تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ جسٹس جمال خان مندوخیل
فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت، وکیل سینیٹر حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کرلیئے
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد آج (منگل)دن ساڑھے 11بجے اپنا جواب الجواب شروع کریں گے
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن اور لاہور بارایسوسی ایشن کے وکیل سینیٹر حامد خان نے اپنے دلائل مکمل کرلیئے جبکہ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد آج (منگل)دن ساڑھے 11بجے اپنا جواب الجواب شروع کریں گے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں، کیا وہ 8(3)کے ضمرے میں آئیں گے کہ نہیں، کیا اس طریقہ سے سویلینز کو آرمی ایکٹ کے تحت لایا جاسکتا ہے کہ نہیں۔ کیا متبادل اپیل بنیادی حق ہے کہ نہیں۔ حاجبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سادہ اوربڑا سوال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 175میں فوجی عدالتیں آتی ہیں کہ نہیں، اس کوممتاز کریں کہ یہ عدالت ہے کہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 175کی تشریح اس کیس میں اہم ہے۔ پانچ رکنی بینچ نے کہا کہ پوری دنیا میں فوجی عدالتیں اسی انداز میں چلتی ہیں۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں 1985کی اسمبلی میں حاجی سیف اللہ خان اور ڈاکٹر شیرافگن خان نیازی مارشل لاء کے حوالہ سے بہت زیادہ بحث کرتے تھے تاہم آج کل اس طرح کی بحث کرنے والے بہت کم لوگ ملتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معالہ پر دائر 38نظرثانی درخوستوں پرسوموار کے روز دن ساڑھے 11بجے سماعت شروع کی۔ سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے گزشتہ سماعت پر پاکستان میں مارشل لا ء اورفوجی عدالتوںکی تاریخ کا بتایا تھا، پاکستان کے تاریخی تناظر میں مارشل لا اور فوجی عدالتوں کے حوالے سے دلائل دیئے ، گزشتہ سماعت پرمیں سپریم کورٹ کا ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کیس کا فیصلہ عدالت کے سامنے رکھا، راولپنڈی بار کیس میں فوجی عدالتوں سے متعلق 21ویں ترمیم چیلنج کی گئی تھی، آج بھی میرے دلائل اسی حوالے سے ہوں گے۔حامد خان کاکہنا تھا کہ کسی بھی حالات میں سویلینز کو اتنے بڑے پیمانے پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں کیا جاسکتا، فوجی عدالتیں آئینی ترمیم کے بغیر قائم نہیں ہوسکتیں، فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم پر بھی اصول طے شدہ ہیں۔حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے آئینی ترمیم مخصوص مدت کے لیے ہوسکتی ہے، اس صورت میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق بھی دیا جانا ضروری ہے، موجودہ حالات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 21ویں ترمیم میں د فوجی عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف کہاں اپیل دی گئی تھی۔ اس پر حامد خان نے بتایا کہ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی جاسکتی ہے، مگر اسکا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے،فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے جو عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، آرمی ایکٹ کو ایک طرف رکھیں تو آئین میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔حامد خان کاکہنا تھا کہ ماضی میں 1973 کے آئین سے پہلے کے آئین میں گنجائش تھی، 10ویں ترمیم میں آئین کا آرٹیکل 245 شامل کیا گیا، آرٹیکل 245 میں میں بھی فوج کو جوڈیشل اختیار حاصل نہیں، آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج صرف سول پاور کی مدد کرسکتی ہے۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ انسداددہشت گردی عدالتوں میں بھی تیزترین ٹرائل ہوسکتا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کیاآج کل قومی اسمبلی اورسینیٹ میں مارشل لاء کے حوالہ سے بحثیں ہوتی ہیں۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ 2015میں ہمیں خوش فہمی ہوگئی تھی کہ فوجی عدالتیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ختم ہوگئیں تاہم 10سال بعد پھر یہ مسئلہ سامنے آگیا۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانہ میں 1985کی اسمبلی میں حاجی سیف اللہ خان اور ڈاکٹر شیرافگن خان نیازی مارشل لاء کے حوالہ سے بہت زیادہ بحث کرتے تھے تاہم آج کل اس طرح کی بحث کرنے والے بہت کم لوگ ملتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں طے ہوا کہ آرمی ایکٹ فوج کے ممبران کے لیے بنا مگر ایف بی علی میں یہ بھی کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن ڈی اس مقصد کے لیے نہیں بنا، اب تنازع یہ ہے کہ وہ کہہ رہے ایف بی علی کیس میں سویلینز کے ٹرائل کی بھی اجازت تھی، آپ کہہ رہے ہیں کہ اجازت نہیں۔حامد خان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والوں کا انحصار آئین کے آرٹیکل 8(3) پر ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی میں کہا گیا کہ پارلیمان اس معاملے پر 2 سال میں نظرثانی کرسکتی ہے مگر آج تک پارلیمان نے اس معاملے پر کچھ نہیں کیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ تنازع یہ نہیں کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیا جائے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ آرمی ایکٹ کے ماتحت جرائم اگر سویلینز کریں تو کیا ہوگا؟ آرمی ایکٹ میں درج جرائم کرنے پر اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے یا نہیں کیا وہ 8(3)کے ضمرے میں آئیں گے کہ نہیں، کیا اس طریقہ سے سویلینز کو آرمی ایکٹ کے تحت لایا جاسکتا ہے کہ نہیں۔ اس پر حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں شامل وہ شقیں جن کے تحت سویلین کا ٹرائل کیا جاتا ہے وہ غیر آئینی ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ ذمہ داریوں کی انجام دہی اور ڈسپلن برقراررکھنے کے لئے نافذ کیا گیا تھا، چونکہ سویلینز نے آرمی کے حوالہ سے جرائم کئے ہیں اس لیئے اُن کافوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے، آرمی اہلکاروں کو اکسانے یااکسانے کی کوشش کرنے پر سویلینز ایکٹ کے تحت آسکتے ہیں کہ نہیں، مزید لوگ ایکٹ کے نیچے آسکتے ہیں کہ نہیں، نئی عدالتیں نہیں بنارہے، فوجی عدالتیں پرانی عدالتیں ہیں۔حامد خان نے اس موقع پر کہا کہ اب میں اپنے دلائل میں آئین کے آرٹیکل 175(3) کو بیان کروں گا، آئین کے اس آرٹیکل میں واضح لکھا ہے کہ عدلیہ ایگزیکٹو سے الگ ہوگی، فوجی عدالتیں آئین کے خلاف ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر سویلین آرمی کے معاملات کے حوالہ سے بھی جرم کرے تو وہ آمی ایکٹ کے ضمرے میں نہیں آئے گا۔ اس پر حامد خان کاکہنا تھا کہ نہیں آئے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کس نے کرنا تھا؟ آئین کے آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرنا تھا، ایسا کرنا کس کی ذمہ داری تھی، اگر ذمہ داری ادا نہ کرے تواس کاکیا اثر ہوگا،کیااس کے لئے پارلیمنٹ میں جانے کی ضرورت نہیں،یا عدلیہ ایگزیکٹو سے خود بخود الگ تصور ہوگی؟ یا عدلیہ کے ایگزیکٹو سے الگ ہونے کی ڈیکلریشن عدلیہ دے گی یا پارلیمان؟حامد خان نے بتایا کہ آئین کے الفاظ واضح ہیں، پارلیمان کے ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ فوجی عدالتیں آئین کے آرٹیکل 175(3) کے زمرے میں نہیں آتیں، سپریم کورٹ کے فیصلے میں فوجی عدالتوں کو تاریخی تناظر میں دیکھا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پانچ رکنی بینچ نے کہا کہ پوری دنیا میں فوجی عدالتیں اسی انداز میں چلتی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگروکیل کی بات مان لی جائے تو آئین کے آرٹیکل 175(3) کے تحت عدلیہ خود بخود ایگزیکٹو سے الگ تصور ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ اس آرٹیکل کے 14 سال بعد فوجی عدالتیں فوج کے ممبران کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتیں، کیا فوجی عدالتیں مکمل طور پرختم ہوگئیں یا فوجی اہلکاروں کے لئے باقی رہیں گی۔ حامد خان نے کہا کہ فوجی عدالتیں صرف فوج کے ممبران کے لیے قائم رہ سکتی ہیں جبکہ سویلینز کے لئے ختم ہوگئیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 175میں لانے کے لئے پہلے فوجی عدالتوں کوعدلیہ کاحصہ تسلیم کرنا ہوگا، آرمی ایکٹ قانون ہے اس کے تحت فوجی عدالتیں بنی ہیں کہ نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سادہ اوربڑا سوال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 175میں فوجی عدالتیں آتی ہیں کہ نہیں، اس کوممتاز کریں کہ یہ عدالت ہے کہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 175کی تشریح اس کیس میں اہم ہے۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ صرف ڈسپلن برقراررکھنے کے لئے افسران کواختیارات دیئے گئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فوجی عدالتیں، عدالتیں نہیں بلکہ کورٹ مارشل ہیں، افواج کے حوالہ سے جرائم کورٹ مارشل میں آسکتے ہیں کہ نہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کیا مشہورزمانہ شرف فریدی کیس میں فوجی عدالتوں کے حوالہ سے کوئی تذکرہ ہے، فوجی عدالتوںیا کورٹ مارشل کاکوئی ریفرنس دیا ہے۔ حامد خان کہنا تھا کہ عدلیہ کوایگزیٹو سے الگ کرنے کے لئے دیئے گئے 14سال14اگست1987کو پورے ہوگئے، پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کسی سویلین کافوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، سویلینز کافوجی عدالتوں میں ٹرائل آئین کے آرٹیکل 10-Aکی بھی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا متبادل اپیل بنیادی حق ہے کہ نہیں۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ بنیادی حق ہے۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ فیئر ٹرائل میں اپیل کاحق بھی شامل ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے آدھا گھنٹہ وقت کہا تھااب ایک گھنٹہ ہوگیا ہے، دلائل ختم کریں۔ اس پرحامد خان کاکہنا تھا کہ میں دلائل ختم کررہا ہوں، اگلی سماعت پر اپنے تحریری دلائل بھی دے دوں گا۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ 5رکنی بینچ کے فیصلہ میں مداخلت کاکوئی جواز نہیں یہ جامع فیصلہ ہے، آئینی معاملات میں عدالتی فیصلوں کے سیاست پراثرات ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی حامد خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔ وکیل حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد روسٹرم پر آئے اور انہوں نے جواب الجواب کا آغاز کیا۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ جواب الجواب کے لیے کتنا وقت لیں گے۔ا س پر خواجہ حارث نے بتایا کہ بہت سے نئے نکات سامنے آئے ہیں، میں صرف نئے سامنے والے نکات تک ہی محدود رہوں گا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فوجی عدالتیں عدلیہ کے اختیارات استعمال کرتی ہیں اس میں کوئی شق نہیں، اگر دیگر کاٹرائل نہیں ہوسکتا توپھر فوجی عدالتوں میں فوجیوں کاٹرائل کس طرح ہوسکتا ہے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ایکٹ آئین میں شامل ہے یہ 5رکنی بینچ نے تسلیم کیاہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کوشش کریں کہ ایک دن میں جواب الجواب مکمل کرلیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آپ کو جواب الجواب دلائل میں یہ ہفتہ اوراگلا ہفتہ لگ جائے گا۔اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ایک ہفتہ لگ جائے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈیشل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان سے استفسار کی کہ اٹارنی جنرل جنرل منصورعثمان اعوان جواب الجواب نہیں دیں گے۔ اس پر چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ خواجہ حارث ہی جواب الجواب دیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج (منگل)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔ ZS