مدارس بل پر حکومت سب سے بڑی رکاوٹ ہے،مولانا فضل الرحمن
اتفاق رائے ہو چکا تو پھر اعتراضات کیوں،گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے،اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے
 راز آج کھلا کہ ہماری قانون سازی کسی اور کی مرضی کے مطابق ہو گی، کہہ دیا جائے ہم آزاد نہیں ، غلام ہیں، قومی اسمبلی میں اظہارخیال

اسلام آباد ( ویب  نیوز)

سربراہ جمعیت علما اسلام (ف)مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ مدارس بل پر حکومت سب سے بڑی رکاوٹ ہے،کیا آئی ایم ایف کی ہدایات پر ہماری قانون سازی ہوگی؟ اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے، اتفاق رائے ہو چکا تو پھر اعتراضات کیوں، یہ راز آج کھلا کہ ہماری قانون سازی کسی اور کی مرضی کے مطابق ہو گی، کہہ دیا جائے ہم آزاد نہیں ہیں، غلام ہیں، بانی پی ٹی آئی کے حق میں قرارداد اگر امریکہ میں پاس ہوجائے تو اندرونی مداخلت ہے تو اس معاملے پر کیوں نہیں ہے ۔ ان خیالات کا اظہار سربراہ جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمن نے  قومی اسمبلی  میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی بل ایکٹ بن چکا، گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے، 26 ویں آئینی ترمیم اتفاق رائے سے منظور ہوئی، کوشش ہے تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل کریں، دینی مدارس کے مالیاتی ڈھانچے پر بات کی گئی، وہ ایک اتفاق رائے کے ساتھ تھا،اپوزیشن پارٹی نے لاتعلقی ظاہر کی، تمام پارٹیاں حکومتی ،اپوزیشن بینچز پر آن بورڈ تھیں،سیاست میں مذاکرات ہوتے ہیں، دونوں فریق ایک دوسرے کو دلائل سے سمجھاتے ہیں اور مسئلہ حل تک پہنچ جاتا ہے، دینی مدارس کے حوالے سے ایک بل بھی تھا، ایک تاریخ ایوان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، 2004 میں حکومت اور دینی مدارس کے درمیان مذاکرات ہوئے، حکومت نے اس وقت مدارس کے حوالے سے تین سوال اٹھائے، مالیاتی نظام،دینی مدارس کا نصاب تعلیم اور تیسرا دینی مدارس کا تنظیمی ڈھانچہ کیا ہوتا ہے، تینوں سوالوں پر مذاکرات کے بعد حکومت مطمئن ہوگئی، کہا گیا دینی مدارس محتاط رہیں گے،شدت پیدا کرنیوالا مواد نہ شائع کیا جائے، 2010 میں ایک پھر معاہدہ ہوا، ہمارے نزدیک معاملات طے تھے، پھر اٹھارہویں ترمیم پاس ہوئی تو خود حکومت نے سوال اٹھایا، حکومت نے کہا مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں، یہ ایسا تھا جیسے ایک ڈاکخانہ تبدیل کررہے ہیں دوسرے سے، بعد میں ایک ایجوکیشن بورڈ بنا جس کے تحت 12مراکز بنائے گئے،نئے مدارس کی رجسٹریشن کے لئے حکومت تعاون کرے گی، مدارس کے حوالے سے ایکٹ بن چکا ہے، ایاز صادق سپیکر نے ایک انٹرویو میں الفاظ استعمال کئے یہ ایکٹ بن چکا ہے، یہ باتیں کرنا کہ وہ بھی تو مدارس ہیں ،تھوڑی سی تبدیلی کر دی جائے، گنجائش نکالی جائے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، بحث اس پر ہے کہ ایکٹ بن چکا، گزٹ نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا، ہم نے ترمیم پر گفتگو کی،ایک ایسی غلط نظیر قائم کریں گے ،آپ جس سے آنے والے ہر ایوان کے لئے مشکل ہو گی، ایوان کا استحقاق مجروح نہ کیا جائے، دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے بھی درست نہیں ، تاویلیں نہیں چلیں گی، ہم بھی اسی مدرسہ سے پڑھے ہوئے، اس ہائوس میں 40 سال گزارے، میں قانون کا طالب علم ہو، عدالت قانون کے مطابق فیصلے دیتی ہے اس قانون کے مطابق جو ہم یہاں سے بنا کر بھیجتے، ہم قانون ساز ہیں، اس حوالہ سے ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے، یہ متفقہ چیز ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ 26 ویں ترمیم پر ایک ماہ بحث ہوتی رہی، پہلے ابتدائی ڈرافٹ، مذاکرات کے ذریعے حکومت 34 شقوں سے دستبردار ہوئی،22 پر آئی، پھر ہم نے پانچ شقیں اور شامل کیں، میں کراچی بھی گیا، بلاول ہائوس گیا، لاہور آئے، نواز شریف کے گھر پانچ گھنٹے بیٹھے رہے، مدارس بل پر اتفاق رائے پایا گیا، میں نے پی ٹی آئی کے دوستوں کو اعتماد میں لیا، پارلیمنٹ کے کسی ایک رکن بھی اس سے غافل نہیں رکھا، اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے، اتفاق رائے ہو چکا تو پھر اعتراضات کیوں، یہ راز آج کھلا کہ ہماری قانون سازی کسی اور کی مرضی کے مطابق ہو گی، کہہ دیا جائے ہم آزاد نہیں ہیں، غلام ہیں، یہ افسوسناک بات ہے، اگر امریکہ کے کانگریس میں کوئی رکن قرارداد پیش کرتا ہے وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے تو آپ یہاں قرار داد پیش کرتے ہیں کہ امریکہ کو دخل اندازی کا حق نہیں کیا ،یہ دخل صرف بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے، باقیوں کے ساتھ نہیں، آئی ایم ایف ناراض ہو جائے گا، فلاں ناراض ہو جائے گا یہ تاویلات کیسے قبول کریں، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کسی تلخی کی طرف نہ جائیں کیونکہ پاکستان اس کا متحمل نظر نہیں آ رہا، دینی جماعتیں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں،دینی مدارس نے ثابت کر دکھا یا ہے کہ ہم پاکستان، آئین،جمہوریت، قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، پھر کس بات کا امتحان لیا جا رہا ہے، کس کو تکلیف ہے کہ ملک میں مذہب کی تعلیم کیوں ہے، یہ بات آج سے نہیں بہت پرانی ہے،مدارس بل پر حکومت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔