بلاول بھٹو زرداری نے آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کردی
آئینی عدالت میثاق جمہوریت کے تحت قائم کی جانی چاہیے، چیئرمین پی پی پی
عدالتی نظام درست کرنے کے لیے آئینی ترمیم وقت کی ضرورت ہے،وکلا نمائندگان سے خطاب
اسلام آباد(ویب نیوز)
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آئینی عدالت کے قیام کے حمایت کر تے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں بہتری لانی ہے تو آئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے، عدالتی نظام درست کرنے کے لیے آئینی ترمیم وقت کی ضرورت ہے، آئینی عدالت کا مینڈیٹ آئینی معاملات کی تشریح ہوگا۔اسلام آباد میں ملک بھر کے وکلا نمائندگان سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت میثاق جمہوریت کے تحت قائم کی جانی چاہیے، آئینی عدالت کا قیام بے نظیر بھٹو کا وژن تھا، پاکستان میں روایت چلی آرہی ہے کہ آپ کی رشتہ داری ہے تو آپ جج بنیں گے، اس کا نقصان ہمارے عدالتی عمل کو ہوا ہے، جج کا کام ڈیم بنانا یا ٹماٹر پکوڑے کی قیمتیں طے کرنا نہیں بلکہ آئینی ذمے داریاں پوری کرنا ہے، ہمیں عدالتی تقرریوں کا عمل درست کرنا ہے، وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی آئینی عدالتیں ہونی چاہئیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے وکلا نے ملک کو آئین دیا، آپ کی محنت سے ہم نے پارٹی کی بنیاد رکھی، 1973 کا آئین ملک کو دیا، آپ کی جدوجہد سے ہم نے مشرف کی آمریت کو شکست دی، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے نا انصافی دیکھی، والد کا عدالتی قتل ہوا، شہید بی بی کا وژن تھا کہ ہمیں آئینی عدالت قائم کرنی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو سیاست سے نقصان پہنچا ہے، پیپلز پارٹی نے چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کیے ہیں، آمرانہ دور میں وکلا نے جمہوریت بحالی کیلئے کوششیں کیں، پارلیمنٹ نے فیصلہ کیا کہ عوام کا فیصلہ ہوگا کون جج بنے گا۔ پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ 50 سال مجھے انصاف کیلیے انتظار کرنا پڑا، قائد عوام کے لیے انتظار کرنا پڑا، بیٹی کے بعد نواسہ نواسی آئے تب انصاف کی باری آتی ہے، عوام کو ہم نے جلدی اور فوری انصاف دلوانا ہے، سپریم کورٹ میں 50 فیصد کیس آئینی ہوتے ہیں، سپریم کورٹ میں 50 فیصد کیسز کو 90 فیصد ٹائم ملتا ہے، 50 فیصد کیسز 90 فیصد وقت لیتے ہیں تو کیا ان کے لیے الگ عدالت نہ بنائی جائے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کی تجویز ناکافی ہے، وفاقی عدالت میں آئینی عدالت بن سکتی ہے تو صوبائی عدالتوں میں بھی ہوں، اگر آپ مطمئن نہیں تو پھر آئینی عدالت کو بننا چاہیے، موجودہ عدالتی نظام سے کیا آپ مطمئن ہیں تو ایسے ہی چلتا رہے، میں اپنا موقف دینے کے لیے آج یہاں خود کھڑا ہوں، آج بھی وکلا میرے بازو ہیں، وکلانے ہر آمریت کے دور میں اس کے خلاف صف اول کا کردار ادا کیا، وکلا پیپلزپارٹی کااثاثہ ہیں۔ وکلا نے ملک کو آئین دیا، وکلا کی جدوجہد سے ہم نے مشرف کی آمریت کو شکست دی، بی بی شہید کہتی تھیں جن ججز نے سیاست کرنی ہے وہ اپنی پارٹی بنالیں۔عدالت سے سیاست کی امید رکھیں گے تو جمہوریت اور عوام کو نقصان ہوگا، بینظیر بھٹو نے اس وقت کہا تھا مک میں آئینی عدالتیں ہونی چاہییں۔ان کا کہنا تھا کہ عدالتی نظام میں بہتری لانی ہے تو آئینی عدالتوں کا قیام ضروری ہے،انہوں نے کہا کہ صوبائی سطح پر ہائی کورٹ ججز، وکلا سے مشاورت کرکے ابھی نہیں تو آگے جاکر الگ عدالت بناسکتے ہیں۔انہوں نے کہا جب میثاق جمہوریت کیاگیا، اس وقت افتخار چوہدری پی سی او کے تحت مشرف کی عدالت کا جج تھا، اس وقت انہوں نے سوچا کہ اگر ہم نے عوام کو انصاف دلانا ہے، عدالتی نظام کو درست کرنا ہے تو آئینی عدالت بنانی پڑے گی جہاں آئینی معاملات سے متعلق کیس سنے جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہم دنیا کے دیگر ممالک کو دیکھتے ہیں جیسے امریکا میں پارلیمان آئینی عدالت کے ججز کا باقاعدہ انٹرویو کرتے ہیں، اس بات سے نہیں کہ وہ کون سے سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے انٹرویو لیا جاتا ہے کہ قانون کے مطابق آپ کا فلسفہ کیا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب میاں نواز شریف کی حکومت تھی تو 58-2b جو پیپلز پارٹی نے صدر سے لے لیا تھا، پہلے وہ افتخار چوہدری کے پاس گیا، اس نے گیلانی کے خلاف استعمال کیا، پھر وہ کھوسہ کے پاس گیا، اس نے میاں صاحب کے خلاف استعمال کیا۔انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو اپنے والد کے انصاف کے لیے 50 سال انتظار کرنا پڑا، 50 سال بعد اس کیس کا فیصلہ سنانے والے عدالتی بینچ بشمول چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصور علی شاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، مگر کیا اگر ایک سابق وزیراعظم جس کی بیٹی بھی وزیراعظم ہو، وہ 30 سال جہدوجہد کرے، پھر صدر زرداری نے ریفرنس بھیجا، پھر بھی 10 سال انتظار کرنا پڑا تو عام آدمی کو کتنا انتظار کرنا پڑتا ہوگا، چوری، قتل کے مقدمے میں کیا لوگوں کو 50،50 سال کا انتظار کرنا پڑیگا۔انہوں نے کہا جب میثاق جمہوریت کیاگیا، اس وقت افتخار چوہدری پی سی او کے تحت مشرف کی عدالت کا جج تھا، اس وقت انہوں نے سوچا کہ اگر ہم نے عوام کو انصاف دلانا ہے، عدالتی نظام کو درست کرنا ہے تو آئینی عدالت بنانی پڑے گی