حکومت نمبرز پورے ہونے کے باوجود تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتی ہے : بلاول بھٹو
پارلیمانی کمیٹی کا تفصیلی اجلاس ہوا، پیپلز پارٹی کا مسودہ ہم نے کمیٹی میں پیش کیا، حکومت نے بھی اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔میڈیا سے گفتگو
اسلام آباد( ویب نیوز)
چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ دو تہائی اکثریت کیلئے نمبر پورے ہیں تاہم حکومت نمبر پورے ہونے کے باوجود تمام جماعتوں سے مشاورت چاہتی ہے۔آئینی ترمیم سے متعلق تحفظات، مشاورت اور تجاویز کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان، بیرسٹر گوہر سمیت دیگر رہنماوں نے شرکت کی۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کا تفصیلی اجلاس ہوا، پیپلز پارٹی کا مسودہ ہم نے کمیٹی میں پیش کیا، آئینی عدالت اور ججوں کے تقرر کے طریقہ کار کے حوالے سے وکلا تنظیموں کا موقف پیش کیا گیا جبکہ حکومت نے بھی اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے یہ ڈرافٹ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کیا، اس کے علاوہ حکومت نے جو وکلا سے بحث کی اس کے نکات بھی اس کمیٹی میں پیش ہوئے۔چیئرمین پی پی پی کا مزید کہنا تھا اپوزیشن جماعتوں نے بھی آئینی ترمیم پر تبصرہ کیا، مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر متفقہ مسودہ تیار کرنے کا عزم دہرایا، امید ہے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بامعنی گفتگو ہو گی، حکومت بھی پر عزم ہے۔بلاول بھٹوزرداری سے صحافیوں نے سوال کیا کہ آپ نے نواز شریف، مولانا سمیت سب سے تفصیلی ملاقاتیں کیں ، آج پی ٹی آئی سمیت دیگر سے بھی مشاورت ہوگئی مگر اتفاق رائے پر کس حد تک قائل کرسکے ؟ اگر اتفاق رائے نہ ہو پایا تو کیا حکومت جو آپ نے بقول پر اعتماد ہے اسے حق نہیں کہ وہ آئینی ترمیم کیلئے آگے بڑھے؟ ۔ جس کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آپ کا جواب نہ صرف اپنی جگہ پر بہتر بلکہ انتہائی اہم ہے اور اپنی جگہ پر موجود ہے ، حکومت کا شکر گزار ہوں کہ ہمارے اصرار پر کہ سب سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت نے مکمل وقت دیا اور ستمبر سے ہم اس پر کوشاں ہیں، اگر مکمل اتفاق رائے نہ ہوا تو حکومت کب تک انتظار کرے گی؟، ابھی تک صرف پیپلز پارٹی کا مکمل مسودہ سامنے آیا ہے جے یو آئی کا مسودہ ابھی تک ہمیں نہیں ملا ۔ان کاکہنا تھا کہ ہمارا مسودہ دو ہفتے قبل کامران مرتضی کو مل گیا تھا، ہماری تجویز پر ہی اتفاق ہوا کہ قانون سازی ایس سی او سمٹ کے بعد کی جائے لیکن میں کب تک صرف اپنا مسودہ لے کر پھرتا رہوں گا ، اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر حکومت کو اختیار ہے وہ 25 سے بہت پہلے بھی آئینی ترمیم لاسکتی ہے، پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیجمنٹ کرنے کی کوشش کی ہم چاہتے ہیں کہ سیاستدان اور پارلیمان اپنی سپیس واپس لے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری مسودے میں آرٹیکل 175 اے میں آئینی عدالت کا قیام شامل ہے جبکہ آرٹیکل 175 اے، بی ، ڈی، ای ، ایف میں ترامیم کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے ۔ مسودے کے مطابق آئینی عدالت وفاق میں جبکہ صوبوں کی سطح پر بھی ایک ایک آئینی عدالت ہونی چاہئیے، ترمیم کے مطابق ہائی کورٹس، لوئر کورٹس کی اپیل سن سکے گی، مسودہ میں وفاقی ائینی عدالت کے ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی طے کیا گیا ہے ۔پیپلز پارٹی کی جانب سے جاری مسودے میں کہا گیا ہے کہ ججز کی تعیناتی کیلئے آئینی کمیشن آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا جائے، صوبائی سطح پر ججز کی تعیناتی کا عمل بھی آئینی کمیشن آف پاکستان دیکھے گا۔آئینی ترامیمی مسودہ میں 20سے زائد ترامیم کی تجویز دی گئی ہے ، آرٹیکل 175اے اے میں اضافی ترمیم شامل کرنے کی تجویز ہے جبکہ آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کاقیام عمل میں لایاجائے ،بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ۔حکومت نے بھی وکلا تنظیموں سے ہونے والی مشاورت سے آگاہ کیا جب کہ میری کوشش ہوگی کہ تمام جماعتوں کو ساتھ ملاں اور حکومت کو مشترکہ مسودہ پیش کروں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر قانون نے وکلا برادری کی تجاویز بھی پیش کیں،کمیٹی میں حکومت کی تجاویز بھی آئیں،مولانافضل الرحمان نہ دوبارہ موقف دہرایا کہ وہ پیپلزپارٹی کوشامل کرکے مسودہ دینا چاہتے ہیں، میں نے بھی یہی موقف دہرایا کہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، وزیرقانون نے واضح کہاکہ حکومت کے پاس نمبرز پورے ہیں ، انہوں نے کہا ہے کہ نمبرزپورے ہونے کے باوجود دیگرجماعتوں کیساتھ مشترکہ ترمیم کی کوششیں ہورہی ہیں۔چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ اگرحکومت واقعی دوتہائی اکثریت رکھتی ہے اورمشترکہ مسودہ لاناچاہتی ہے تو یہ بہترین کام ہے لیکن حکومت دیگرسارے کام چھوڑکرکب تک انتظارکرے کہ مشترکہ ڈرافٹ بن جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی ترامیم مشاورت سے کرائی ہیں لیکن حکومت کاموقف بھی وزن رکھتا ہے، ہم نے ہمیشہ عوامی بھلائی اور عوامی خدمت کے لیے قانون سازی کی، ہم چاہتے ہیں جنوبی پنجاب صوبے کی بات کی جائے، ہم نے طے کرلیا ہے ایس سی او اجلاس سے پہلے ترمیم نہیں آئے گی، پی ٹی آئی والے یک طرف ترامیم پر مشاورت کیلیے وقت مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف دھمکیاں دیرہے ہیں، ایسے کیسے چل سکتا ہے پی ٹی آئی کوکسی ایک موقف پر آنا ہوگا۔