غزہ ،ننھا بچہ شدید سردی کے باعث دم توڑ گیا،6دنوں میں ہائپو تھرمیا سے مرنے والے بچوں کی تعداد 5ہوگئی
روزانہ بچوں میں ہائپوتھرمیا کے اوسطاً 5 سے 6 کیسز دیکھ رہے ہیں،ڈاکٹر احمد الفرا
غزہ (ویب نیوز)
غزہ میں ایک 20دن کا بچہ شدید سردی کے باعث دم توڑ گیا۔ اس طرح اسرائیل کے محصور فلسطینی انکلیو میں 6دنوں میں ہائپوتھرمیا سے مرنے والے بچوں کی تعداد 5 ہوگئی۔ غزہ کی وزارت صحت نے ایک بیان میں کہا کہ جمعہ البطران اتوار کو انتقال کرگیا جبکہ اس کا جڑواں بھائی علی الاقصی شہدا اسپتال میں انتہائی نگہداشت میں ہے۔ جمعہ کے والد یحیی البطران نے کہا کہ اتوار کو جب وہ بیدار ہوا تو اس کا بیٹا سر کے ساتھ برف کی طرح ٹھنڈا بے حس و حرکت پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جڑواں بچوں کی پیدائش ایک ماہ قبل ہوئی تھی اور انہوں نے دیر البلاح کے اسپتال کی نرسری میں صرف ایک دن گزارا جو کہ غزہ کے دیگر مراکز صحت کی طرح اسرائیل کی بربریت کے باعث خالی کرالیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں نے ان کی والدہ سے کہا کہ وہ نومولود کو گرم رکھیں لیکن یہ ناممکن تھا کیونکہ وہ خیمے میں رہتے ہیں اور رات کے وقت درجہ حرارت باقاعدگی سے 10ڈگری سے بھی نیچے گر جاتا ہے۔ یحییٰ نے کہا کہ ہم 8 لوگ ہیں اور ہمارے پاس صرف 4 کمبل ہیں۔ انہوں نے شبنم کے قطروں کو رات بھر خیمے ٹپکنے کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے اپنے پیلے پڑچکے مردہ بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سردی کی وجہ سے اس کا رنگ دیکھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کیسے منجمد ہوچکا ہے؟مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسایحییٰ کا خاندان وسطی غزہ کے شہر دیر البلاح میں ایک بوسیدہ خیمے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی نہیں ہے اور پانی بھی بے حد ٹھنڈا ہے جبکہ کوئی گیس، ہیٹر اور کھانا تک نہیں ہے۔ انہوں نے بے بسی کے عالم میں بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ میرے بچے میری آنکھوں کے سامنے مر رہے ہیں، اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعہ تو فوت ہوگیا اب کہیں اس کے جڑواں بھائی علی کا حال بھی ویسا ہی نہ ہوجائے۔ مذکورہ بستی میں بچے، جن میں سے کچھ ننگے پاں تھے، باہر کھڑے ہو کر یحیی کو ماتم کرتے دیکھ رہے تھے۔ کفن پوش بچے کو ایک امام کے قدموں میں لٹا دیا گیا جو ان کے جوتوں سے بمشکل بڑا تھا۔ نماز کے بعد امام نے اپنا ٹخنے تک کا کوٹ اتار کر والد کے گرد لپیٹ دیا۔ وہ علاقہ جہاں البطران خاندان پناہ گزین ہے سمندر کے بہت قریب ہے اور بہت تیز ہوا چلتی ہے۔ وہاں کوئی باقائدہ خیمے نہیں ہیں اور جمعہ کے والدین اپنے بچوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ فلسطینی بچے نہ صرف فضائی حملوں اور بموں سے مر رہے ہیں بلکہ غذائی قلت اور ہائپوتھرمیا سے بھی ان کی جانیں جا رہی ہیں۔ اسرائیلی فورسز نے غزہ کے تقریبا 23 لاکھ باشندوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ ان میں سے لاکھوں افراد جنوبی غزہ میں بارش اور آندھی کے ساحل کے ساتھ غیر موزوں خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ 5 فلسطینی بچوں میں سے 3 جو اپنی پیدائش کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں سردی سے فریز ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے المواسی کے کے علاقے میں رہتے تھے۔ غزہ کے فیلڈ اسپتالوں کے سربراہ مروان الحماس نے جمعہ کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اب حالیہ دنوں میں سخت سردی کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد 5 ہو گئی ہے۔خان یونس میں التحریر میٹرنٹی اسپتال کے ایک ڈاکٹر احمد الفرا نے کہا کہ وہ روزانہ بچوں میں ہائپوتھرمیا کے اوسطاً 5 سے 6 کیسز دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ان خیموں کا دورہ کیا جہاں یہ شیر خوار بچے رہ رہے ہیں اور میں نے وہاں کی جو حالت دیکھی وہ انتہائی افسوسناک ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کے باشندوں نے بجلی، پینے کے پانی، خوراک اور طبی خدمات کی شدید قلت کا سامنا کیا ہے کیونکہ وہ اپنے گھروں سے زبردستی نکالے گئے ہیں اور بے گھر ہونے کے علاوہ بے یارومددگار بھی ہیں جبکہ اب موسم کی شدت بھی ان کے خلاف اسرائیلی عزائم کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ غزہ میں 3 فلسطینی بچے ہائپوتھرمیا کی وجہ سے جان کی بازی ہاررہے ہیں کیونکہ درجہ حرارت میں کمی اور خوراک، پانی اور سردیوں کے ضروری سامان پر اسرائیل کی ناکہ بندی جاری ہے جبکہ اسپتال بھی تباہ یا بند کرادئیے گئے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی میں کم از کم 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ شہدا اور زخمیوں میں بچوں اور خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شامل ہے۔