیکرٹری کابینہ ڈویژن کس کے دستخط ہیں۔ رانا اسداللہ خان کاکہنا تھاکہ جواب اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے تیار کیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ نے جواب پر دستخط کیئے ہیں، کیا وہ سرکاری ملازم ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یہ فیصلہ پورے پاکستان کومتاثر کرے گااگر ہم اِس کو اڑادیتے ہیں ، سیکشن افسر اسٹیبلشمنٹ ڈوژن پورے پاکستان کوچلا رہا ہے، کیا اٹارنی جنرل کاآفس اُس کے تابع ہے، ہمارے ساتھ مذاق کررہے ہیں، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن جواب پر دستخط نہیں کرسکتا تھا؟اس موقع پر رانا اسد اللہ خان نے عدالت سے استدعا کی کہ مزید مہلت دے دیں ہم نیاجواب جمع کروادیں گے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 12جولائی کو حکم دیا تھا ، اگرزبانی دلائل دینا چاہیں تودے دیں ہم سن لیتے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھاکہ 40یا45سال کی عمر کے بندے کوکیوں لگائیں، قانون میں لکھا ہے کہ آرمی والے کو 15سال رعایت ہوگی، سرکاری ملازم کو 10سال رعایت ہوگی، معذور کو10سال رعایت ہوگی، اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو3سال رعایت ہوگی، وزیر اعلیٰ بلوچستان کو خصوصی اختیار حاصل ہے،سی ایس ایس میں رعایت نہیں ہوتی کیوں کہ وہاں پر بچے پڑھ کر میرٹ پرآتے ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں، آئی ایم ایف نے تونہیں کہا کہ عمر کی بالائی حد میں رعایت دیں، 20سال اور30سال نوکری کرنے والے کوبھی پینشن دیتے ہیں، کم ازکم 30سال ملازم سے کام توکروائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر پینشن سے بچنا ہے تو پھر 55سال عمر والوں کو ملازمت دیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ بچے ڈگریاں لے کراِدھر سے اُدھرجارہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میرٹ پرآنے والوں کوتورعایت نہیں دینی اور جو میرٹ پر نہیں انہیں رعایت دینی ہے۔ رانا اسداللہ خان کے بعد ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سیف اللہ پیش ہوئے۔ سیف اللہ نے بتایا کہ حال ہی میں ان کی تعیناتی بطور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ اسلام آباد میں کی گئی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چیف سیکرٹری سندھ کے پاس بڑے اختیارات ہیں وہ 15سال عمر کی بالائی حد میں رعایت دے سکتا ہے، ہم یہ کردیتے ہیں کہ جوعمر کی بالائی حد میں رعایت دے وہ اپنی جیب سے پینشن دے ، صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ جو بھی ریاعت دے وہ پینشن دے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ چیف سیکرٹر ی کے عدالتوں کے لئے فوکل پرسن اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سید محسن حسین شاہ نے جواب پر دستخط کئے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فوکل پرسن کیا چیز ہے، چیف سیکرٹری دستخط کرتے تھک جائیں گے، چیف سیکرٹری سندھ اتنے مصروف ہیں،پتانہیں کیا چیزوں کامذاق بنایاہوا ہے، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے بھی زیادہ طاقتورہے۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ صاحب توچھوڑ دو، یہ آزاد ملک ہے، غلامی کی ذہنیت ہی نہیں جائے گی، چیف سیکرٹری صاحب۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ کاکہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس عمر کی بالائی حد میں رعایت دینے کااختیار نہیں تاہم وزیر کویہ اختیار حاصل ہے۔اس پر جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کے پاس کوئی اختیار نہیں توکیا وزیر سیاستدان نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ ظلم نہ کریں، ہمارے سوالوں کاجواب دیں،ہماراوقت ضائع نہ کریں، عمر کی رعایت کے حوالہ سے بتائیں۔ چیف جسٹس ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پنجاب میں کوئی عمرکی رعایت کے حوالہ سے کچھ ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تاریخی طور پر کب عمر کی بالائی حد میں رعایت دینا شروع ہوا۔ اس پر خالد اسحاق کاکہنا تھاکہ 1961میں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آمر کازمانہ آگیا، ایوب خان تھے ان کو توکوئی چھوہی نہیں سکتا، قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنایاانہوں نے کوئی رعایت نہیںدی، لیاقت علی خان نے بھی کوئی رعایت نہیں دی، حسین شہیدسہروردی کونکال دیا گیا تھا ان کو بھی سمجھ نہیں آیا، کیوں آمرانہ چیزوں پر عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس کاخالد اسحاق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیاستدان بُرے ہوتے ہیں جو عمر کی بالائی حد میں رعایت نہیں دے سکتے اورانتظامی سیکرٹری اچھے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یاتوکہیں کہ پی ایچ ڈی مائیکروبیالوجی تعلیم رکھی تومطوبہ بندہ نہیں ملا۔ خالد اسحاق کاکہنا تھا کہ پنجاب میں 5سال سے زائد عمر کی بالائی حد میں رعایت کاقانون موجود نہیں، یہ رعایت سب کے لئے یکساں طور پر ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا پاکستان کی آبادی کم ہو گی ہے جو قابل لوگ نہیں ملیں گے۔ خالد اسحاق کاکہنا تھا کہ اب توہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199کادائرہ اختیاراستعمال کرتے ہوئے عمر کی بالائی حد میں رعایت دینے کے احکامات جاری کررہی ہے۔ اس پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کاکہنا تھا کہ اگر ہائی کورٹ کوئی غلط کام کررہی ہے تو وہ بھی غلط ہے، وہ بھی آپکے رولز کے تحت ہی کررہی ہوگی، ہم آپ کاکام آسان کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جب اشتہاردیں تو مرووں کے لئے عمر کی حد30سال اورخواتین کے لئے 35سال مقررکردیں ہم اس کو چھوئیں گے بھی نہیں، ہم صوابدیدی اختیارواپس لیں گے، کیوں عمر کی بالائی حد میں رعایت دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ قانون ساز سب سے بڑاخود خلاف ورزی کرنے والا ہے، جب حکومت میں آجاتے ہیں تو پھر ہیں ہم جومرضی کریں۔ خالد اسحاق کاکہنا تھا کہ میں نے اپنے جواب پر خود ستخط کئے ہیں مجھے معاونت کے لئے 27-Aکا نوٹس ملاتھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کوکس نے انگیج کیا ہے۔ اس پر خالد اسحاق کاکہنا تھا کہ مجھے کسی نے انگیج نہیں کیا۔ چیف جسٹس کاایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج آپ سے اچھی معاونت نہیں مل رہی تاہم آپ نے دوسروں سے اچھا پوائنٹ بنایاہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں صوابدید ہونی چاہیئے، اس سوال کاجواب نہیں دے رہے، کیوں صوابدید ہونی چاہیئے ہم توآپ کے پیسے بچانے کی کوشش کررہے ہیں، پاکستان قرضوں میں ڈوب گیا ہے، آئی ایم ایف کے پاس چلے جائیں گے اوربھیک مانگیں گے، عمرکی بالائی حد میں رعایت دینے سے پاکستان کے لوگوں کوکیا فائدہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ اگر وہ دوران ملازمت زیادہ پڑھیں گے توبڑی پوسٹوں کے لئے اہل ہوں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں عمر کی بالائی حد کالفظ استعمال کررہے ہیں اس لفظ کوختم کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اہل لوگوں کے حوالہ سے جورعایت دینی ہے وہ اشتہارمیں ہی لکھیں، دروازہ کیوں کھول رکھیں، دروازہ کھول دیااس میں اچھے لوگ بھی آرہے ہیں اوردنیا بھر کے لوگ بھی آرہے ہیں، رعایت کالفظ نکالیں، آپ کے پاس اختیارنہیں ہے، کیٹیگری بنادیں، جوہوشیارآدمی اشتہاربنارہا ہے وہ سب کچھ اشتہارمیں لکھ دے، سب ڈاکٹرز کی عمر بڑھادیں۔ چیف جسٹس کاخالد اسحاق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب حکومت کاجواب بھی داخل کردیں، اب حکومت کوبھی نوٹس دیتے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان محمدایازخان سواتی کاکہنا تھا کہ عمر کی بالائی حد میں رعایت ہونی چاہیئے اس سے لوگوں کافائدہ ہوتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں رعایت ہو، کیوں چوردروازہ کھول رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل الیاس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا صوابدیدی ہونی چاہیئے۔ شاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ انہوں نے چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کے دستخطوں سے جواب جمع کروایا ہے۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مرحوم ملازم کے بیٹے اوربیٹی کو کیوں ملازمت ملے ، کیا یہ آئین کے آرٹیکل 25کی خلاف ورزی نہیں، وجہ بتائو کیا بیوہ کو پینشن نہیں ملے گی، پھر ججوں کے بچوں کانام بھی لکھ دو، سول جج کے بچوں کونوکری کیوں نہ ملے، آپ نے اپنے لئے گنجائش نہیں رکھی،اس میں ایڈووکیٹ جنرل کابھی رکھ لیتے، کتنے صوبائی ملازمین ہیں پھر توکوئی باہر سے آہی نہیں سکتا، تازہ خون توگیا، میرٹ توگیا، امریکہ اورولایت کودیکھتے ہیں ، افغانستان، ایران یا بھارت کہاں سے یہ رہنمائی لیتے ہیں، حکومت میں آکر پارلیمنٹ کوبھول جاتے ہیں، سروس آف پاکستان سرکاری پوسٹ ہے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیئے، سول سرونٹ کے بچے بھی دیگر لوگوں کے بچوں کی طرح ہوں گے، اب تویہ رکھ دیا ہے کہ یونیورسٹیوں میں پروفیسرز کے بچوں کو 10نمبراضافی ملیں گے، ٹیچر کے بچے کوتوزیادہ قابل ہونا چاہیئے اگر ایسا نہیں توپھر ٹیپچر کی کابلیت پھر سوال اٹھے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 77سال پاکستان کو بنے ہوئے ہوگئے ہیں، قرضوں میں ڈوبے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا خیبرپختونخواقانون میں یہ بھی رکھ دیا کہ بیوہ کو10سال رعایت ملے گی، پہلے وہ شوہر سے طلاق لے کراپلائی کرے گی ، 10سال رعایت لے گی اور واپس شادی کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر موزوں شخص نہیں ملتا توپھر دوبارہ اشتہاردے دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ حکومت کو بھی ایک اورموقع جواب جمع کروانے کادے دیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ 12جولائی 2024کے حکم کی روشنی میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے دستخطوں سے جواب جمع کروایا، سیکشن افسر نے پاورآف اٹارنی پر دستخط کئے۔ اہم معاملہ میں غیر سنجیدہ رویہ اختیارکیا گیا ہے۔12جولائی کے حکم کی روشنی میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور اٹارنی جنرل کے مشترکہ دستخطوں سے دوبارہ نئی رپورٹ جمع کروائی جائے، رول یا پالیسی ہے تووجوہات بھی دی جائیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے جواب جمع نہیں کروایا، تمام صوبائی حکومتوں اوروفاقی حکومت کونوٹس جاری کیاجاتاہے اورتازہ جواب جمع کروائیں، چیف سیکرٹری، متعلقہ سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل کے دستخطوں کے ساتھ جواب جمع کروایا جائے۔ سندھ کی جانب سے جواب جمع کروایا گیا جس پر چیف سیکرٹری کے عدالتی امور کے لئے فوکل پرسن سید محسن حسین شاہ نے دستخط کئے۔ فوکل پرسن کے دستخط سے جواب جمع کروانا چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کے تحقیر ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ انگیجمنٹ عدالت کے سامنے رکھی گئی اورچیف سیکرٹری اور متعلقہ سیکرٹری کے توسط سے جواب جمع نہیں کروایاگیا اورایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی بائی پاس کیا گیا، اگریہ سلسلہ جاری رہا توہم چیف سیکرٹر ی کونوٹس دیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ چیف سیکرٹری، متعلقہ سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے دستخطوں سے جواب جمع کروایا جائے اوراگرایڈووکیٹ جنرل سندھ کواس جواب سے اختلاف ہوتووہ اپنا الگ جواب جمع کروئیں۔چیف جسٹس کاحکم میں کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کاجواب توچیف سیکرٹری کے دستخط سے جمع کروایا گیااس میں نئے سوال سامنے آئے ہیں، سول سرونٹ کی بیوہ، بچے اور شہید پولیس اہلکاروں کے بھائی اوربیٹے کو ملازمت دی جائے گی، اس حوالہ سے جواب جمع کروایا جائے۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ اگر عمر کی بالائی حد میں رعایت دی جائے گی تووہ سب کے لئے ہوگی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تمام صوبائی حکومتیں اوروفاق 12جولائی 2024کے حکم کی روشنی میں عمر کی بالائی حد کے حوالہ سے دوبارہ تحریری جواب جمع کروائیں، اس میں تمام رولز، ریگولیشنز اور نوٹیفکیشنز کاحوالہ دیا جائے۔ عدالت نے ایک ماہ میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ ZS
#/S