سلمان رشدی فتنے نے پھر سر اٹھا لیا، متنازع کتاب بھارت میں دوبارہ فروخت ہونے لگی
 ایسی کسی بھی کتاب کی حمایت نہیں کی جا سکتی جس میں مذہبی شخصیات کی توہین کی گئی ہو،جماعت اسلامی ہند

نئی دہلی (ویب  نیوز)

بھارت میں متنازع مصنف ملعون سلمان رشدی کی کتاب دی سیٹانک ورسز پھر سے فروخت ہونے لگی۔امریکی نشریاتی  ادارے کے مطابق یہ متنازع کتاب دہلی کے باہری سنز بک سیلرز کی جانب سے 1999 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے۔ دکان کی مالک رجنی ملہوترہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انہیں چند روز قبل یہ کتاب ملی ہے اور اس کی فروخت اچھی جا رہی ہے۔دریں اثنا آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علما ہند سمیت متعدد مسلم مذہبی جماعتوں نے اس حوالے سے حکومت سے مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔اس کتاب پر 5 اکتوبر 1988 کو بھارت کی اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت نے پابندی لگائی تھی جسے ایک قاری سندیپن خان نے دہلی ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے سماعت کے دوران انتظامیہ سے پابندی کے نوٹیفکیشن کی نقل طلب کی جسے پیش کرنے میں انتظامیہ ناکام رہی تھی۔اس پر عدالت نے کہا تھا کہ اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ نوٹی فکیشن کی کوئی کاپی موجود نہیں ہے۔ عدالت کے ان ریمارکس کو پابندی اٹھانے سے تعبیر کیا گیا۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس کا امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن کی کاپی کے نہ ملنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک حکومت پابندی اٹھا لینے کا اعلان نہیں کرتی، پابندی برقرار ہے۔ان کے مطابق کسی ایسی کتاب کی فروخت جس پر پابندی لگی ہو، غیر قانونی ہے لہذا اسے بیچنے والوں کو گرفتار کیا جائے اور پابندی برقرار رکھی جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف بھارتی مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ کتاب میں پیغمبرِ اسلام کی اہانت کی گئی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس کی مذمت کی تھی اور سلمان رشدی کے خلاف فتوی صادر کیا گیا تھا۔جماعتِ اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے گفتگو میں کہا کہ ایسی کسی بھی کتاب کی حمایت نہیں کی جا سکتی جس میں مذہبی شخصیات کی توہین کی گئی ہو۔ان کے بقول کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادی اظہار کے نام پر اشتعال انگیزی اور مذہبی شخصیات کی اہانت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب یہ کتاب منظرِ عام پر آئی تھی تو بھارت سمیت پوری دنیا میں اس کے خلاف شدید احتجاج ہوا تھا اور بہت سے لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑی تھیں۔اس کتاب کے خلاف بھارت سمیت پوری دنیا میں پرتشدد احتجاج ہوا تھا۔ ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خمینی نے اپنی وفات سے چند ماہ قبل رشدی کے خلاف سزائے موت کا فتوی جاری کیا تھا۔تہران میں برطانوی سفارت خانے پر پتھراو بھی کیا گیا اور رشدی کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان کیا گیا۔ اس کتاب پر 20 ملکوں نے پابندی لگائی تھی۔اس کے بعد سلمان رشدی روپوش ہو گئے تھے۔ وہ سنہ 1991 میں منظر عام پر آئے لیکن اس کتاب کے جاپانی مترجم کو اسی سال ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے چند روز بعد ایک اطالوی مترجم کو چاقو مارا گیا اور 2 سال بعد کتاب کے ناروے کے پبلیشر کو گولی مار دی گئی۔اگست 2022 میں سلمان رشدی جب نیو یارک میں ایک پروگرام میں شریک ہوئے تو اسٹیج پر ہی ان کو چاقو مارا گیا۔ جس کے نتیجے میں ان کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی اور ایک ہاتھ ناکارہ ہو گیا تھا۔سلمان رشدی کی جائے پیدائش ممبئی میں کتاب کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں ہونے والے فساد میں 12 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔