ہم کوئی نئی چیز تخلیق نہیں کرسکتے، ہم یا اپیل خارج کریں گے یامنظورکردیں گے۔ فیصلے کی وجوہات ہونی چاہیں،جسٹس امین الدین خان
 ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا،جسٹس جمال خان مندوخیل
 کیا چارججز پانچ ججز کافیصلہ کالعدم قراردے سکتے ہیں۔کسی فوجی اہلکار نے کبھی قانون کوچیلنج نہیں کیا، جسٹس محمد علی مظہر
حملے اور احتجاج میں امتیاز ہونا چاہیئے 21ویں ترمیم اے پی ایس واقعہ کے تناظر میں کی گئی تھی ، 9مئی کااس سے کوئی تعلق نہیں، جسٹس مسرت ہلالی
 فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائردرخواستوں کی سماعت کے دوران ججزکے ریمارکس
 کیس کی سماعت آج (منگل) دوبارہ ہوگی۔ سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائردرخواستوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ ہم اپیل سن رہے ہیں جس میں کچھ شقوں کو کالعدم قراردیا گیا ہے ہم نے دیکھنا ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے کہ نہیں، ہم کوئی نئی چیز تخلیق نہیں کرسکتے، ہم یا اپیل خارج کریں گے یامنظورکردیں گے۔ فیصلے کی وجوہات ہونی چاہیں۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فوجی عدالت فوجداری عدالت ہے توپھر پراسیس دیکھنا ہوگا، ملزم کے بھی حقوق ہوتے ہیں، سزاکے بعد بھی جیل میں حقوق ہوتے ہیں، اس حوالہ سے پاکستان نے عالمی معاہدے پردستخط کررکھے ہیں۔ ایک دہشت گرد پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پرحملہ کرتا ہے، اگر وہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملہ کرتا ہے تواس کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گااوراگروہ جی ایچ کیو پرحملہ کرتا ہے تواس کامقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا یہ تفریق کیوں ہے، سوال یہ ہے۔ قانون بنانا پارلیمنٹ کاکام ہے، کیا ٹرائل ہوسکتا ہے کہ نہیں ، اگر ہوسکتا ہے توکس حد تک ہوسکتا ہے۔21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ متعلقہ بات نہیں کہ جب تک فوجی عدالت میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتا ملزم کوضمانت نہیں مل سکتی۔ کیا چارججز پانچ ججز کافیصلہ کالعدم قراردے سکتے ہیں۔کسی فوجی اہلکار نے کبھی قانون کوچیلنج نہیں کیا۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا دھماکہ کرنے والے، ملک دشمن جاسوس کیساتھ ساز باز کرنے والے اور عام سویلینز میں کوئی فرق نہیں؟وکیل کو اپنے دلائل میں تفریق کرنی چاہیے ؟ ا سپیڈی ٹرائل میں کیسے ضمانت لیں گے، 10,15روز میں ضمانت کیسے لیں گے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 21ویں ترمیم اے پی ایس واقعہ کے تناظر میں کی گئی تھی ، 9مئی کااس سے کوئی تعلق نہیں، کس قانون کے تحت فوجی عدالتوں نے 9مئی کے ملزمان کے حوالہ سے دائرہ اختیارحاصل کیا۔ حملہ کیاہوتا ہے، حملہ تومسلح ہوتا ہے، حملے اور احتجاج میں امتیاز ہونا چاہیئے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر 39نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کیا۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ جب تک فوجی عدالت فیصلہ نہیں دیتی ملزم کو ضمانت نہیں مل سکتی۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ سپیڈی ٹرائل میں کیسے ضمانت لیں گے، 10,15روز میں ضمانت کیسے لیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ یہ متعلقہ بات نہیں کہ جب تک فوجی عدالت میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتا ملزم کوضمانت نہیں مل سکتی۔ خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ آرمی جج اورجیوری کے طور پر کام کرتی ہے ، اس کیس میں سپریم کورٹ نے سویلینز کے لئے یہ پراسیس غیر آئینی قراردیا ہے، اگر یہ بینچ اس فیصلے کوتبدیل کرتا ہے توپھر بنیادی اور یونیورسل اصولوں، فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10-Aاور ڈیو پراسیس سے ہٹنا ہوگا۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کیا جو ملک کے خلاف کسی کے ساتھ مل کرکام کرتا ہے وہ عام سویلین کے برابر ہے، سویلین کے درمیان تفریق کریں۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا خواجہ احمد حسین کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے شیخ لیاقت حسین کیس کی مثال دی تھی، اس وقت پبلک اور آرمی میں براہ راست کوئی لڑائی نہیں تھی، غالبا ایک واقعہ کراچی میں ہوا تھا جس میں ایک میجر کلیم کو اغوا کیا گیا تھا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ 21ویں ترمیم سے قبل بھی فیلڈ کورٹ مارشل ہوئے تھے ، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا فوجی ٹرائل ہوا، 21ویں ترمیم میں اغوابرائے تاوان اوردیگر بہت سی چیزوں کاشامل کیا گیا تھا۔ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم سے کورٹ مارشل ممکن ہوتا تو آئینی ترمیم نہ کرنی پڑتی، اس طرح کورٹ مارشل ممکن ہے تو عدالت کو قرار دینا پڑے گا کہ اکسیویں ترمیم بلاوجہ کی گئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فوجی عدالت فوجداری عدالت ہے توپھر پراسیس دیکھنا ہوگا، ملزم کے بھی حقوق ہوتے ہیں، سزاکے بعد بھی جیل میں حقوق ہوتے ہیں، اس حوالہ سے پاکستان نے عالمی معاہدے پردستخط کررکھے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیسے آئین کاآرٹیکل 175اپلائی ہوتا ہے اور کیسے نہیں ہوتا وکیل اس حوالہ سے بتائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جو مسلح افواج کے رکن نہیں کیا یہ لوگ آئین کے آرٹیکل 175-3کی تعریف میں آسکتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیا تھا، ہمارے سامنے سوال صرف یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک دہشت گرد پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پرحملہ کرتا ہے، اگر وہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملہ کرتا ہے تواس کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلے گااوراگروہ جی ایچ کیو پرحملہ کرتا ہے تواس کامقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا یہ تفریق کیوں ہے، سوال یہ ہے۔ ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا ہم اپیل سن رہے ہیں جس میں کچھ شقوں کو کالعدم قراردیا گیا ہے ہم نے دیکھنا ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہے کہ نہیں، ہم کوئی نئی چیز تخلیق نہیں کرسکتے، ہم یا اپیل خارج کریں گے یامنظورکردیں گے۔خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ میں نے مطمئن کرنا ہے کہ یہ عوامی مفاد کامعاملہ ہے اور بنیادی حقوق کے نفاذ کامعاملہ ہے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ کیاوکیل آرمی تنصیبات اور کورکمانڈر ہائوس کو سرکارکی ملکیت سمجھتے ہیں یا فوج کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ وفاق اور وفاق پاکستان مالک ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ فوجی تنصیبات الگ وجود رکھتی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاانسداد دہشت گردی ایکٹ میں تخلیق کیا گیا فورم آئین کے آرٹیکل 175کی شرائط کوپوراکرتا ہے۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع کے وکیل نے دلائل میں کہا آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت اپیل قابل سماعت ہی نہیں تھی، وزارت دفاع کے وکیل نے کہا جہاں آرٹیکل 8 کی ذیلی شق تین اے اپلائی ہو وہاں درخواست قابل سماعت تھی، اگر اس کیس میں آرٹیکل 184 کی شق تین کا اطلاق نہیں ہو سکتا تو پھر کسی اور کیس میں اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔انہوں نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ہمیشہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے اختیار سماعت کو محتاط انداز میں استعمال کرنے کی رائے دی، ملٹری کورٹس میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی رائے دی آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت براہ راست درخواست قابل سماعت تھی، آج برگیڈیئر(ر)فرخ بخت علی کیس پر بھی دلائل دوں گا ۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس میں کہا کہ شکر ہے پورا نام تو پتہ چلا ہم تو ایف بی علی کیس کے نام سے ہی جانتے تھے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے ایف بی علی، ایف بی علی کہتے تھے آج پورانام لیا ہے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ایف بی علی پر ملک کیخلاف جنگ شروع کرنے اور فوج کو بغاوت پر اکسانے کا الزام تھا، ایف بی علی کا کورٹ مارشل میجر جنرل ضیا الحق نے 1974 میں کیااور انہیں عمر قید کی سزا دی، ایف بی علی نیذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی، کورٹ مارشل کرنے والے ضیا الحق ترقی پا کر آرمی چیف بن گئے، ضیا الحق کے آرمی چیف بننے کے بعد جو ہوا وہ اس ملک کی تاریخ ہے اس حوالہ سے میں کچھ نہیں کہوں گا م جن کاٹرائل کیا گیاان میں کچھ حاضر سروس افسران بھی تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ورغلانے کی کوشش کرناالگ بات ہے اور ماننا یا نہ ماننا الگ بات ہے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ اُس دور میں تو کمانڈر ان چیف گل حسن خان اور ایئر چیف عبدالرحیم خان کو بھی اغوا کر لیا گیا تھا، اغوا کار نے اپنی کتاب میں وجوہات بھی تحریر کی ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس سید حسن اظہر رضوی سے سوال کیا کہ ویسے وجوہات کیا تھیں؟جس پر جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے جواب دیا کہ اس کیلئے آپ کو کتاب پڑھنا پڑے گی۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں 2-d-1کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ گٹھ جوڑ کامطلب ہے کہ کسی قسم کاتعلق ہو۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ورغلانایا ورغلانے کی کوشش کرنا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اکیسویں ترمیم کا کیا بنا تھا؟ جس پر ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ اکسیویں ترمیم کو دو سال کی توسیع ملی 2019 میں ختم ہو گئی۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اکسیویں ترمیم ختم ہونے کے بعد موجودہ کیسز میں کورٹ مارشل کیسے ہوگیا؟۔خواجہ احمد حسین نے جواب دیا کہ9مئی رور10مئی کے کیسز میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ لاگو کیا گیا،۔اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس ملک میں احتجاج کرنا جرم ہے؟ خواجہ احمد حسین نے کہا کہ احتجاج کرنا جرم نہیں املاک کو نقصان پہنچانا جرم ہے، اہم سوال ہے کہ کورٹ مارشل نہ ہو تو کیا ملزمان آزاد ہوجائیں گے؟ جواب یہ ہے کہ ملزمان آزاد نہیں ہونگے کیونکہ انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا چارججز پانچ ججز کافیصلہ کالعدم قراردے سکتے ہیں۔ خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ ایف بی علی 5رکنی بینچ کافیصلہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا ہے کہ وفاق کونہیں سنا گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا اٹارنی جنرل کومعاونت کانوٹس جاری کیا گیا تھا۔ اس پر خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ کیا گیا تھا۔ خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن راولپنڈی کیس میں سپریم کورٹ کے 17رکنی بینچ نے قراردیا کہ عدالت آئینی ترمیم کاجائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ 21ویں ترمیم اے پی ایس واقعہ کے تناظر میں کی گئی تھی ، 9مئی کااس سے کوئی تعلق نہیں، کس قانون کے تحت فوجی عدالتوں نے 9مئی کے ملزمان کے حوالہ سے دائرہ اختیارحاصل کیا۔خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ 2-1-d-1کے تحت 9مئی کے ملزمان کافوجی عدالت میں ٹرائل کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ حملہ کیاہوتا ہے، حملہ تومسلح ہوتا ہے، حملے اور احتجاج میں امتیاز ہونا چاہیئے۔  خواجہ احمدحسین کاکہنا تھا کہ 5رکنی بینچ کافیصلہ درست ہے، بنیادی حقوق کاتحفظ کرنا ضروری ہے، اگر بینچ اپیلیں منظور کرتا ہے تو یہ سویلینز کوغیر منصفانہ ٹرائل کے سامنے ایکسپوز کرنا ہوگا۔اس کے بعد عدالتی سماعت میں وقفہ کردیا گیا ۔ ججز معمول سے ہٹ کر 50منٹ کے وقفہ کے بعد کمرہ عدالت میں واپس آئے۔اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ بار اور لیاقت حسین کیسز کی ریشو اپیلیں خارج کرنے سے بینچ کونہیں روکتی، بینچ کیس کامیرٹس پرفیصلہ کرسکتا ہے، آپ کے لئے موقع ہے کہ آئین اور رول آف لاء کے مفاد میں بولیں۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ ملک عظیم وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے بنا، یہ آئینی بنچ قائداعظم کی تصویر کے سائے کے نیچے بیٹھا ہوا ہے، ہماری عدلیہ نے ماضی میں ایسے فیصلے کیے جن کے سبب قوم کو بھگتنا پڑا۔ان کا کہنا تھا کہ میری استدعا ہے مرکزی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں خارج کی جائیں، بینچ اپنے بہادرساتھیوں کے ساتھ کھڑ اہو۔اس کے بعد خواجہ احمد حسین نے اپنے دلائل مکمل کرلئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ احمد حسین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پر 20ہزار روپے جرمانہ بھی واجب الادا ہے۔ اس پر خواجہ احمد حسین کاکہنا تھا کہ میں نے اس حکمنامے کیخلاف نظرثانی بھی دائر رکھی ہے، جرمانہ عائد کرنے کا حکمنامہ واپس لیا جائے۔جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ جسٹس مسرت ہلالی کہہ رہی ہیں کہ جرمانہ ڈبل کر دیتے ہیں۔خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ویسے بھی ہماری درخواست کافی حد تک غیر مئوثر ہو چکی ہے، آئینی بنچ کافی حد تک کیس سن چکا ہے۔جسٹس امین الدین خان نے ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کیا کہ ٹھیک ہے ،عدالت نے نظرثانی واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دیتے ہیں۔ بعدازاں آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس پر عائد کیا گیا جرمانے کا حکمنامہ واپس لے لیا۔جبکہ ایک فوجی عدالت سے 9مئی واقعات میں سزاپانے والے ملزم ارزم جنیدکے والد جنیدرزاق اوردیگر کی جانب سے پیش ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میںاعترازاحسن کابھی وکیل ہوں تاہم ان کی جانب سے لطیف کھوسہ دلائل دیں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ قانون بنانا پارلیمنٹ کاکام ہے، کیا ٹرائل ہوسکتا ہے کہ نہیں ، اگر ہوسکتا ہے توکس حد تک ہوسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر کوئی غلطی ہوجائے تواس کے حوالہ سے آئین کاآرٹیکل 10-Aمیں تحفظ دیا گیا ہے۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ کا کہنا تھا کہ یہ بنیاد ی اصول ہے کہ ایک بے گناہ کوسزانہ دی جائے بے شک اس کے لئے 100گنہگاروں کوچھوڑ دیا جائے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 8-3اور175-3میں کیا فرق ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جسٹس منیب اختراور جسٹس عائشہ اے ملک کے فیصلوں میں کوئی مطابقت نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ فیصلے کی وجوہات ہونی چاہیں۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آپ قوم کے لئے آئین کی تشریح کررہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ دنیا میں دو، تین ممالک ہیںجہاں سویلینزکافوجی عدالتوں میں ہوتا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ دنیا میں18یا19 ممالک ہیں جہاں سویلینز کافوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کسی فوجی اہلکار نے کبھی قانون کوچیلنج نہیں کیا۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہناتھا کہ جب ملزم ارزم جنید کادائرہ اختیار فوجی عدالت کے حوالہ کیا گیااس وقت اس اقدام کوآئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا، وہاں جاسکتے تھے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ کے دلائل میں انتشار ہے ایک طرف فیئر ٹرائل کی بات کررہے ہیں اور دوسری طرف گٹھ جوڑ کی بات کررہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 175 تین 1987 میں آیا اس کے بعد ایگزیکٹو کورٹ کی گنجائش ہی نہیں۔اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایگزیکٹو کورٹس آج بھی موجود ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ بھارت میں اگر کسی واقعہ میں فوجی اور سویلین دونوں ملوث ہوں تو ٹرائل سویلین عدالت میں چلتا ہے، ملٹری کورٹس ایک طرح کی ایگزیکٹو عدالتیں ہیں، 103 افراد کو ملٹری ٹرائل کیلئے کیسے لے کر جایا گیا، وجوہات سامنے نہیں آئیں۔ اس پر جسٹس امین الدین کا کہنا تھا کہ وہ معاملہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ یہ معاملہ بالکل اس عدالت کے سامنے موجود ہے، کسٹڈی دینے کے آرڈرز اور کمانڈنگ آفیسر کی درخواست اس عدالت کے سامنے موجود ہے، کمانڈنگ آفیسر نے بندے مانگنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ کمانڈنگ افسر کو سویلین کی حوالگی سے قبل جوڈیشل مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے تھا۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ قانونی طریقہ کیا ہے، کیا ہونا چاہیئے تھا کس طرح حوالگی ہونی چاہیئے تھی۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ معقول درخواست کی جانی چاہیئے تھی۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کوئی تحقیقاتی رپورٹ کسی عدالت کے سامنے آئی۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ نہیں آئی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پوری دنیا میں سویلین کا ملٹری ٹرائل آئین کو تباہ کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے، خواجہ حارث نے ایف بی علی کیس کا جو مطلب نکالا اس پر حیرانی ہوئی، ایف بی علی کیس نہیں کہتا بنیادی آئینی حقوق کا اطلاق آرمی ایکٹ کی دفعات پر نہیں ہوتا، ایف بی علی کیس اس کے بالکل برعکس بات کر رہا ہے، یوں بھی آئین میں آرٹیکل 175 تین آچکا ہوا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاسلمان اکرم راجہ کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ خواجہ حارث نے ایف بی علی فیصلہ غلط پڑھا بلکہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میری سمجھ کے مطابق اس طرح پڑھا جانا چاہیئے۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ مجھ پر 18 کیسز ہیں جن میں قتل کیسز بھی شامل ہیں،کل انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی ہے، مجھے گرفتارکرنا چاہتے ہیں اورمیرا کیس بھی فوجی عدالت لے جانا چاہتے ہیں، اگر سپریم کورٹ آبزرویشن دے تو کل میں یہاں پیش ہو کر دلائل دے دونگا۔جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ آبزرویشن نہیں دے سکتے۔جسٹس سیدحسن اظہررضوی کاسلمان راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ وہاں التوا کی درخواست دائر کر دیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ وہ سماعت اٹینڈ کررکے آجائیں۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میں اس کیس میں دلائل دینا چاہتاہوں چاہے بعد میں وہ مجھے پکڑ لیں، اس کامجھے کوئی غم نہیں ہوگا۔ اس دوران سینئر پی ٹی آئی رہنما، وکیل اوررکن قومی اسمبلی سردار لطیف خان کھوسہ کاکہنا تھا کہ میری بھی کل پیشی ہے۔ کیس کی سماعت آج (منگل)ساڑھے9بجے تک ملتوی کردی گئی۔ سلمان اکرم راجہ اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ ZS
#/S