سپریم کورٹ،آئینی بینچ نے  26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کرنے کیخلاف درخواست خارج کردی ،جواد ایس خواجہ کو 20ہزار روپے جرمانہ
 بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی فوجی عدالتوں کو کیسز کافیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی استدعا بھی مسترد کردی
ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرکے کیس کافیصلہ کرنا چاہتے ہیں،جسٹس امین الدین خان
  اگر 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھی فیصلہ آئے تونمٹائے گئے اورفیصلہ کئے گئے معاملہ کوتحفظ حاصل ہو گاجسٹس محمد علی مظہر
 فوج کی تحویل میں موجود 85ملزمان کے خلاف کس قسم کاموادموجود ہے،جسٹس حسن اظہر رضوی
  سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا یہ بات غلط ہے،وکیل خواجہ حارث
 ہم 13دسمبر 2023کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے یرغمالی ہیں،حفیظ اللہ نیازی
 اگر فیصلے کااعلان کردیا توپھر دائرہ اختیار کافیصلہ ہو گیا جو کہ غلط بات ہے،جسٹس مسرت ہلالی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران 26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کرنے کے حوالہ سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد سعید خواجہ کی درخواست 20ہزارروپے جرمانے کے ساتھ خارج کردی جبکہ بینچ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی فوجی عدالتوں کو کیسز کافیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی استدعا مسترد کردی۔جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرکے کیس کافیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ تما م درخواست گزاراوروکلاء بینچ سے تعاون کریں تاکہ کیس کاجلد فیصلہ کیا جاسکے۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھی فیصلہ آئے تونمٹائے گئے اورفیصلہ  کئے  گئے معاملہ کوتحفظ حاصل ہو گاجبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے سوال کیا ہے کہ فوج کی تحویل میں موجود 85ملزمان کے خلاف کس قسم کاموادموجود ہے۔ سانحہ آرمی پبلک  سکول پشاور کاٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلایا فوجی عدالت میں۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا انسداددہشت گردی عدالت کاکوئی تحریری حکم موجود ہے جس میں ملزمان کوفوجی تحویل میں دیاگیا، یہ زبانی ہوایاتحریری ہوجس کوہم دیکھ سکیں، جس حکم کے تحت تحویل دی گئی اور کیسز منتقل ہوئے اس حکم کودیکھناہوگا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل7رکنی آئینی بینچ نے 9مئی 2023واقعہ کے سول ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ کے فیصلہ کے خلاف دائر 37انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ اپیلیں شہداء فائونڈیشن بلوچستان، وفاقی حکومت ، پنجاب حکومت اوردیگر کی جانب سے دائرکی گئی ہیں۔ درخواستوں میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ،بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن، کرامت علی، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن آف پاکستان، زمان خان وردگ، جنید رزاق اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔سماعت کے آغاز پر سابق چیف جسٹس جوادخواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے پیش ہوکربتایا کہ جواد خواجہ نے درخواست دائر کی ہے کہ 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کے فیصلہ تک فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کاکیس نہ سنا جائے اور اپیلوں پر سماعت ملتوی کی جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ احمد حسین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیاآپ اس عدالتی کے دائرہاختیارکوتسلیم کرتے ہیں اگرتسلیم نہیں کرتے تو پھرآپ کو پیش نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ یہ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت بنا ہے، اپیل سننے والے پہلے 6ججز بینچ میں موجود ہیں صرف ایک رکن نیا ہے، اگرہم کیس کی سماعت نہ کریں توکہاں کس کے پاس کیس چلائیں گے۔ خواجہ احمدحسین نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے بینچ تشکیل دیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم فیلڈ میں ہے کہ نہیں۔ اس پر وکیل خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ فیلڈ میںہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ درخواست ہرمرتبہ ایک جیسی باتیں کرتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے منظورکی ہے۔ خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم کے خلافدرخواستیں منظورہوتی ہیں تو یہ فیصلہ کالعدم ہوجائے گا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا26ویں آئینی ترمیم کے خلاف فیصلہ آپ نے لکھا ہے اورآپ کوپتہ ہے کہ درخواستیں منظور ہوں گئیں، 26ویں آئینی کے حوالہ سے فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ میں سے کوئی قید میں نہیں اس لئے یہ باتیں کررہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیافوجی تحویل میں موجود لوگوں نے کہا ہے کہ 26ویں ترمیم کوچیلنج کریں آپ تاخیر کررہے ہیں اور ہرمرتبہ ایسی درخواستیں دائر کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ احمد حسین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ درخواست گزارنہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر26ویں آئینی ترمیم آئین کے مینڈیٹ کے مطابق نہ ہوتوپھر کیا ہوگا، کیا فیصلہ آئین کے تحت ریورس ہوجائے گا، یہ سپریم کورٹ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھی فیصلہ آئے تونمٹائے گئے اورفیصلہ کئے گئے معاملہ کوتحفظ حاصل ہو گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا چیف جسٹس کوتسلیم کرتے ہیں کہ نہیں، کیا 26ویں آئینی ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کام کررہی ہے کہ نہیں، چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ 26ویں آئینی ترمیم کے اندرہوگی یاباہرہوگی۔ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فل کورٹ یاکمیٹی فیصلہ کرے گی۔ جسٹس مسرت ہلالی نے خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اس خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ درخواست جوادایس خواجہ کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جو قید میں ہیں کیا وہ تاخیر چاہتے ہیں، کیااُن سے ہدایات لی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاعدالت میں موجودسینئر صحافی حفیظ اللہ خان نیازی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کابیٹاحسان خان نیازی قید میں ہے کیاآپ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں۔اس پر حفیظ اللہ نیازی کاکہنا تھا کہ وہ کیس چلانا چاہتے ہیں۔اس پرجسٹس جمال خان مندوخیل نے انہیں ہدایت کہ وہ بیٹھ جائیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ جوقید میں ہیں ان کاسوچیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے بینچ کے دیگر ارکان سے مشورہ کے بعد سابق چیف جسٹس جوادایس خواجہ کی درخواست 20ہزارروپے جرمانے کے ساتھ خارج کردی۔اس کے بعد وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے دلائل کاآغاز کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جتنے لوگ گرفتارہوئے ان کاچالان انسداددہشت گردی عدالتوں میں پیش ہوا یا فوجی عدالتوں میں، کس نے فیصلہ کیا کہ یہ معاملہ فوجی عدالتوں میںجائے گا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کس الزام کے تحت ایف آئی آر کاٹی گئی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ نمونے کے طور پرکوئی ایف آئی آربھی دکھادیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ سویلینز کاٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا توپھر دوسرے پہلو میں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کون شکایت کرتا ہے اورکون ایف آئی آردرج کرتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ 9مئی کو فوجیوں اور فوجی تنصیبات پرحملے ہوئے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کون سی تنصیبات تھیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کورکمانڈر ہائوس کیا فوجی تنصیبات میں آتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ یہ آفس کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ فوج کی تحویل میں موجود 85ملزمان کے خلاف کس قسم کاموادموجود ہے۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اُن کے حوالہ سے ریکارڈنگز موجود ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آئینی درخواست کہتی ہے کہ کسی بھی سویلین کافوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کوفوجی تحویل میں دینے کافیصلہ کیا، صرف ایک ملزم کے علاوہ اس فیصلے کے خلاف کوئی عدالت نہیں گیا۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ سول عدالت میں اپیل کرنی چاہیئے تھی کہ تحویل غیرقانونی ہے تاہم کوئی نہیں گیا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ہرملزم کے خلاف مختلف موادموجود ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ انسداددہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہوئے اور متعلقہ فوجی حکام کی درخواست پر ملزمان کو فوج کی تحویل میں دیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پہلے قانون پر بات کرلیں پھر حقائق پر جائیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جسٹس منیب اخترنے اکثریتی فیصلہ لکھا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جج کانام نہ لیں توبہترہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس منیب اخترکے نقطہ نظر میں فرق ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ سویلینز اور مسلح افواج کے اہلکاروں کے درمیان تفریق مصنوعی ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ بنیادی حقوق کے معاملہ میں سویلینز کالفظ نہیں ملے گا، جسٹس منیب اخترنے تسلیم کیا کہ اس امتیاز پر قانون کو کالعدم قرارنہیں دیا جاسکتا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا یہ بات غلط ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مسلح افواج میں ایسے سویلینز ہیں جو آرڈیننس فیکٹریز یا ورکشاپس میں کام کرتے ہیں دوسرا میں اورآپ ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جو شخص فوجی اہلکاروں کو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اوراپنی ذمہ داریاں ادانہ کرنے کے حوالہ سے بہکاتا ہے اُس کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے دائرہ اختیار وسیع کردیا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ اگرسویلینز جرم کریں گے توپھر بھی ان کافوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوگا۔خواجہ حارث کاکہناتھا کہ اگر کورکمانڈرہائوس پر حملہ کیا جاتا ہے تواس سے فوجی حکام کے کام میں مداخلت کی جاتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کورکمانڈر روزانہ کورکمانڈر ہائوس جاتا ہے اور کام کرتا ہے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ انسداددہشت گردی عدالت کاکوئی تحریری حکم موجود ہے جس میں ملزمان کوفوجی تحویل میں دیاگیا، یہ زبانی ہوایاتحریری ہوجس کوہم دیکھ سکیں، جس حکم کے تحت تحویل دی گئی اور کیسز منتقل ہوئے اس حکم کودیکھناہوگا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کسی فوجی اہلکار کوبہکاتا ہے یا بہکانے کی کوشش کرتاہے اس کے خلاف فوجی عدالت میں ٹرائل ہوگا۔ اس دوران مدعا علیہان کے وکیل سلمان اکرم راجہ روسٹرم پر آئے تاہم جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ درخواست گزارکے وکیل کودلائل دینے کاحق ہے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ ہمیں بھی جسٹس منیب اخترکے فیصلہ کے کچھ حصوں پراعتراض ہے جس کے حوالہ وہ دلائل دیں گے۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 2-1(d)میں سویلینز بھی شامل ہیں، مسلح افواج کے ارکان بھی سویلینز ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جو مسلح افواج کے اہلکاروں کو بہکائے گااس کاٹرائل تعزیرات پاکستان کے تحت ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہرنے کہا  کہ ہمارے سامنے تو9مئی کاکیس ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے ہم قانون کوسمجھیں گے اس کے بعد فیصلے پرآئیں گے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کاٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت میں چلایا فوجی عدالت میں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ترمیم کے بعد فوجی عدالت میں چلاتھا۔جسٹس محمد علی مظہر کاخواجہ حارث کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوئی قائدہ بنا کرلے آئین اور ترتیب سے ایک،ایک کرکے دلائل دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ایکارڈ پرایف آئی آرموجود نہیں۔ اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا سید کوثر علی شاہ نے پیش ہوکربتایا کہ 9مئی کے 269ملزمان خیبرپختونخوا میں بری ہوچکے ہیں۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ سارے توبری نہیں ہوئے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم کل تک سماعت ملتوی کررہے ہیں۔ اس موقع پر حفیظ اللہ نیازی نے بات کرنے کی اجازت طلب کی۔ جسٹس مسرت ہلالی کاحفیظ اللہ نیازی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بات کریں اور بتائیں آپ کی اپنے بیٹے سے ملاقات ہورہی ہے کہ نہیں ۔اس پر حفیظ اللہ نیازی کاکہنا تھا کہ ملاقات ہورہی ہے۔ حفیظ اللہ نیازی کاکہنا تھا کہ میں ایک سائل کی حیثیت سے پیش ہورہا ہوں، میرا بیٹا ڈیڑھ سال سے جوڈیشل ریمانڈ پر فوج کی تحویل میں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار اوروکلاء کیس ختم کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ حفیظ اللہ نیازی کاکہنا تھا کہ ہم 13دسمبر 2023کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے یرغمالی ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اسی لئے روزانہ کی بنیاد پرسماعت ہورہی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ چند دن میں فیصلہ کرنا ہے۔ اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے عدالت سے استدعا کی فوجی عدالتوں کوفیصلے کرنے کی اجازت دے دیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم نے میرٹ پر کیس سننا شروع کردیا ہے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے جلد فیصلہ کریں گے۔بینچ نے فوجی عدالتوں کوکیسز کافیصلہ سنانے کی اجازت دینے استدعا مستردکردی۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اگر فیصلے کااعلان کردیا توپھر دائرہ اختیار کافیصلہ ہو گیا جو کہ غلط بات ہے۔ حفیظ اللہ نیازی کی جانب سے مسلسل بولنے پر جسٹس امین الدین خان نے انہیںمخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ خاموش ہوں گے کہ نہیںیاآپ نے ہی بولنا ہے۔ آئینی بینچ نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کیس پہلے نمبر پر سنا جائے گا۔ ZS
#/S