عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 اگست تک جواب طلب کر لیا۔ جسٹس ارشد علی اور جسٹس خورشید اقبال نے درخواست کی سماعت کی
لیڈ (پشاور ہائیکورٹ) اپوزیشن لیڈرز کی تقرری روک دی
عدالت عالیہ کو وکیل گوہر علی خان نے آگاہ کیا کہ آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت درخواست گزار کو نااہل کیا گیا، الیکشن کمیشن کا ممبران کو نااہل کرنا غیر قانونی اور غیر موثر ہے، رولز آف بزنس کے 67 (2) کے تحت اپوزیشن لیڈر کا انتخاب کیا جاتا ہے، 60 دن گزرنے کے بعد الیکشن کمیشن کسی کو نااہل نہیں کرسکتا ہے۔
اپنے دلائل میں بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ سیکشن 213 کے تحت صرف الیکشن کمیشن ایڈمنسٹریٹو اختیار استعمال کرسکتا پے، کسی ممبر کو نااہل کرنے کے لیے سپیکر کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجنا لازمی ہے، 14 مختلف طریقوں اور خلاف وزریوں پر ممبر کو نااہل کیا جاسکتا ہے۔
دلائل جاری رکھتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ عدالت مناسب سمجھے تو اس کیس کو لارجر بنچ کو دے دے، الیکشن کمیشن ایک غلطی کر رہا ہے، 9 مئی ایک افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اے ٹی سی میں 88 مقدمات درج گئے ہیں، ایم این اے عبد الطیف کو دس سال کی سزا سنائی گئی ، عمر ایوب اور دیگر رہنمائوں کے خلاف عبد الطیف کا کیس بنیاد بنا کر کارروائی کی گئی ہے، یہ وہ غلطی ہے جو الیکشن کمیشن کر رہا ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے خود کو مس گائیڈ کیا ہے، آرٹیکل 63(2) کی غلط تشریح کی گئی ہے، الیکشن کمیشن سید یوسف رضا گیلانی کے کیس کا حوالہ دے رہا ہے جو یہاں ٹھیک نہیں ہے، سید یوسف رضا گیلانی کا کیس اس کیس سے بالکل مختلف تھا، ہماری درخواست ہے الیکشن کمیشن کو مزید کارروائی سے روک دیں۔
عدالت عالیہ نے الیکشن کمیشن اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 15 اگست تک جواب طلب کر لیا۔





