اولین ترجیحات میں ٹیکس بیس کا اضافہ اور غریب آدمی پر ٹیکس کے بوجھ میں مزید کمی شامل ہیں، مصنوعی ذہانت کے ذریعے ٹیکس اسیسمنٹ نظام کا اطلاق بڑی کامیابی ہے،وزیروزیرِ اعظم
وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹائیزیشن، مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی نظام کے اطلاق اور دیگر اصلاحات پرجائزہ اجلاس ہوا۔
اسلا م آباد(صباح نیوز)
وزیرِ اعظم نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ٹیکس گوشوارے کا آسان اور اردو میں ہونا خوش آئند امر ہے، گوشوارے بھرنے کے عمل میں مدد کے لیے ہیلپ لائن قائم کی جائے، ڈیجیٹل-انوائسنگ کا بھی اردو میں اجرا کیا جائے، ٹیکس اصلاحات میں عام آدمی کی سہولت پر توجہ مرکوز کی جائے۔ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹائیزیشن، مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی نظام کے اطلاق اور دیگر اصلاحات پر ہفتہ وار جائزہ اجلاس ہوا۔وزیراعظم نے کہا کہ ایف بی آر کی تمام اصلاحات کی شفافیت کے تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن یقینی بنائی جائے، عوام کی سہولت کے لیے ٹیکس گوشواروں کو ڈیجیٹل، مختصر اور مرکزی ڈیٹابیس سے منسلک کرکے آسان ترین بنا دیا گیا ہے، نئے آسان ٹیکس گوشواروں سے تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ مستفید ہوگا۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ٹیکس گوشواروں (ریٹرنز) کی آسانی کے حوالے سے عوامی آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ زیادہ سے ذیادہ لوگ نئے نظام کے تحت گوشوارے جمع کروائیں، ٹیکس نظام کی اصلاحات کے مثبت ثمرات وزیرِ خزانہ، معاشی ٹیم، چیئرمین ایف بی آر اور ٹیم کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیحات میں ٹیکس بیس کا اضافہ اور غریب آدمی پر ٹیکس کے بوجھ میں مزید کمی شامل ہیں، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ٹیکس اسیسمنٹ کے نظام کا اطلاق بڑی کامیابی ہے، ایف بی آر کے اقدامات قابل ستائش ہیں۔انہوں نے ہدایت کی کہ ڈیجیٹل-انوائسنگ کے نظام میں شمولیت کے لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو خصوصی سہولت فراہم کی جائے۔وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت ایف بی آر کی ڈیجیٹائیزیشن، مصنوعی ذہانت (اے آئی ) پر مبنی نظام کے اطلاق اور دیگر اصلاحات پر ہفتہ وار جائزہ اجلاس میں وفاقی وزرا احد خان چیمہ، عطااللہ تارڑ، علی پرویز ملک، وزیرِ مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی، چیف کوآرڈینیٹر مشرف زیدی، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال اور متعلقہ اعلی حکام نے شرکت کی۔اجلاس کو ڈیجیٹل انوائسنگ، ای بلٹی، ٹیکس گوشواروں کو آسان بنانے، مصنوعی ذہانت پر مبنی اسیسمنٹ سسٹم، سینٹرل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے قیام اور کارگو ٹریکنگ سسٹم پر پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔اجلاس کو ایف بی آر کے کمانڈ اینڈ کنٹرول یونٹ کے قیام کی پیش رفت کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے لیے بِڈنگ جلد مکمل کرکے ستمبر تک اسے مکمل طور پر فعال کر دیا جائے گا، اس سے نہ صرف مرکزی ڈیٹا میسر ہوگا بلکہ فیصلہ سازی میں بھی آسانی ہوگی۔اجلاس کو مصنوعی ذہانت پر مبنی اسیسمنٹ نظام پر بھی بریفنگ دی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ بحری جہازوں کی آمد سے پہلے تاجروں کو پیشگی گڈز ڈیکلریشن بھرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے، جس کے تحت اپ-فرنٹ ڈیوٹیز اور ٹیکسز پر مکمل چھوٹ دی جائے گی، اس نظام کے اطلاق سے پیشگی گڈز ڈیکلریشن 3 فیصد سے بڑھ کر 95 فیصد سے زائد ہونے کی توقع ہے، اس طرح ایڈوانس گڈز ڈیکلریشن والے کنٹینروں کو بحری جہاز سے سیدھا فیکٹری پہنچنے کی سہولت میسر ہوگی۔اجلاس کو بتایا گیا کہ ڈیجیٹل انوائسنگ کے ذریعے تمام چھوٹے اور بڑے کاروبار خرید و فروخت کے وقت ایف بی آر کے آن لائن نظام کے ذریعے رسید کا اجرا یقینی بنائیں گے، اس نظام کے تحت آئندہ چند ماہ میں 20 ہزار کے قریب کاروبار نظام کے ساتھ منسلک ہو جائیں گے، صرف ایک ماہ کے دوران اس نظام کے تحت 11 ارب 60 کروڑ روپے کی 8 ہزار انوائسز کا اجرا ہوا۔اس نظام میں ٹیکس دہندگان کا پورٹل اور نگرانی کا ڈیش بورڈ شامل ہیں، پرال (پی آر اے ایل) کے تحت نظام سے منسلک ہونے کی سہولت بغیر کسی لاگت کے مفت فراہم کی جارہی ہے، تاجروں کی اس نظام کے حوالے سے تربیت یقینی بنائی جارہی ہے، اس نظام کے مکمل اطلاق کے بعد تاجروں کو سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی، کیوں کہ ہر خرید و فروخت خودکار طریقے سے نظام میں ریکارڈ ہورہی ہوگی۔اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر رائج نظام سے ہم آہنگ 8 ہندسوں پر مبنی مخصوص HS کوڈ فیک اور فلائنگ انوائسنگ کا خاتمہ کرے گا، ڈیجیٹل انوائسنگ کے ذریعے سیلز ٹیکس نظام کی کارکردگی کو جانچنا مزید سہل ہوگا۔اجلاس کو کارگو ٹریکنگ سسٹم اور ای-بلٹی کے نظام پر پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا، اجلاس کو بتایا گیا کہ اس نظام کے تحت اشیا کی آمدورفت کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ اور ان اشیا پر ٹیکس ادائیگی کی نگرانی ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت سے اسیسمنٹ ممکن ہوگی، جس سے ٹیکس انفورسمنٹ مزید مثر اور بہتر ہوگی۔اجلاس کو بتایا گیا کہ نظام کے پاکستان میں اطلاق اور بین الاقوامی معیار یقینی بنانے کے لیے ترکیہ سے اس حوالے سے معاونت لی جارہی ہے، حال ہی میں وزیرِ اعظم کے دورہ آذربائیجان میں ترکیہ کے صدر سے گفتگو کے بعد ترک وفد پاکستان پہنچ گیا، اور اس نظام کی پاکستان میں جلد تشکیل و اجرا کے لیے وفد کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
ایف بی آر کے اختیارات کا انکم ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں، ایف بی آر کے اضافی اختیارات پر چیمبرز کے صدور سے اہم ملاقات کل ہوگی. محمد اورنگزیب
سپر ( 19 جولائی ملک گیر ہڑتال ) وزیر خزانہ کی مذاکرات کی دعوت ( چیمبرز، ایسوسی ایشنز 15 جولائی کو طلب)
اضافی اختیارات کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اختیارات کو اسٹینڈنگ کمیٹی کی مشاورت سے اسمبلی سے منظور کروایا گیا . جو سیلز ٹیکس فراڈ کو روکنے کے لیے نافذ کیے گئے ہیں.وزیر خزانہ
گورنر اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کے صدور سے ملاقات میں پائیدار ترقی کے لیے بینکوں کے کردار پر اجلاس ہوا۔ جتنی مالیاتی اسپیس تھی اتنا ریلیف تنخواہ داروں کو دے چکے ہیں
سیلز ٹیکس فراڈ اور دیگر پر بہت سیف گارڈ لگائے ہیں، 5 کروڑ سے زائد کی بے ضابطگی پر گرفتاری کے لیے کمشنر یا 3 رکنی ایف بی آر بورڈ کی اجازت لازمی ہوگی. پریس کانفرنس
کراچی(صباح نیوز)وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے ملک بھر کے تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کو مذاکرات کے لیے 15 جولائی کو طلب کر لیا۔کراچی میں اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ 19 جولائی کی ہڑتال سے متعلق تمام چیمبرز اور ایسوسی ایشنز کا موقف بھی سنیں گے اور اپنا موقف بھی سمجھائیں گے۔ تمام چیمبرز کو موجودہ قانون کے حوالے سے پڑھ کر آنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے موجودہ قانون میں سیلز ٹیکس فراڈ اور دیگر پر بہت سیف گارڈ لگائے ہیں، 5 کروڑ سے زائد کی بے ضابطگی پر گرفتاری کے لیے کمشنر یا 3 رکنی ایف بی آر بورڈ کی اجازت لازمی ہوگی۔محمد اورنگزیب نے واضح کیا کہ ایف بی آر کے اختیارات کا انکم ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں، ایف بی آر کے اضافی اختیارات پر چیمبرز کے صدور سے اہم ملاقات کل ہوگی، اور انہیں بھی سمجھائیں گے۔ ایف بی آر کے اضافی اختیارات 5کروڑ روپے سے زائد سیلز ٹیکس غبن کرنے والے فرد پر لاگو ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے اضافی اختیارات کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ایف بی آر کے اضافی اختیارات کو اسٹینڈنگ کمیٹی کی مشاورت سے اسمبلی سے منظور کروایا گیا اور اضافی اختیارات سیلز ٹیکس فراڈ کو روکنے کے لیے نافذ کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آج گورنر اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں کے صدور سے ملاقات ہوئی، پاکستان میں پائیدار ترقی کے لیے بینکوں کے کردار پر اجلاس ہوا۔ جتنی مالیاتی اسپیس تھی اتنا ریلیف تنخواہ داروں کو دے چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مالیاتی منظرنامہ بہتر ہوا جس کے باعث بینکوں کی لیکویڈیٹی بڑھی ہے، بینکوں کی جانب سے اب نجی شعبے کو قرضوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ زرعی شعبے کے ساتھ ایس ایم ایز فنانسنگ میں بہتری آئی ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ نجکاری کمیشن کو 24 ایس او ایز کی نجکاری کے لیے حوالے کر دیا گیا ہے، نجکاری بالخصوص پی آئی اے کے حوالے سے بینکوں کا اہم کردار ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بیمار صنعتوں کی بحالی میں بینکوں کو اسپانسرز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے، خسارے میں جانے والے ریاستی اداروں کی بحالی کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان کا بینکنگ سیکٹر ملکی معیشت کو مسلسل سپورٹ کر رہا ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس کا تازہ سروے ملکی معیشت کے استحکام کا مظہر ہے، مقامی اور بیرونی سرمایہ کاروں کو یکجا کرکے آگے بڑھنا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو منافع کی صورت میں 2ارب 30کروڑ ڈالر ادا کر دیے ہیں، ملٹی نیشل کمپنیوں کے ریفنڈ مسائل کو جلد حل کر لیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ملکی ترسیلات زر کا حجم قابل تحسین ہے اور آئندہ دنوں میں ملکی اشاریے مزید بہتر ہوں گے، رواں ماہ 75ارب روپے کے سیلز ٹیکس ری فنڈ ادا کر دیے گئے ہیں۔ سرکاری اداروں کے خسارے کی رپورٹ منظر عام پر ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو ان میں سرمایہ کاری کا کہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں کو ماہانہ بنیاد پر ای سی سی خصوصی طور پر فوکس کر رہی ہے، اسٹرکچرل سلوشن کے لیے ڈی ریگولیشن فارمولے کو ہر صورت اپنانا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ مکئی، چاول اور دالوں کی قیمتوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ موجودہ معاشی استحکام کو پائیدار نمو کی طرف کیسے لے کر جائیں اس پر آرا لینی چاہیے، کون سا وزیرِ خزانہ ہے جو تیز نمو نہیں چاہتا؟ فارما سیکٹر بہت بہتر ہو رہی ہے اور انہوں نے تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی بار بین الاقوامی کمپنیاں مختلف ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر آپریشنز بند کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کموڈٹیز اور چینی کی قیمتوں پر ای سی سی ماہوار مانیٹرنگ کر رہا ہے، پاکستان میں تمام سیکٹرز کو ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے تو بہتری آئے گی۔ چینی اور گندم کی اسمگلنگ کے لیے وزارتِ خوراک اور مجموعی طور پر کابینہ کام کر رہی ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے او آئی سی سی آئی کی اعلی قیادت کو اسلام آباد مدعو کیا ہے،انہوں نے کہا کہ بیمار صنعتوں کو دوبارہ فعال کرنے میں بینکوں کا اہم کردار ہوسکتا ہے، مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، حکومت نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے، ہم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل کو بھی سنا ہے اور معاشی استحکام میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کیا۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا منافع باہر جانے، ایل سی نہ کھلنے کے مسائل ختم ہوگئے، 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں ملٹی نیشنلز کا 2 ارب 30 لاکھ ڈالر کا منافع باہر گیا ہے، ایف بی آر کی اضافی طاقت کا انکم ٹیکس سے نہیں بلکہ سیلز ٹیکس سے تعلق ہے۔انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے رواں ماہ کے دوران 75 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز جاری کیے جا چکے ہیں، جو کاروباری طبقے کے اعتماد کی بحالی کی جانب اہم قدم ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بلاشبہ ہر وزیر خزانہ کی خواہش ہوتی ہے کہ ملک میں فوری طور پر شرح نمو میں اضافہ ہو، لیکن ایسا کرنا زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دبا کا باعث بنتا ہے، جس سے معیشت دوبارہ غیر مستحکم ہو سکتی ہے
#/S





