جب توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی تو آرڈر کیسے دیا گیا،جسٹس جمال خان مندوخیل

ہر جج نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے۔دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز)

عہدے سے ہٹائے گئے ایڈیشنل رجسٹرار(جوڈیشل) سپریم کورٹ نذرعباس کو جاری شوکاز نوٹس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران 6رکنی لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی تو آرڈر کیسے دیا گیا، اس فیصلے میں تو مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیا گیا، کیا مبینہ طور پر توہین کرنے والے فل کورٹ تشکیل دیں گے۔ اس فیصلے میں جو کہا گیا کیا وہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ میں صرف پوچھ رہا ہوں، اگر ایک جج آئین کی خلاف ورزی کرے تو آئین اس بارے کیا کہتا ہے؟ ہر جج نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو فل کورٹ بنے گا کیا اس میں مبینہ توہین کرنے والے چار ججز بھی شامل ہونگے، ہمیں نوٹس دے دیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہو جاتے۔شفاف ٹرائل کا حق سب کو ہے لیکن شاید ججز کو نہیں، ججز کو نوٹس کیے بغیر موقف سنے بغیر ہی توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ چھ جج کا خط کلاسک مثال تھی وہ خط آج بھی موجود ہے،چھ ججز کے خط پر اگر سپریم کورٹ ڈٹ جاتی تو آج یہ حالات نہ ہوتے، قوم، سیاستدانوں اور ججز نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، جب وہ آتا ہے تو کوئی کھڑا نہیں ہوتا، آج صبح ایک اخبار کی سرخی پڑھی جس میں سینئر سیاستدان نے کہا ملک میں جمہوریت ہے ہی نہیں،ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلایا جا رہا۔بنچ نے معاملہ چیف جسٹس کو کیوں بھیجا؟ بنچ کو لگا تھا کہ توہین عدالت ججز کمیٹی نے کی ہے تو شوکاز جاری کرتی، چیف جسٹس سمیت کسی کو نوٹس کرنے پر قانون میں کوئی قدغن نہیں ہے۔جبکہ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جس عدالتی حکم پر تبصرہ ہو رہا ہے وہ تو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا ہوا، کیا عدالت سوموٹو میں اس عدالتی حکم کا جائزہ لے سکتی ہے؟چھ رکنی بنچ کے پاس سوموٹو لینے کا اختیار ہی نہیں۔جبکہ بینچ نے کیس نمٹا دیا، 4 ججز نے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کریں گے۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شاہد وحید نے اقلیتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ نمٹانے کی حد اکثریتی فیصلے کے ساتھ ہیں، تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کرنے کی حد تک اکثریتی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی نے تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کرنے کا اکثریتی فیصلہ دیا۔سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار کو جاری شوکاز نوٹس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہررضوی،جسٹس شاہد وحیداورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ نذر عباس کے وکیل محمدشاہد کمال خان نے کہا کہ ہم اپنی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینا چاہتے ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ اپنا کلیم واپس لے سکتے ہیں لیکن اپیل واپس نہیں لی جاسکتی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے نذر عباس کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کمرہ عدالت سے باہر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میرے موکل کیخلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جب توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی تو آرڈر کیسے دیا گیا، اس فیصلے میں تو مبینہ طور پر توہین کرنے والوں میں چیف جسٹس پاکستان کو بھی شامل کیا گیا، کیا مبینہ طور پر توہین کرنے والے فل کورٹ تشکیل دیں گے، مرکزی کیس آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ توہین عدالت قانون میں پورا طریقہ کار بیان کیا گیا ہے، دونوں کمیٹیوں کو توہین کرنے والے کے طور پر ہولڈ کیا گیا، طریقہ کار تو یہ ہوتا ہے پہلے نوٹس دیا جاتا ہے، ساری دنیا کیلئے آرٹیکل 10اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق ہے، کیا ججز کیلئے آرٹیکل 10 اے دستیاب نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ جو فل کورٹ بنے گا کیا اس میں مبینہ توہین کرنے والے چار ججز بھی شامل ہونگے، ہمیں نوٹس دے دیتے ہم چار ججز ان کی عدالت میں پیش ہو جاتے۔جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ کیا انٹراکورٹ اپیل میں وہ معاملہ جو عدالت کے سامنے ہی نہیں، کیا اسے دیکھ سکتے ہیں، جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ تو کیا ہم بھی فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، مناسب ہوگا ججز کراس ٹاک نہ کریں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر یہ بینچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں بینچ سے الگ ہو جاوں گا، ہمارے سامنے اس وقت کوئی کیس ہے ہی نہیں، ہماریسامنے جو اپیل تھی وہ غیر موثر ہو چکی، اگر بنچ کارروائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو میں معذرت کروں گا۔جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ فائل کے پہیے نہیں لگے ہوتے کسی نے تو لے کر جانی ہے، ہمیں بتائیں کمیٹی پر اعتراض کیا گیا، ہمیں بتائیں کیا کمیٹی آئین کے خلاف جا سکتی تھی؟ میری رائے میں آئینی سوال آ جائے تو وہ مقدمہ خودکار طریقے سے آئینی بینچ کے سامنے چلا جاتا ہے، ملٹری کورٹس کیس کسی نے منتقل نہیں کیا وہ خود منتقل ہوا، جب ریگولر بینچ میں میرے سامنے آئینی نکتہ آئے گا میرے لیے وہ کیس سننا ہی حرام ہو جائے گا۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 13 جنوری کے آرڈر میں لکھا ہوا ہے کہ اعتراض کیا گیا تھا کہ کیس آئینی بینچ کو بھیجا جائے،  جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس فیصلے میں جو کہا گیا کیا وہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ میں صرف پوچھ رہا ہوں، اگر ایک جج آئین کی خلاف ورزی کرے تو آئین اس بارے کیا کہتا ہے؟ ہر جج نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا کہ ہمارے سامنے موجود کیس غیرمئوثر ہو چکا ہے، کیا ہم یہاں بیٹھ کر ججز کو نوٹس کر سکتے ہیں؟ ہم انٹرا کورٹ اپیل کے اختیار سماعت سے باہر نہیں جا سکتے۔جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ ہمارے بارے کہا گیا کہ یہ دو جج بینچ میں نہ بیٹھیں ان کا مفادات کا ٹکرا ہے، پہلے بتائیں ہمارے مفادات کیا ہیں اور ان کا ٹکرئو کیا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ تو نئی عدالتی نظیر ہو گئی کہ میرا آرڈر ہے فلاں جج کیس نہ سنے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو آدھے ججز کورٹ میں بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسے میں تو آپ کو ایڈہاک ججز بھرتی کرنا پڑیں گے۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ تو ایسے ہی ہو گیا یہ تیرا جج ہے یہ میرا جج ہے، ہمیں بتایا جائے ہمارے کیا مفادات تھے؟ ہمیں کیا فائدہ ملا؟  ساڑھے گیارہ بجے جب ساری عدالتیں بند ہو جاتی ہیں ہم تب بھی کیس سنتے ہیں، ہم روزانہ ڈبل فائلیں پڑھ کر آتے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ہم تو اسی تنخواہ میں دوگنا کام کر رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ فائدہ اٹھانے والے جج ہیں دوسری طرف کہا جاتا ہے متاثرہ جج ہیں، کیا یہ معاملہ اب عالمی عدالت انصاف میں جائے گا؟ مفادات کا ٹکرا کیا ہے یہ بتانا پڑے گا۔جسٹس محمد علی مظہر  نے کہا کہ ہمارے ساتھ وہ ہوا جیسے کہا جاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کہا اور کہہ بھی گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ ہماری نیک نیتی پر سوال اٹھایا گیا ہے اس معاملے کو کلیئر کرنا پڑے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس دیئے کہ چھ جج کا خط کلاسک مثال تھی وہ خط آج بھی موجود ہے، قوم، سیاستدانوں اور ججز نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا، جب وہ آتا ہے تو کوئی کھڑا نہیں ہوتا، آج صبح ایک اخبار کی سرخی پڑھی جس میں سینئر سیاستدان نے کہا ملک میں جمہوریت ہے ہی نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم اس سوال کو ہمیشہ کے لیے طے کرنا چاہتے ہیں تاکہ روز روز تماشہ نہ لگا رہے، اس خوف سے میں ججز کمیٹی میں بھی نہیں بیٹھوں گا کہ کہیں کوئی بینچ مجھے توہین عدالت کا نوٹس نہ جاری کر دے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ججز کمیٹی جوڈیشل فورم نہیں ہے، کیا اس معاملے میں کمیٹی ممبران پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کا مفادات کا ٹکرا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ آنے والے ساتھی ججز کو توہین عدالت کی کاروائیوں سے بانا چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو ہوا یہ شرمندگی کا باعث ہے۔اس کے ساتھ ہی عدالت عظمی نے کیس نمٹا دیا، 4 ججز نے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کریں گے۔جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شاہد وحید نے اقلیتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ نمٹانے کی حد اکثریتی فیصلے کے ساتھ ہیں، تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کرنے کی حد تک اکثریتی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی نے تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کرنے کا اکثریتی فیصلہ دیا۔