سپریم کورٹ میں بینچز اختیارات کیس کی سماعت مکمل ، فیصلہ محفوظ
 بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، ججز کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں لیکن دیں گے نہیں،جسٹس سید منصور علی شاہ

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ نے بینچز اختیارات کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیاجو کہ بعد میں سنایا جائے گا۔ جبکہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، ججز کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں لیکن دیں گے نہیں۔ہمیں سوال سننے کی بھی اجازت نہیں کہ آپ ہاتھ بھی نہیں لگاسکتے، آپ سوال نہیں سن سکتے یہ توطریقہ کارنہیں، یہ عدالتی اختیارات کے ساتھ ٹیمپرنگ ہوگی۔ کمیٹی کیس واپس لینے کافیصلہ کرے گی توپھر عدلیہ کی آزادی توختم ہوگئی۔ کیس خود ہی لگا ہم نے نہیں لگایا، بینچ ہی ختم کرے گا، کیا کمیٹی فیصلہ کرے گی کیس واپس لے لیا جائے۔ ہمارے پاس بطور آزاد ججز سوال کرنے اورسمجھنے کااختیار ہے، بڑابینچ نظرثانی کردے۔ جو کیس ہم سن سکتے ہیں وہ اگر کمیٹی واپس لے کر دوسری جگہ بھیج دے توہم کیا کریں، کمیٹی کواختیاردیں گے تو وہ ایسا کیس بھی واپس لئے سکتی ہے جوہم سن سکتے ہیں۔ ہم توکیس سن رہے تھے کہ سن سکتے ہیں کہ نہیں اس دوران کیا کمیٹی کہہ سکتی ہے کہ ہم دوسرے بینچ کو بھیج دیتے ہیں، اگر کیس بینچ کے سامنے سے ہٹادیں گے پھر عدلیہ کی آزادی کمیٹی کے پاس چلی گئی۔ کیس خود بینچ میں آگیا، بینچ نے دیکھنا چاہا کہ ہم سن سکتے ہیں کہ نہیں، کمیٹی نے کہا کہ ہٹ جائیں، بینچ کونوٹ بھیج دیتے کہ آپ کااختیار نہیں ہوسکتا ہے کہ ہم خودہی کیس آئینی بینچ کوبھیج دیتے اورکہتے کہ ہمارااختیار نہیں۔ سپریم کورٹ میں 40،50ہزارکیسز ہیں کس نے فیصلہ کرنا ہے کہ کہاں سماعت کے لئے مقررہونے ہیں۔ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی، کیا جوڈیشل آرڈر کے زریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے ججز کمیٹی کو بجھوایا جا سکتا ہے۔ ہم ادارے کو بچانے کے چکر میں ہیں۔ہم جن لوگوں کوججز تعینات کرنے کے لئے نامزد کرتے ہیں انہیں ہمارااپنا ہی ایک ووٹ ملتا ہے۔ جبکہ عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ بادی النظر میں فل کورٹ بنانے کااختیار چیف جسٹس آف پاکستان کے پا س ہے، ججز کمیٹیوں کو نہیں ہے، کیا توہین عدالت کی کاروائی کے دوران چیف جسٹس کوفل کورٹ بنانے کی استدعا کرسکتے ہیں۔ جوڈیشل آرڈر عدالتی حکم سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔عدالتی معاونین کی رائے غیر جانبدارانہ ہی ہوتی ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ کمیٹی کے پاس کیس واپس لینے کااختیار نہیں۔لوگ یہ نہ کہیں کہ سپریم کورٹ اپنی حدود سے تجاوز کررہی ہے،ہم اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہتے۔ سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پرجسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 2رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت عدالتی معاونین سینیٹر حامد خان، خواجہ حارث احمد، چوہدری محمد احسن بھون اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے۔ جبکہ عہدے سے ہٹائے گئے ایڈیشنل رجسٹرار (جوڈیشل)نذر عباس نے پیش ہوکرجواب جمع کروایا۔ اپنے جواب میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے مقف اپنایا کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی آرڈر پر بنچ بنانے کے معاملہ پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوادیا تھا۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی۔اس پر حامد خان نے کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ، ایسا نہیں ہو سکتا۔جسٹس سید منصور علی شاہ  بولے کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کریں تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت دیں۔جسٹس عقیل احمد عباسی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن تو ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی، کیا جوڈیشل آرڈر کے زریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے ججز کمیٹی کو بجھوایا جا سکتا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ریگولر ججز کمیٹی کے ایکٹ کا سیکشن 2اے آرٹیکل 191 اے سے ہم آہنگ نہیں ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کر سکتی، میں آرٹیکل 191 اے کی مثال دینا چاہتا ہوں۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ا سکا اختیار موجودہ کیس سے الگ ہے، یہ سوالات 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہیں۔اس پر حامد خان نے مئوقف اپنایا کہ آرٹیکل 191اے میں آئینی بنچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بنچ کا زکر نہیں ہے، کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ایک آئینی بنچ ہو سکتا ہے۔انہوں نے اسدلال کیا کہ اس صورتحال میں تین آئینی بنچز بن سکتے ہیں جو ان میں سینئر ہوگا وہی سربراہ ہوگا، آرٹیکل 191اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون حامد خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔ کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا، سماعت ساڑھے 11 بجے دوبارہ شروع ہوئی۔دوران سماعت عدالت میں قہقہے لگ گئے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ اور احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔احسن بھون  نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں۔ا س پر احسن بھون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو11،11 ووٹ پڑ جاتے ہیں،  یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔احسن بھون کاکہنا تھا کہ میں 12بجے آکردلائل دوں گاہمارا پاکستان بار کونسل کا11بجے اجلاس ہے۔ اس پر جسٹس سید منصورعلی شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کوئی ہدایات تونہیں لینی۔ احسن بھون نے کہا کہ  ماضی میں کچھ فیصلے ہوئے۔ جسٹس منصور شاہ  نے ریمارکس دیے کہ ماضی کیا حالیہ مخصوص نشتوں کا فیصلہ ابھی پڑا ہے، ماضی میں اتنا نہ جائیں، آپ ہمارے یونیورسٹی کے دوست بھی ہے۔احسن بھون نے کہا کہ ماضی میں تشریح کے نام پر آئینی آرٹیکل کو غیر موثر کیا گیا۔ا پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آجکل تو ایسا کچھ نہیں ہوا، حال میں تو سب ٹھیک ہے۔احسن بھون کا کہنا تھا کہ حال تو مائی لارڈ اب لکھیں گے، ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔جسٹس منصور شاہ  نے ریمارکس دیے کہ ہم تو آئینی بینچ میں نہیں ہیں، ہم نے کیا کرنا ہے، ہم تو ویسے ہی گپ شپ کر رہے ہیں۔اس پر احسن بھون نے کہا کہ اس لیے ہم چاہتے تھے کہ آئینی عدالت بنے۔جسٹس منصور شاہ  نے کہا کہ تھوڑا دھکا اور لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے۔اس پر احسن بھون نے کہا کہ دھکا تو ہم نے لگایا تھا۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آرٹیکل 191اے کا جائزہ لینا تھا، جائزہ کے دوران کیس بینچ سے واپس لے لیا گیا۔احسن بھون نے کہا کہ مجھے گزارش تو کرنے دیں، بینچ پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے بنایا تھا۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اصل میں ساری شرارت ہمارے آرڈر کی ہے، ویسے تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔جسٹس منصور شاہ  نے ریمارکس دیے کہ کیا دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ ایگزیکٹو بینچ بنائے۔ احسن بھون نے مئوقف اپنایا کہ یہ قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے، جب تک آئین میں شامل ہے تو وہ دستور کا حصہ ہے۔جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ کیا ہم آرٹیکل 191 اے کا جائزہ بھی نہیں لے سکتے۔اس پر احسن بھون نے کہا کہ آپ جائزہ نہیں کیس کو آئینی بینچ کو ریفر کرینگے۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ تو 26 آئینی ترمیم کے زریعے بنا،  کیا چلتا کیس کمیٹی واپس لے سکتی ہے۔احسن بھون نے کہا کہ یہ آئینی منشا ہے۔اس پر جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ اگر ہم آرڈر کرتے تو غیر آئینی ہوتا، جوڈیشل آرڈر عدالتی حکم سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔احسن بھون نے کہا کہ اگر معاملہ آئینی و قانونی حیثیت کا ہو تو کمیٹی آئینی بینچ کو بھیج سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپکو آج ہی سنیں گے، کوشش کریں گے آج ہی سماعت مکمل ہو جائے۔عدالتی معاون خواجہ حارث احمد نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ جس عدالتی بنچ نے ابتدا میں سوالات فریم کیے اسی بینچ کو یہ کیس سننا چاہیے تھا، آرٹیکل 191اے آئین کا حصہ ہے جسے کسی جوڈیشل فورم نے کالعدم قرار نہیں دیا گیا، اگر ریگولر بینچ کے سامنے کوئی آئینی نقطہ آیا تھا تو اسے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ اگر آپکا پچھلا عدالتی بنچ آئینی سوالات پر فیصلہ دیتا تو وہ فیصلہ ہی خلاف قانون ہوتا، یہ معاملہ عدالتی بنچ کو ججز انتظامی کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا ہی ایک واقعہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کیساتھ بھی پیش آیا، ایک جوڈیشل آرڈر پر رجسٹرار آفس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا تھا، جوڈیشل آرڈر کے باوجود انتظامی کمیٹی نے کیس ہی لے لیا، ایسے میں تو عدلیہ کی آزادی انتظامی کمیٹی کے ہاتھ چلی جائے گی، ہمارا اختیار سماعت تھا یا نہیں، اس پر فیصلہ تو ہوا ہی نہیں، شاہد ہم بھی یہ کہہ دیتے، ہمارا اختیار نہیں ہے۔عدالتی معاون خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ سول اورکریمنل کیسز میں آئینی سوالات ریگولر بنچ دیکھ سکتا ہے، آرٹیکل 185 تین پر مگر دائرہ اختیار کا معاملہ آجاتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی ہم نے 63 اے کا ایک کیس تھا اس میں ریگولر بنچ میں فیصلہ دیا، یہاں کیس ہم سے واپس لیکر کمیٹی نے آئینی بنچ میں لگا دیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ڈائریکٹ کیس آئینی بنچ میں نہیں لگا سکتی، آئینی بنچ میں کیس آئینی کمیٹی ہی لگا سکتی ہے، اگر سادہ کمیٹی نے ایسا کیا تو غلط کیا ہے، مجھے پتہ چلا کہ جو بنچ پہلے کیس سن رہا تھا وہ اگلے ہفتے کیلئے بنچ شیڈیول میں نہیں تھا، ایسی صورتحال میں کمیٹی کیس کسی اور بنچ میں لگا دینے کی مجاز ہے، کمیٹی کا کیس واپس لینا اس کے آئینی مینڈیٹ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے، اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے۔خواجہ حارث پریکٹس اینڈ پروسیجر آج بھی ایک نافذ العمل قانون ہے، سپریم کورٹ کا بنچ قانون کے مطابق ہی کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے درست ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے؟ اگر ہمارا16 جنوری کا آرڈر غلط ہے تو کیا وہ جوڈیشل فورم پر ہی چیلنج نہیں ہو گا؟ خواجہ حارث نے کاہ کہ یہاں آپ کی بات درست ہے مگر میں اس کو صرف الگ تناظر میم دیکھ رہا ہوں۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا آئین میں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو ماننا لازم ہے؟ کیا سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹی پر یہ آئینی شق لاگو نہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئینی بنچ نان جوڈیشل فورم کے زریعے بنائے گئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اس لیے درست قرار دیا کہ عدلیہ بنچ بنائے گی۔خواجہ حارث نے کہا کہ آئین میں درج ہے کہ آئینی بنچ کیسے بنایا جائے گا، دو رکنی ریگولر بنچ توہین عدالت کیس میں فل کورٹ نہیں بنا سکتی، عدالتی بنچز کی تشکیل کیلئے دو کمیٹیاں ہیں۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپکی بات درست ہے، ہمارا اختلاف نہیں، بنچز کمیٹیاں ہی بناتی ہیں، لیکن بادی النظر میں فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس پاکستان کو ہے، ججز کمیٹیوں کو نہیں ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت چیف جسٹس پاکستان سے فل کورٹ کی گزارش کی جا سکتی ہے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا ہم توہین عدالت کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کیلئے چیف جسٹس سے گزارش کر سکتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ اس کے لیے سپریم کورٹ رولز دیکھنے ہونگے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کل کہیں لوگ یہ نہ کہیں سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے اور عدالتی معاون احسن بھون نے دوبارہ دلائل شروع کیے۔عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ جناب نے خود کئی کیسز آئینی بینچ کو ریفر کیے، احسن بھون نے جسٹس منصور سے مکالمہ کیا کہ کورم نان جورس پر جناب آپ کے خود کے فیصلے موجود ہیں، 26 ترمیم کے بعد تمام کیسز فوری طور پر آئینی بینچ کو منتقل ہونے تھے، آئین کا آرٹیکل 191 کا سیکشن پانچ بڑا واضع ہے، ایک مقدمہ آپ کے سامنے غلطی سے لگ گیا۔احسن بھون نے کہا کہ وکیل نے اختیار سماعت پر اعتراض اٹھایا، وکیل نے کہا کیس آئینی بینچ کو بھجوایاجائے، فل کورٹ کا آرڈر ہو تو شاید عمل نہ ہوتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کو پہلے سے پتہ تھا۔اس پر احسن بھون نے کہا کہ میں جناب کے حکم پر معاونت کرنے آیا ہوں۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سب سے بڑا فورم تو فل کورٹ ہے۔ احسن بھون نے کہا کہ فل کورٹ کا بھی طریقہ کار ہے، آپ معاملہ ججز کمیٹی کو غور کرنے کیلئے بھجوا دیں۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کمیٹی تو اپنا فیصلہ پہلے دے چکی ہے، کمیٹی نے تو کیس ہم سے واپس لے لیا۔احسن بھون نے کہا کہ فل کورٹ کیلئے جوڈیشل آرڈر نہیں کر سکتے، قانون کی ایک اسکیم دے دی گئی، اس کے مطابق چلنا ہوگا۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم ادارے کو بچانے کے چکر میں ہیں۔ احسن بھون نے کہا کہ بہت سارے ادارے کو تباہ کرنے پر تلے ہیں، یہاں ہر کوئی مرضی کی پارلیمنٹ، مرضی کے ججز چاہتا ہے۔جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ یہاں مرضی کے فیصلے بھی چاہتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ججز تو سارے آپ کے ہیں، ججز کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس دے  سکتے ہیں لیکن نہیں دیں گے۔اس موقع پر کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور عدالت عظمی نے بینچز اختیار سماعت سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ عدالتی معاونین کی جانب سے اس کیس میں انوکھے دلائل دیئے گئے، آپ سے روزانہ ہم سیکھتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لگتا ہے آپ نے ٹھیک سے سیکھا ہی نہیں، احسن بھون نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار آئین نے دیا ہے، جوڈیشل آرڈر کے زریعے فل کورٹ تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل شروع کیے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ نذر عباس نے تو اپنے جواب میں کہا مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے،  ہمیں کوئی شوق نہیں ہے توہین عدالت کا۔جسٹس عقیل عباسی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ بتائیں حل کیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی محدود ہوتی ہے،  اگر عدالت سے توہین عدالت کی کارروائی سے باہر نکلنا ہے تو معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بجھوایا جائے۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر فل سنے تو اس میں مسئلہ کیا ہے۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپکے پاس اختیار سماعت محدود ہے، عدالت کو یہ معاملہ کمیٹی کو بھیجنا چاہیے،  اگر عدالت آرٹیکل 184 یا اپیل سن رہی ہوتی تو الگ بات تھی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان صاحب کی مرضی ہے فل کورٹ بنائیں یا نہ بنائیں۔اس موقع پر کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور عدالت عظمی نے بینچز اختیار سماعت سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ عدالتی معاونین کی جانب سے اس کیس میں انوکھے دلائل دیئے گئے، آپ سے روزانہ ہم سیکھتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لگتا ہے آپ نے ٹھیک سے سیکھا ہی نہیں، احسن بھون نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار آئین نے دیا ہے، جوڈیشل آرڈر کے زریعے فل کورٹ تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔