غزہ محاصرے سے علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی بحران،ایک دن میں 45 فلسطینی شہید
غزہ کے لوگوں میں بھوک اور غذائیت کی کمی کی شدت: مائیں اور بچے سبھی بے بس
انسانی ہمدردی کے کارکنان پریشان، اقوامِ متحدہ کا بھی قحط کا انتباہ
غزہ( ویب نیوز)
اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ میں وسیع فوجی آپریشن کی منظوری کے بعد نہ صرف جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کی کوششیں تعطل کا شکار ہو گئی ہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے ہزاروں ریزرو فوجیوں کو طلب کیے جانے سے غزہ میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔العربیہ ویب پورٹل کے مطابق جنگ سے پہلے ہی تباہ حال غزہ کے باسیوں کی مشکلات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے جہاں گزشتہ تین ماہ سے جاری اسرائیلی محاصرے نے زندگی کے بنیادی وسائل کو ختم کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔اسی دوران غزہ کی طبی ذرائع نے العربیہ/الحدث کو بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کی جانب سے گھروں اور پناہ گزینوں کی خیمہ بستیوں پر بمباری کے نتیجے میں کم از کم 45 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔خان یونس شہر میں بھی اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رہا، جہاں کئی اپارٹمنٹس اور خیمے تباہ کر دیے گئے۔ اتوار کی صبح خان یونس میں بمباری کے دوران ایک ہی خاندان کے چھ فراد شہید ہوگئے۔اسرائیلی فوج نے غزہ کے مشرقی علاقے الشجاعیہ پر مکمل فوجی کنٹرول قائم کر لیا ہے جب کہ الزیتون، التفاح اور الشجاعی کے علاقوں پر بھی توپ خانے سے شدید گولہ باری کی جا رہی ہے۔ اس دوران اسرائیلی انجینئرنگ کور نے مشرقی غزہ میں مکانات کو دھماکوں سے منہدم کرنا شروع کر دیا ہے۔غزہ کی موجودہ صورتحال کو اقوام متحدہ نے ایک "غیر مسبوق انسانی بحران” قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے پناہ گزیناونروا نے اعلان کیا ہے کہ اس کے پاس موجود آٹے کا تمام ذخیرہ ختم ہو چکا ہے، جب کہ عالمی ادارہ خوراک بھی گزشتہ ہفتے خوراک کی فراہمی بند کر چکا ہے۔تین ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیل نے غزہ میں امدادی قافلوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے۔ اس اقدام سے خوراک، ایندھن اور دوا کی ترسیل مکمل طور پر رک چکی ہے، جب کہ غزہ کے 24 لاکھ سے زائد شہری مکمل طور پر بیرونی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں قحط کا خطرہ شدت اختیار کر چکا ہے جس سے زخمی اور بیمار لوگ زیادہ متاثر ہیں
القسام بریگیڈز نے دو اسرائیلی دھماکوں میں بچ جانے والے زخمی یرغمالی کی ویڈیو جاری کردی
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے غزہ میں ایک سرنگ کے اندر موجود ایک اسرائیلی قیدی کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں دعوی کیا گیا کہ وہ اپنے ٹھکانے پر ہونے والے فضائی حملے میں بچ گیا ہے۔ عرب ٹی وی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز القسام بریگیڈز نے ایک ویڈیو ریکارڈنگ نشر کی جس میں دکھایا گیا تھا کہ یہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی بمباری والی سرنگ کے اندر سے اسرائیلی یرغمالیوں کو چھڑانے کی کارروائی تھی۔ویڈیو میں موجود اس شخص نے اپنی شناخت نہیں کرائی اور یرغمالیوں کی فہرست میں صرف اپنا سیریل نمبر دیا لیکن اسرائیلی ویب سائٹ وائے نیٹ نے بتایا کہ وہ ڈونباس کا شہری میکسم خرکین تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ غزہ پر حالیہ اسرائیلی بمباری میں زخمی ہوئے تھے۔یرغمالی نے بتایا کہ مارچ کے وسط میں غزہ کی پٹی میں دوبارہ فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد اس پر بمباری کی گئی اور وہ بچ گیا۔ بعد میں اسے ایک سرنگ میں حراست میں لے لیا گیا۔ اس پر بھی بمباری کی گئی لیکن وہ دوسری بار موت سے بچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری حالت انتہائی مشکل ہے۔ 5 اپریل کو حماس نے پہلی بار ویڈیو فوٹیج جاری کی جس میں بظاہر خرکین کو دکھایا گیا تھا۔ بعد ازاں ایک نوجوان جس کی شناخت اسرائیلی میڈیا نے اسرائیلی شہری کے طور پر کی نے ویڈیو ریکارڈنگ میں حصہ لیا۔خیال رہے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جمعرات کو حماس پر فتح کو غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی سے زیادہ اہم ہدف قرار دیا تھا۔ اسرائیلی وزیر خزانہ سموٹریچ نے بھی اس سے قبل اسی جذبات کا اظہار کیا تھا جب انہوں نے اسرائیل کے ایک ریڈیو چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ غزہ سے یرغمالیوں کی واپسی حکومت کا سب سے اہم مقصد نہیں ہے۔ غزہ میں اب بھی 58 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 34 کے متعلق خیال ہے کہ وہ مرچکے ہیں اور ان کی صرف لاشیں حماس کے پاس موجود ہیں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی کا یہ تیسرا ماہ ہے۔ بمباری، عدم تحفظ اور فاقہ کشی کا شکار عبدالعال جیسے والدین اپنے بچوں کو بے بسی سے دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ بے یار و مددگار ہیں۔بچوں میں غذائیت کی کمی شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ہسپتال بھی اب صرف مہلک ہنگامی حالات سے نمٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے گوداموں میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ بازار خالی ہو رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جو کچھ دستیاب ہے وہ انتہائی مہنگا مل رہا ہے۔خیراتی باورچی خانے، بیکریاں اور پانی کی دستیابی بند ہو رہی ہے۔ کاشت کاری زیادہ تر ناقابلِ رسائی ہو چکی ہے۔ لوگ کچن کے باہر کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ گوداموں میں کچھ سامان لوٹ لیا گیا ہے۔ غزہ میں اس وقت ایسے مایوس کن مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔غزہ پر طویل ترین ناکہ بندی سے بین الاقوامی سطح پر غم و غصہ پیدا ہوا ہے لیکن یہ اسرائیل کو سرحدیں کھولنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مزید انسانی گروپ اسرائیل پر بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہنگامی امور کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیکل ریان نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا، "ہم غزہ کے بچوں کے جسموں اور دماغوں کو توڑ رہے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس سلسلے میں کچھ نہ کریں تو جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، ہم بھی اس میں شریک ہوں گے۔ بچوں کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔اسرائیل ناکہ بندی کر کے حماس پر دباو ڈال رہا ہے کہ وہ بقیہ اسرائیلی قیدیوں کو چھوڑ دے۔اسرائیلی حکام نے پہلے کہا تھا کہ جنگ بندی کے دوران تقسیم میں اضافے کے بعد غزہ میں کافی امداد موجود تھی اور حماس پر الزام لگایا کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے امداد کا رخ موڑ رہا تھا۔ لیکن انسانی ہمدردی کے کارکنان امداد کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے دو مارچ سے بچوں میں شدید غذائیت کی قلت میں اضافے کو دستاویزی شکل دی ہے۔ انہیں کم قوتِ مدافعت، بار بار بیماری اور غذائیت کی قلت کی دیگر علامات ملی ہیں۔ یونیسیف نے کہا کہ سال کے آغاز سے لے کر اب تک شدید غذائی قلت کے شکار 9,000 سے زیادہ بچوں کو ہسپتال میں داخل یا ان کا علاج کیا جا چکا ہے۔مارچ میں اس میں ڈرامائی حد تک 80 فیصد اضافہ ہوا۔اس کے بعد سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔والدین غذائیت کی کمی پوری کرنے کے لیے خوراک کا استعمال مل کر رہے ہیں جس سے علاج کو نقصان پہنچاتا ہے۔ غزہ کے 200 غذائی مراکز میں سے تقریبا نصف نقلِ مکانی اور بمباری کی وجہ سے بند ہو گئے۔دریں اثنا سرحدوں پر سامانِ رسد رکا ہوا ہے جسے اسرائیل نے غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔یونیسیف کے ترجمان جوناتھن کریکس کہتے ہیں کہ "یہ بالکل واضح ہے کہ ان قابلِ انسداد وجوہات کی بنا پر مزید بچوں کی ہلاکت کا امکان ہے۔”غزہ میں ماہرِ غذائیات سعد عبید کہتے ہیں کہ والدین کثرت سے فیڈنگ سینٹرز کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ "کوئی بھی شخص تقریبا دو سال تک ڈبے میں بند کھانے اور ہنگامی خوراک پر انحصار نہیں کر سکتا۔”النصر ہسپتال میں صرف نازک حالت والے بچوں کو اور صرف مختصر مدت کے لیے داخل کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ بچوں کا علاج ہو سکے۔ڈاکٹر یاسر ابو غالی کہتے ہیں، "اگر ہم ان تمام لوگوں کو داخل کر لیں جو شدید غذائی قلت کا شکار ہیں تو ہمیں سینکڑوں بستروں کی ضرورت ہو گی۔”بیماریوں سے نمٹنے کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔النصر ہسپتال میں اطفال اور زچگی وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر احمد الفاراح کہتے ہیں، "انہیں گویا سزائے موت سنا دی گئی ہے۔”ایک والدہ مونا کہتی ہیں، "غزہ میں بھوک کے باعث ہم صرف ڈبے کی دال کھاتے ہیں۔ اگر سرحدیں بند رہیں تو ہمیں یہ بھی نہ ملے گی۔





