چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اقدامات چیلنج ،پانچ جج سپریم کورٹ پہنچ گئے
اسلام آباد( ویب نیوز)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اختیارات اور اقدامات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس اعجاز اسحق خان نے علیحدہ علیحدہ درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کیں۔ درخواستوں میں ججوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ انتظامی اختیارات کو ہائی کورٹ کے ججوں کے عدالتی اختیارات کو کمزور کرنے یا ان پر غالب آنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ درخواستوں میں کہا گیا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اس وقت جب کسی بینچ کو مقدمہ دیا جا چکا ہو، نئے بینچ تشکیل دینے یا مقدمات منتقل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے دستیاب ججوں کو فہرست سے خارج نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس اختیار کو ججوں کو عدالتی ذمہ داریوں سے ہٹانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا گیا کہ بینچوں کی تشکیل، مقدمات کی منتقلی اور فہرست جاری کرنا صرف ہائی کورٹ کے تمام ججوں کی منظوری سے بنائے گئے قواعد کے مطابق کیا جا سکتا ہے، جو آئین کے آرٹیکل 202 اور 192(1) کے تحت اختیار کیے گئے ہیں۔درخواست گزاروں نے مزید استدعا کی کہ بینچوں کی تشکیل، روسٹر ہائی کورٹ رولز اور مقدمات کی منتقلی سے متعلق فیصلہ سازی صرف چیف جسٹس کے اختیار میں نہیں ہو سکتی اور ماسٹر آف دی روسٹر کے اصول کو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں ختم کر دیا گیا ہے۔درخواستوں میں یہ بھی کہا گیا کہ 3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹی فکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں اور ان کے اقدامات قانونی بدنیتی پر مبنی، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان نوٹی فکیشنز اور کمیٹیوں کے تمام اقدامات کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔مزید کہا گیا کہ غیر قانونی طور پر تشکیل دی گئی انتظامی کمیٹی کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز 2025 کی منظوری اور ہائی کورٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر نوٹی فکیشن جاری کرنا آئین کے آرٹیکل 192(1) اور 202 کی خلاف ورزی ہے، اور ستمبر میں اس کی توثیق بھی غیر قانونی اور بے اثر ہے۔ججوں نے اسدعا کی کہ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہدایت دے کہ وہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری پر موثر نگرانی اور نگران عمل کرے، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 203 میں درج ہے، تاکہ ہر ہائی کورٹ اپنے ماتحت عدالتوں کی نگرانی اور کنٹرول کر سکے۔درخواست گزار وںنے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ یہ اعلان کرے کہ ہائی کورٹ اپنے لیے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت کوئی رٹ جاری نہیں کر سکتی، آرٹیکل 199 ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ نہ تو کسی سنگل بینچ کے عبوری فیصلوں پر اپیل کے لیے اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی یہ کسی سنگل بینچ کے کارروائیوں پر ایسا کنٹرول اختیار کر سکتا ہے جیسے وہ کوئی زیریں عدالت یا ٹریبونل ہو۔درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ ہائی کورٹ کا جج صرف آرٹیکل 209 کے تحت عدالتی کام کرنے سے روکا جا سکتا ہے اور کسی جج کو عہدے سے ہٹانے کے لیے رٹِ قو وارانٹو دائر کرنا درست نہیں ہے۔آرٹیکل 209 آئین کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی صلاحیت اور رویے کی تحقیقات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔درخواست گزاروں نے اپنا بیان کا اختتام کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وہ اس کیس کے حالات کے مطابق کوئی اور ریلیف بھی دے جو مناسب سمجھا جائے




