اگر ایک ہی جرم کے نتیجہ میں 2مرتبہ عمر قید کی سزاہوتی ہے تودونوں سزائیں اکٹھی چلیں گی۔سپریم کورٹ
 عدالت نے دوہرے قتل اورایک شخص کو زخمی کرنے کے ملزم کی دومرتبہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا

اسلام آباد (ویب  نیوز)

سپریم کورٹ پاکستان نے قراردیا ہے کہ اگر ایک ہی جرم کے نتیجہ میں 2مرتبہ عمر قید کی سزاہوتی ہے تودونوں سزائیں اکٹھی چلیں گی۔ جبکہ عدالت نے دوہرے قتل اورایک شخص کو زخمی کرنے کے ملزم کی دومرتبہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ جبکہ جسٹس ملک شہزاداحمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ساری دنیا سگریٹ پیتی ہے یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ سگریٹ پینے کاجھگڑا نہیں ، جھگڑا کوئی اور ہے، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے باہر، 20یا30فیصد لوگ توسگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔ خواتین سے چھیڑ پرجھگڑے کاہم نے سنا ہے، سگریٹ پینے پر جھگڑے کانہیں سنا۔ نابالغ کو سزائے موت نہیں ہوسکتی۔ پولیس والے کدھرآٹا چکی اٹھاسکتے ہیں ، پولیس والوں سے تواپنی ذمہ داریوں کابوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس ملک شہزاداحمد خان اور جسٹس صلاح الدین پہنور پر مشتمل 3رکنی بینچ نے منگل کے روزمختلف فوجداری اپیلوں پرسماعت کی۔ بینچ نے لاہور کے علاقہ ڈی ایچ اے میں دوہرے قتل اورایک شخص کو زخمی کرنے والے ملزم عتیق الرحمان کی جانب سے دومرتبہ سزائے موت کے فیصلے کے خلاف دائر جیل درخواست پرسماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے رضوان اعجاز بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب مرزاعابدمجید پیش ہوئے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پر تین بندے حملہ آور ہوئے اورآپ کوخراش تک نہیں آئی جبکہ آپ نے تین لوگوں کو ماردیا۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 23مارچ2011کو واقعہ پیش آیا تھا۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ درخواست گزار عدالت میں آغا سپر سٹور کے مالک کو طلب کرنے اورگواہی دینے کی درخواست دیتا، عدالت اسے گواہی کے لئے طلب کرسکتی تھی، کوئی گواہ نہیں اورنہ کوئی تحقیقات میں درخواست دی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ استغاثہ قتل کے پیچھے مقصد ثابت نہیں کرسکا، سگریٹ ساری دنیا پیتی ہے، کون سی خاتون کو بطورگواہ پیش کیا جس نے درخواست گزار کوسگریٹ پینے سے روکا ہو، ساری دنیا سگریٹ پیتی ہے یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ درخواست گزار 20مارچ 2011کوبھرتی ہوا اور23مارچ 2011کو واقعہ ہوگیا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ سگریٹ پینے کاجھگڑا نہیں ، جھگڑا کوئی اور ہے، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے باہر، 20یا30فیصد لوگ توسگریٹ پی رہے ہوتے ہیں۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ اگر سگریٹ پینے پر اعتراض ہوتاتودرخواست گزار کونوکری سے نکال دیتے، سٹور کے مالک کوجاکرکہتے۔ درخواست گزار کے وکیل کاکہنا تھا کہ دھواں اوپرجاتا ہے نیچے نہیں جاتا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ خواتین سے چھیڑ پرجھگڑے کاہم نے سنا ہے، سگریٹ پینے پر جھگڑے کانہیں سنا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے سزائے موت دی جسے ہائی کورٹ نے برقراررکھا۔ عدالت نے دومرتبہ سزائے موت کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے قراردیا کہ جرمانے کی سزابرقراررہے گی اور درخواست گزار کو چھٹیوں پر سزامیں رعایت کی سہولت بھی حاصل ہوگی۔ عدالت نے ہائی کورٹ فیصلے میں ترمیم کرتے ہوئے کیس نمٹادیا۔جبکہ بینچ نے محمد عرفان کی جانب سے قتل کیس میں عمر قید کی سزا کے خلاف دائر درخواست پرسماعت کی۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ نابالغ کو سزائے موت نہیں ہوسکتی۔ درخواست گزار کے وکیل زاہد اسلم ملک کاکہنا تھا کہ تین فائر ہوئے تاہم دو خول برآمد ہوئے، چکی کے قریب واقعہ ہواتاہم پولیس نے چکی کوقبضہ میں نہیں لیا۔جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاوکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک صاحب! آپ آٹا چکی پوری کی پوری اٹھاسکتے ہیں، پولیس والے کدھرآٹا چکی اٹھاسکتے ہیں ، پولیس والوں سے تواپنی ذمہ داریوں کابوجھ نہیں اٹھایا جاتا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فیصلہ آپ کے حوالہ کردیتے ہیں ہمیں فیصلہ کرنے کاکوئی شوق نہیں۔ عدالت نے فیصلہ برقراررکھتے ہوئے درخواست خارج کردی۔ جبکہ بینچ نے محمد اسحاق کی جانب سے اسد اللہ خان اوردیگر کے خلاف جبکہ اسداللہ خان اور صغیر احمد کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دائر درخواستوںپر سماعت کی۔ پہلی درخواست میں عمر قید کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی تھی جبکہ دوسری درخواست میں دومرتبہ عمرقید کی سزا کواکٹھے چلانے کاحکم دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ درخواست گزارکے وکیل کاکہنا تھا کہ دو قتل ہوئے دونوں کوایک، ایک گولی لگی۔ جسٹس ملک شہزاداحمد خان کاکہنا تھا کہ ایک مرے بندے کی ایک ہی مرتبہ عمر قید ہوگی، اگر زیادہ واقعات ہوں تو پھر زیادہ مرتبہ سزا ہوسکتی ہے۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کیوں نہیں گئے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ 6سال زیادہ سزابھگت لی ہے۔وکیل کاکہنا تھا کہ کل 8ملزمان تھے جن میں سے چار کوٹرائل کورٹ نے بری کیا، دوکوہائی کورٹ نے بری کیااوردوکی سزائے موت کوعمر قید میں تبدیل کیا۔ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کاکہنا تھا کہ ہم نے کیس ختم بھی کرنے یارکھے ہی رکھنے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ کیاضروری نہیں کہ پہلے ہائی کورٹ چلے جائیں۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد قراردیا کہ عمر قید کی سزائیں اکٹھی چلیں گی۔ عدالت نے درخواست نمٹا دی۔ جبکہ عدالت نے ملزمان کی سزا میں اضافہ کی درخواست ناقابل سماعت قراردیتے ہوئے خارج کردی۔