کیوں آزاد ارکان کومجبور کیا گیا کہ وہ سنی اتحاد کونسل میں جائیں،جسٹس امین الدین خان
سپریم کورٹ کے تمام ججز نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں، فیصلہ کوچیلنج نہیں کیا گیا،جسٹس جمال مندوخیل
ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن اور عدالتوں پر نہیں ڈال سکتے، مخصوص نشستوں کے معاملہ پر نظرثانی درخواستوں کی سماعت پر ریمارکس
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے معاملہ پر دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیوں آزاد ارکان کومجبور کیا گیا کہ وہ سنی اتحاد کونسل میں جائیں۔اگرالیکشن کمیشن آف پاکستان ، ریٹرننگ افسران اور پریزائڈنگ افسران گنہگار ہیں توکیوںان معصوم لوگوں کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کروایا جب آپ جانتے تھے کہ یہ پارلیمانی پارٹی نہیں ، مس لیڈ توآپ نے کیا۔جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے تمام 13ججز نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں اور اس فیصلہ کوچیلنج نہیں کیا گیا۔ ہم نے کہا تھا کہ اپنی ذمہ داری بھی پوری کریں آپ سے بلنڈر ہوئے ہیں ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن اور عدالتوں پر نہیں ڈال سکتے۔ کیا ہر جماعت نے صاف اورشفاف انتخابات کے لئے اقدام اٹھایا ہے ، کیاہرجماعت غیرمنصفانہ ذرائع استعما ل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ نہیں۔ملک میں جمہوریت کوپھلنا پھولنا چاہیئے،جمہوریت یہ بتاتی ہے کہ ہر شخص کی مرضی ہے کہ وہ آزاد یا پارٹی لکھے یہاں پر یہ ہوا جس کی مرضی تھی اس نے پارٹی لکھا اور جس کی مرضی تھی اس نے آزاد لکھا کیا ہم کیس کو مجبور کرسکتے ہیں، ہرکسی کواپنا جمہوری حق استعمال کرنے دیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر ہر فیصلہ جمہوری ہونا چاہیئے توپھر آئین کاکیا اثر ہو گا، وکیل کہہ رہے ہیں کہ ججزجمہوری پراسیس کوبچانے کے لئے عوام کی خواہش کے مطابق فیصلے کریں اوراگروہ آئین کی شقوں سے باہر ہوتوپھر کیاہوگا۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں آئین میں آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں شمولیت کے لئے 3دن کاوقت دیا گیا ہے تاہم اکثریتی ججز نے فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھتے ہوئے 15دن کاوقت دیااور آئین میں ترمیم کی ہے اور ووٹ کے حق کوبنیاد ی حق قراردیا گیا ہے جو کہ بنیادی حقوق میں نہیں آتا ، ووٹ کاحق قانون کے زریعہ ملتا ہے، ووٹ کے حق کو بھی آئین میں ترمیم کرکے بنیادی حقوق میں شامل کردیا گیا، کیاایسا سپریم کورٹ کے فیصلہ کے زریعہ کیا جاسکتا ہے۔ جہاں الفاظ واضح ہوں وہاں کیسے سپریم کورٹ دوبارہ آئین لکھ سکتی ہے، 3دن کی جگہ 15دن کردیا۔ اگر کوئی جماعت پارلیمنٹ میں موجودتھی تواس میں آزاد ارکان شامل ہوسکتے تھے۔جبکہ جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ وکیل نے ہمارے ہی فیصلے پرتین گھنٹے سے اسکول کے بچوں کی طرح 13ججز کویرغمال بنایاہو اہے۔جبکہ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کومخصوص نشستیں دینے سے انکار کیاگیا کیوں ایس آئی سی نے نظرثانی درخواست دائرنہیں کی، کیوں نشستیں ایس آئی سی کونہ دینے کاآرڈر چیلنج نہیں کیا۔ جبکہ بینچ نے درخواستوں پر مزید سماعت 16جون دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پہنور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقرنجفی پر مشتمل 11رکنی آئینی بینچ نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے خلاف دائر8 نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھے جوآئندہ سماعت پر بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ سماعت کے آغاز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل نے روسٹرم پر آکرکہا کہ انہوں نے اپنی تحریری معروضات جمع کروادی ہیں۔ جسٹس امین خان کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ نے اپنا بوجھ اٹھالیا ہے اس لئے آپ آج اپنے دلائل مکمل کرلیں۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ 7نظرچانی درخواستوں میں دو میں تفصیلی وجوہات جمع کروائی گئی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر کوئی اعتراض ہوگاتوہم اس کو دیکھ لیں گے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور پی پی پی کے جواب کی کاپی انہیں مل گئی ہے (ن)لیگ کے جواب کی کاپی نہیں ملی۔اس پر (ن)لیگ کے وکیل بیرسٹر حارث عظمت کاویڈیولنک کے زریعہ لاہور سے پیش ہوتے ہوئے انہوں نے فیصل صدیقی کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو کاپی دے دی ہے۔ بیرسٹر حارث عظمت کاکہنا تھا کہ انہوں نے اضافی وجوہات بھی جمع کروائی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جو جوجواب ریکارڈ پر آیا وہ آپ کو مل جائے گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاالیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر مہمند سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ نے اپنی اضافی وجوہات میں اس سوال کاجواب دیا ہے کہ کیوں ریٹرننگ آفس نے ایک مخصوص جماعت سے تعلق رکھنے امیدواروں کوآزاد قراردیا۔س پر سکندربشیر مہمند کاکہنا تھا کہ انہوں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کااپنا انتخابی نشان گھوڑا ہے تاہم ایس آئی سی چیئرمین صاحبزادہ محمد حامد رضا نے ٹاور کے نشان پر آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیا آزاد انتخاب لڑ کردوبارہ اپنی کاخودبخود چیئرمین بن گیا، پاکستان تحریک انصاف کے لوگوں نے ایس آئی سی میں شمولیت اختیارکی، پارلیمانی پارٹی اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ آئین میں آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں شمولیت کے لئے 3دن کاوقت دیا گیا ہے تاہم اکثریتی ججز نے فیصلے میں آئین کو دوبارہ لکھتے ہوئے 15دن کاوقت دیااور آئین میں ترمیم کی ہے اور ووٹ کے حق کوبنیاد ی حق قراردیا گیا ہے جو کہ بنیادی حقوق میں نہیں آتا ، ووٹ کاحق قانون کے زریعہ ملتا ہے، ووٹ کے حق کو بھی آئین میں ترمیم کرکے بنیادی حقوق میں شامل کردیا گیا، کیاایسا سپریم کورٹ کے فیصلہ کے زریعہ کیا جاسکتا ہے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں دوبارہ کیس کے دلائل نہیں دوں گا بلکہ فیصلہ تک محدود رہوں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کافیصل صدیقی کومکاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر آپ اقلیتی فیصلہ سے مطمئن نہیں تھے تو نظرثانی درخواست دائر کرتے، درخواست گزاروں نے اکثریتی فیصلہ کوچیلنج کیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میرے اورسابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت 10ججز نے کہا کہ 39نشستیں پی ٹی آئی کی ہیں تاہم 8ججز نے دیگر بھی 41کے حوالہ سے کہا کہ یہ پی ٹی آئی کی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ صرف اکثریتی فیصلہ کے خلاف نظرثانی درخواستیں دائرکی گئی ہیں باقی فیصلہ برقراررہے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم حامد رضا کومجبور نہیں کرسکتے کہ وہ کس جماعت سے انتخاب لڑیں۔ جسٹس امین الدین خان کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد ہی ٹھیک نہیں۔ اس ہر فیصل صدیقی کاجسٹس امین الدین خان کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں نے دلائل ہی نہیں دیئے تو آپ کو کیسے میرے دلائل کی بنیاد کاپتا چلا، مجھے دلائل تودینے دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اگر کوئی جماعت پارلیمنٹ میں موجودتھی تواس میں آزاد ارکان شامل ہوسکتے تھے، پی ٹی آئی کے لوگ کس طرح ایک سیاسی جماعت کے زریعہ پارلیمنٹ کے اندر متعارف ہوسکتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی کوپارٹی تسلیم کیا تاہم کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی یہ الگ بات ہے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں پوری تصویر بینچ کے سامنے رکھوں گا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کوشش کریں فلم فلاپ نہ ہو۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ہمیں سماعت کاحق مل رہا ہے اس کے بعد فلم چلے یانہ چلے کوئی فرق نہیں پڑتا۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات تسلیم نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے مشترکہ انتخابی نشان نہیں دیا گیا۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ 11ججز نے قراردیا کہ پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حکم کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے غلط سمجھا کہ پی ٹی آئی انتخابات لڑنے کی اہل نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیاسنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ میں تھی۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ نہیں تھی۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ کل 226مخصوص نشستوں میں سے 148دیگرجماعتوں میں تقسیم ہو گئی تھیں جبکہ 78کاتنازعہ تھا۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ایک ممبر الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ بچ جانے والی نشستیں ان جماعتوں کو نہیں دی جاسکتیں جو پہلے مخصوص نشستیں لے چکی ہیں۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کافیصلہ برقراررکھا کہ بچ جانے نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم ہوں گی۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کیا کہا ، سپریم کورٹ کے تمام 13ججز نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں اور اس فیصلہ کوچیلنج نہیں کیا گیا۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب اکثریتی فیصلہ میں کہا گیا کہ ایس آئی سی کومخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں توپھر آپ کو آئین کاآرٹیکل 51-Dپڑھنا پڑے گا کہ نشستیں کیسے تقسیم ہوں گی۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ اکثریتی فیصلہ کہا گیا ہے کہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہوسکتے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ آزاد ارکان سیاسی جماعت کے طور پر ایس آئی سی میں شامل ہوسکتے تھے لیکن پارلیمانی پارٹی کے طور پرشامل نہیں ہوسکتے تھے۔ جسٹس امین الدین خان کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ 11ججز نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ان آزادارکان کے زریعہ الیکشن لڑااور وہ مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، 8 ججز نے 39کوپی ٹی آئی ممبران قراردیا اور باقی 41کوشمولیت کے لئے وقت دیا چاہے وہ شامل ہوں یا نہ ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی توپارلیمنٹ کے اندر تھی نہیں، پی ٹی آئی نے 8فروری کو جنرل الیکشن میں آنا تھا وہ خاموشی سے آکر بیٹھ گئے کہ انہیں آزادقراردے دیں، مخصوص نشستوں والے کیسے ایک پارٹی کواندر لے کرجاسکتے ہیں جو پہلے نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کروائی تھی بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی کے رکن تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر 8فروری کوجیت کرآئے تھے تاہم ان کی پوزیشن کابھی پتا نہیں کہ انہوں نے کس طرح فارم پُرکیا تھا، کیا انہوں نے پی ٹی آئی امیدوار کے طور پر فارم پُر کیا تھا۔جسٹس علی باقر نجفی کاکہناتھا کہ سنی اتحاد کونسل کومخصوص نشستیں دینے سے انکار کیاگیا کیوں ایس آئی سی نے نظرثانی درخواست دائرنہیں کی، کیوں نشستیں ایس آئی سی کونہ دینے کاآرڈر چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیا کاروائی کے دوران کسی بھی جماعت یا وکیل نے پی ٹی آئی کے لئے نشستوں کادعویٰ کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ فیصل صدیقی فیصلہ پڑھنے میں ایک مہینہ بھی لگاسکتے ہیں۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ مجھے بھی چھٹی پر جانا ہے، کسی مئوکل کے لئے مجھے شہید تونہیں ہونا، میں کسی مئوکل کے لئے شہید ہونے کے لئے تیار نہیں۔ اس پرجسٹس مسرت ہلالی کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ شہید کرتے ہیں ، شہید ہوتے نہیں ہیں۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا بڑہ خطرہ ہے مجھے گھر سے مفرور قراردے دیا جائے اس لئے میں اسے جلد ختم کروں گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہر جماعت نے صاف اورشفاف انتخابات کے لئے اقدام اٹھایا ہے ، کیاہرجماعت غیرمنصفانہ ذرائع استعما ل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ جہاں الفاظ واضح ہوں وہاں کیسے سپریم کورٹ دوبارہ آئین لکھ سکتی ہے، 3دن کی جگہ 15دن کردیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر ہر فیصلہ جمہوری ہونا چاہیئے توپھر آئین کاکیا اثر ہو گا، وکیل کہہ رہے ہیں کہ ججزجمہوری پراسیس کوبچانے کے لئے عوام کی خواہش کے مطابق فیصلے کریں اوروہ آئین کی شقوں سے باہر ہوتوپھر کیاہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ملک میں جمہوریت کوپھلنا پھولنا چاہیئے،جمہوریت یہ بتاتی ہے کہ ہر شخص کی مرضی ہے کہ وہ آزاد یا پارٹی لکھے یہاں پر یہ ہوا جس کی مرضی تھی اس نے پارٹی لکھا اور جس کی مرضی تھی اس نے آزاد لکھا کیا ہم کیس کو مجبور کرسکتے ہیں، ہرکسی کواپنا جمہوری حق استعمال کرنے دیں۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے پر نظر ثانی کرنی ہے جو کہ پڑھانہیںگیا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 225اور185کی موجودگی میں الیکشن تنازعہ کے حقائق کے حوالہ سے بات کرسکتے ہیں اورفیصلہ کرسکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ آئین کے مطابق کون مستحق ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ اپنی ذمہ داری بھی پوری کریں آپ سے بلنڈر ہوئے ہیں ساری ذمہ داری الیکشن کمیشن اور عدالتوں پر نہیں ڈال سکتے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگرالیکشن کمیشن آف پاکستان ، ریٹرننگ افسران اور پریزائڈنگ افسران گنہگار ہیں توکیوںان معصوم لوگوں کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کروایا جب آپ جانتے تھے کہ یہ پارلیمانی پارٹی ، مس لیڈ توآپ نے کیا۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ غفلت ہماری جانب سے نہیں تھی، الیکشن کمیشن نے مسئلہ خراب کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ تمام باتوں کے باوجود6ارکان اب بھی پی ٹی آئی میں ہیں ہم انہیں کریڈٹ دیتے ہیں، آزاد ارکان اپنی پارٹی میں کیوں نہیں گئے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیوں آزاد ارکان کومجبور کیا گیا کہ وہ سنی اتحاد کونسل میں جائیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اپنے بلنڈر پر غور نہیں کررہے بلکہ صرف الیکشن کمیشن کو الزام دے رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل نے ایک نشست بھی نہیں جیتی تھی اتنے بڑے ، بڑے وکلاء پی ٹی آئی میں تھے، کیاآئین کاآرٹیکل 51اور خاص طور پر کلاز ڈی اوراس کا پروائزو نہیں پڑھا۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے معاونت کی درخواست دی تھی ، فریق یا مدعا علیہ بنانے کی درخواست نہیں دی تھی۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا کوئی امیدوارسامنے آیا کہ اس کو تارچرکیا گیا، ڈرایادھمکایا گیا، مجبورکیاگیایاکائل کیا گیا ، کوئی امیدوارسامنے نہیں آیا، جو شخص کائل ہوااس نے آکر بتانا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھاکہ جب آپ کوجوائن کیا یہ نہیں بتایا کہ میں خود اسمبلی میں نہیں آپ کوکیسے شامل کروں پھر تھوڑی دیر بعد بٹھالیا، کیسے فرض کیا کہ آزاد لڑ کر پارٹی بن گئی، حامد رضانے خود آزاد انتخاب لڑااور کہا کہ اسمبلی سے باہر میری پارٹی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ تمام 13ججز نے کہا کہ نشستیں خالی نہیں رکھی جاسکتیں۔ جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ کاکہنا تھا کہ ہم چھ ارکان نے اوریجنل کیس نہیں سنا، قانون کااصول ہے کہ جب ہم نئے ججز بیٹھے ہوں تو اس فیصلہ کواپنا فیصلہ سمجھ کراس کادفاع کرتے ہیں،آپ نے ہمارے ہی فیصلے پرتین گھنٹے سے اسکول کے بچوں کی طرح 13ججز کویرغمال بنایاہو اہے، کم ازکم فیصلے کے لئے اپنے نکات بتادیں، اگر پورافیصلہ پڑھنا ہے توہمیں کوئی جلدی نہیں ہم سماعت چھ ماہ کے لئے ملتوی کردیتے ہیں، اگرآپ 500صفحات پڑھوائیں گے توشاید ہم دلچسپی کھوجائیں گے، براہ راست کاروائی دکھائے جانے کے دوران ججز اوروکلاء ٹرائل پرہوتے ہیں، ہمیں تنخوا ہ ملتی ہے، وکیل کو لوگ ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں گئے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ بینچ میں 6نہیں بلکہ 7نئے ارکان ہیں ایک موجود نہیں۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ایک طرح سے پی ٹی آئی پر الیکشن لڑنے پر پابندی لگائی گئی۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین یاالیکشن ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ پارٹی الیکشن لڑتی ہے اور امیدوادنہیں لڑتا، الیکشن امیدوار لڑتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اصل متعلقہ توپارٹی ٹکٹ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہر بنیادی حق کو کسی قانون سے ریگولیٹ کیا جاتاہے۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ووٹ کاحق 18سال کی عمر کوپہنچنے پر ملتا ہے ، یہ کوئی پیدائشی حق نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹی کے ارکان اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کرتے ہیں اور پارلیمانی پارٹی کے ارکان پارٹی کی پالیسی پر عمل کے پابند نہیں ہوتے۔ اس کے ساتھ ہی بینچ نے کیس کی سماعت 16جون صبح ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔ جسٹس امین الدین خان کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کوایک سماعت ملے گی۔اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں رحم کی اپیل کروں گااورمجھے پتا ہے کہ میری درخواست منظورہوجائے گی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ نظرثانی درخواستیں دائر کرنے والوں نے ایک گھنٹہ وقت لیااور مدعا علیہان 20گھنٹے مانگ رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ درخواست گزاروں اور مدعاعلیہان کودونوں کے وکیل بن جائیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ26 ویں ترمیم کے بعد کیس سننا ہماری مجبوری ہے۔ فیصل صدیقی نے بینچ کے ارکان کو عیدالاضحی کی ایڈوانس مبارکباد بھی دی۔ ZS
#/S





