ججوں کا جواختیار ہے وہ آئین کے تحت ہے جسٹس امین الدین خان
آئینی بینچ میں 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت
اسلام آباد( ویب نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فل کورٹ بنانے کاحکم دے کرہم اُن ججز کواختیار تفویض کریں گے جن کو کیس سننے کااختیار نہیں۔ اگر کسی جج کے پاس کوئی دائرہ اختیارنہیں تواسے وہ دائرہ اختیارتفویض نہیں کیاجاسکتا۔ جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی ہے، عدالتی اختیار ات کی اپنی بات ہے۔ اگر یہ کہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے اختیارات کم ہیں اور ہمارے اختیارات زیادہ ہیں ، جواُن کواختیار ہے وہ آئین کے تحت ہے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی نظرثانی کااختیار ہے، اگرجوڈیشل کمیشن کوئی غیرآئینی حکم جاری کرتا ہے تواس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی دائرہ اختیار ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قراردے۔ اگر نئے تعینات ہونے والے ججوں کو واپس ہائی کورٹس میں بھجوادیں توآئین ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہائی کورٹس سے ججز کو سپریم کورٹ لا کر بینچ میں بٹھاسکتے ہیں۔گزشتہ روز جوکچھ ہوا نہیں ہونا چاہیئے تھا تاہم یہ زیادہ سنجیدہ معاملہ نہیں۔ جبکہ محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگرہم فل کورٹ بنائیں تو کیا آئین کے آرٹیکل 175کے تحت اختیارات سے تجاوز نہیں ہوگا ہم پوراکیس سن سکتے ہیں ، سارے آئینی بینچ کے نامزد ارکان کواپنے ساتھ بٹھا سکتے ہیں تاہم فل کورٹ نہیں بناسکتے۔ جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آرٹیکل 191-Aمیں آئینی بینچ پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو فل کورٹ بنانے کے حوالہ سے ہدایات نہیں دے سکتا، کیا اس باڈی کوہدایات نہیں دی جاسکتیں۔ درخواست گزاروں کامطالبہ ہے کہ 26ویں ترمیم سے قبل موجود ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائی جائے اس کی وجوہات بتائیں کیوںاس حوالہ سے حکم جاری کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،مسز جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہررضوی، مس جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 8رکنی بینچ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل ،امیرجماعت اسلامی پاکستان انجینئرحافظ نعیم الرحمان، سردارمحمد اختر جان مینگل، صدر لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن ، صدر لاہور بارایسوسی ایشن مبشر رحمان چوہدری، بلوچستان بارکونسل ، بلوچستان ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، صدر کراچی بارایسوسی ایشن، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، پشاور ہائی کورٹ بارایسویس ایشن ایبٹ آباد بینچ اوردیگرکی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر 37درخواستوں پرسماعت کی۔کیس کی سماعت براہ راست سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر دکھائی گئی۔ پاکستان بارکونسل کے 6ممبران کے وکیل سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان عابد شاہد زبیری نے چوتھے روز اپنے دلائل مکمل کرلیے۔سماعت کے آغاز پرجسٹس جمال مندوخیل کاکاعابدزبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امید ہے کہ آج آپ دلائل ختم کرلیںگے۔ جبکہ سینئر وکیل محمد اکرم شیخ نے روسٹرم پر آکر کہا کہ بینچ کورٹ یسوسی ایٹ شاہد حبیب انصاری سے کہے کہ وہ بسم اللہ سے کیس کی سماعت شروع کیاکریں اس سے مزاج دھیمہ رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی برکت شامل رہتی ہے۔ اکرم شیخ کاکہنا تھا کہ مجھے وکالت کرتے 50سال سے اوپر ہوگئے ہیں جن کیسز کے دیگر وکلاء نے حوالے دیئے میں ان سب میں عدالت میں موجودتھا۔ جسٹس امین الدین خان کااکرم شیخ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پروقت کی کوئی پابندی نہیں ہوگی گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ گزشتہ روز جوکچھ ہوا نہیں ہونا چاہیئے تھا تاہم یہ زیادہ سنجیدہ معاملہ نہیں۔ عابدزبیری کاکہنا تھا کہ آئینی بینچ کی کمیٹی 15رکنی لارجر بینچ بناسکتی ہے ،دیگر ججز کوشامل نہیں کرسکتی، دوسری کمیٹی آئینی بینچ والوں کوبھی بٹھا سکتی ہے کیونکہ آپ لوگ بھی ریگولربینچز میں بیٹھتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر کسی جج کے پاس کوئی دائرہ اختیارنہیں تواسے وہ دائرہ اختیارتفویض نہیں کیاجاسکتا۔ عابدزبیری کاکہنا تھا کہ ججز کے فل کورٹ کے طور پر بیٹھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سوال اوردن پہلی سماعت سے آج تک ایک جیسے ہی ہیں، آئینی بینچ آرٹیکل 191-Aکے تحت بنا ہے اورجوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ججز کونامزدکیا گیا ہے، ہم سارے ارکان کابینچ بناسکتے ہیں یاایک سے زیادہ بینچ بناسکتے ہیں، کیا فل کورٹ بنانے کاہمارااختیار ہے،کیا ہم آئینی بینچ میں بیٹھ کر آئینی بینچ کے ججز کی تعداد بڑھاسکتے ہیں، ہمیں جوڈیشل کمیشن نے نامزدکیا ہے، فل کورٹ بنانا ماضی کی بات ہے،اگرہم فل کورٹ بنائیں تو کیا آئین کے آرٹیکل 175کے تحت اختیارات سے تجاوز نہیں ہوگا، ہم پوراکیس سن سکتے ہیں ، سارے آئینی بینچ کے نامزد ارکان کواپنے ساتھ بٹھا سکتے ہیں تاہم فل کورٹ نہیں بناسکتے۔ عابدزبیری کاکہنا تھا کہ آرٹیکل 175میں عدالتی حکم دینے اختیار دیا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ فل کورٹ بنانے کاحکم دے کر ہم اُن ججز کواختیار تفویض کریں گے جن کو کیس سننے کااختیار نہیں، چیف جسٹس کامعاملہ ریفرکرنا اوربات ہے، اب توچیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں بلکہ کمیٹی کے پاس ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ وکیل کی بات میں وزن ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس یاکمیٹی فل کورٹ بناسکتی ہے تاہم آئین کے آرٹیکل 191-A-3کے تحت آنے والے کیسز کیا آئینی بینچ کے علاوہ دوسرے بینچ کوبھجوائے جاسکتے ہیں، میرا یہ سوال ہے، 191-A-3پڑھیں اور5کی بھی آخری لائن پڑھیں،میری انگریزی اتنی اچھی نہیں میں سمجھنا چاہتا ہوں تاکہ ہم آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کریںاور ہم سے غلط فیصلہ نہ ہوجائے۔جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ یہ بینچ جوڈیشل کمیشن کوہدایت کرے کہ مزید ججز کو بینچ میں نامزدکیا جائے ، کیااس میں کوئی پابندی ہے، پابندی یہ ہوتی ہے کہ کوئی چیز ہوہی نہیں سکتی،آرٹیکل 191-Aمیں آئینی بینچ پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو فل کورٹ بنانے کے حوالہ سے ہدایات نہیں دے سکتا، کیا اس باڈی کوہدایات نہیں دی جاسکتیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ آپ خود سے آئین کواپنے مطابق پڑھنا شروع کریں، ایک ہائی کورٹ جج کانام سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لئے جوڈیشل کمیشن میں آتا ہے اوروہ وہاں سے منظور نہیں ہوتا، اس کے بعد ہم کہیں کہ جوڈیشل کمیشن کاکوئی اختیار نہیں اورہم اسے جج سمجھنا شروع کردیں، جوڈیشل کمیشن کی اپنی اتھارٹی ہے، عدالتی اختیار ات کی اپنی بات ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی نظرثانی کااختیار ہے، اگرجوڈیشل کمیشن کوئی غیرآئینی حکم جاری کرتا ہے تواس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس عدالتی دائرہ اختیار ہے کہ اس فیصلے کو کالعدم قراردے، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن تمام ججوں کوآئینی بینچ کاحصہ بنادوتوآپ لوگوں نے کہانہیں، آپ لوگ کہتے ہیں ہمیں تو 16چاہیں، جوڈیشل کمیشن سب کو نامزدکرسکتا ہے ، پاکستان بار کانمائندہ ، حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے جوڈیشل کمیشن میں موجود ہیں کوئی بھی کہہ سکتا ہے سب ججز کو آئینی بینچ کے لئے نامزد کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ فرض کریں کہ کل کوکمیشن ہم آٹھ یا15میں سے دو، چار، پانچ کو آئینی بینچ سے نکال دے توکیا ہم اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کوہدایت دیں کہ وہ ہمیں دوبارہ آئینی بینچ میں نامزدکرے۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کسی کونامزد نہ کرے اوروہ کہیں کہ کوئی آئینی بینچ نہیں ہے، توکیااُن وہ بات رہے گی اور سپریم کورٹ سوال نہیں اٹھائے گی کہ کیوں وہ اپنا دائرہ اختیاراستعمال نہیں کررہے، یاسپریم کا دائرہ اختیارختم ہوجائے گا، دائرہ اختیارسپریم کورٹ کا ہے، آئینی ترمیم کہتی ہے کہ مخصوص بینچز مخصوص کیسز سنیں گے، کیس کی سماعت کے لئے فل کورٹ بنانے کی بات قابل فہم ہے کیونکہ اہم کیسز میں فل کورٹ بنتی رہی ہے، درخواست گزاروں کامطالبہ ہے کہ 26ویں ترمیم سے قبل موجود ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائی جائے اس کی وجوہات بتائیں کیوںاس حوالہ سے حکم جاری کیا جائے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر یہ کہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے اختیارات کم ہیں اور ہمارے اختیارات زیادہ ہیں ، جواُن کواختیار ہے وہ آئین کے تحت ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کمیشن کاختیار ہے کہ ججز کونامزد کرے ،وہ مزید ججز کوبھی نامزد کرسکتا ہے، سب کونامزد کرسکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کمیٹی کااختیار بینچ بنانے کاہے فل کورٹ بنانے کانہیں، پھر کیاہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا وکیل کاسب سے بڑا سوال کیا ہے ہم کمیشن کوبھیجیں یا خود فل کورٹ بنائیں۔ اس پر عابدزبیری کاکہنا تھا کہ آپ فل کورٹ بنائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہم یہاں سے بھجیں گے توپتاچلے گاکہ کمیشن کرے گا یانہیں کرے گا، آپ کااصولی مئوقف کیا ہے کیاآپ چاہتے ہیں کہ ہم فل کورٹ بنائیں یا جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کومعاملہ ریفر کریں۔ عابدزبیری کاکہنا تھا کہ میرامئوقف ہے کہ آپ معاملہ چیف جسٹس کوبھیجیں۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کمیشن کے پاس بینچ بنانے کااختیار نہیں، وہ ہمیں صرف ایک پینل دیتا ہے اور بینچ بنانا کمیٹی کااختیار ہے، ذیلی شق نمبر4میں بتایاگیا ہے کہ تین سینئرترین جج کمیٹی میں شامل ہوں گے، وہ بیٹھ کر بینچ بناسکتے ہیں فل کورٹ نہیں، اگر فل کورٹ کمیٹی نے بنانی ہے اور دوارکان انکار کردیتے ہیں تو پھر فل کورٹ نہیں بن سکتی، پھر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چیف جسٹس فل کورٹ بنائے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاعابدزبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے کوئی ریسرچ کی ہوگی پاکستان میں توابھی آئینی بینچ بنے ایک سال ہوا ہے، عالمی سطح پر دوسرے ملکوں میں آئینی بینچ پہلے سے بنے ہوئے ہیں، اگروہاں یہ وہاں صورتحال پیداہوتی ہے وہاں پر کیا ہوتا ہے، کیآپ کے پاس کوئی ایسی نظیر ہے کہ انہوں نے کسی آئینی بینچ کے علاوہ کسی ممبر کوریفر کیا ہوچاہے وہ چیف جسٹس ہی کیوں نہ ہو۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کمیٹی بھی کمیشن کودرخواست کرسکتی ہے کہ تعداد بڑھائی جائے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر 16ارکان ہوں گے تواُس کی بھی اپیل نہیں ہوسکے گی۔عابدزبیری کاکہنا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں توچیف جسٹس کوہدایت دے سکتے ہیں کہ 24ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائیں۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ کیا26ویں ترمیم کے بعد کبھی بھی فل کورٹ نہیں بیٹھ سکتی، کیا 26ویں ترمیم کے بعد فل کورٹ کی درخواست نہیں دی جاسکتی، اپنے دلائل آگے بڑھائیں کہ کیوں 16رکنی بینچ بنایاجائے۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا 26ویں ترمیم کے بعد آنے والے ججز نہیں۔اس پر وکیل بیرسٹر سید صلاح الدین احمد کاکہنا تھا کہ وہ ججز ہیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کے زریعہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سے ووٹنگ کرواسکتے ہیں، کیا ہم عدالتی حکم کے زریعہ جے سی پی کو ہدایت دے سکتے ہیں کہ تمام ججز کواس کیس کے لئے آئینی بینچ میں شامل کریں، وہاں ووٹنگ ہوتی ہے کیاہم عدالتی حکم سے ووٹنگ کے پراسیس کو بائی پاس کرواسکتے ہیں یاجب ہم بھیجیں گے تووہ ووٹنگ میں بیٹھ کر وہ اُن 8یا10ججز کے حوالہ سے ووٹ ہی نہ دیں اوروہ ہمارے حکم کے باوجود نہ آپائیں تواس کاکیا اثرہوگا، کیا ہم ووٹنگ کے پراسیس کوجوڈیشل آرڈر سے روک سکتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی صوابدید ہے کہ وہ بندے دیں گے اورایسا ووٹنگ کے زریعہ ہوگا۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کمیٹی نے کہایہ جج دیں توکمیشن نے کہا آپ مخصوص نا م نہ لیں یہ کمیشن کی مرضی ہے جس کوبھی نامزد کرے، آرٹیکل 175میں لکھا ہے کہ نامزدگی اکثریت اورووٹنگ سے ہوگی توکیاہم اس شق کو غیر مئوثر کردیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ میں نے کہاتھا کہ بطور آئینی بینچ سربراہ میراصوابدیدی اختیار ہے کی آئینی بینچ میں نامزدگی کے لئے نام تجویز کروں ، یہ باتیں ہوچکی ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کمیٹی کوبھجیں گے توانہیں کیا کہیں گے کمیٹی کے سارے ارکان تویہاں بینچ میں بیٹھے ہیں۔ عابدزبیری کاکہنا تھا کہ اگر16ججزسنیں گے تو پھر اس کی اپیل نہیں ہوگی۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس 26ویں ترمیم کے تحت بنے ہیں اور جسٹس منصورعلی شاہ ترمیم سے متاثرہ ہیں، پھر جسٹس امین کے پاس کیس جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ججز کواختیار کس نے دیا ہے۔ اس پر عابدزبیری کاکہنا تھا کہ آئین نے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئینی بینچ کوبھی آئین نے اختیاردیا ہے۔ عابدزبیری کاکہنا تھا کہ ججز کے پاس عدالتی اختیار ہے یہ نہیں لکھا کہ فل کورٹ نہیں بن سکتی۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیاکمیٹیوں کے زریعہ بینچز میں کیسز ک تقسیم کوبھی درخواستوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوئی فیصلہ دکھادیں کہ کوئی ترمیم ہوئی ہو اور اُس ترمیم کو دیکھے بغیر کیس سنیں۔ عابدزبیری کاکہنا تھا کہ 2ویں ترمیم آئین کاحصہ ہے اسی لئے توچیلنج کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر نئے تعینات ہونے والے ججوں کو واپس ہائی کورٹس میںبھجوادیں توآئین ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہائی کورٹس سے ججز کو سپریم کورٹ لا کر بینچ میں بٹھاسکتے ہیں، میاں گل حسن اورنگزیب ایکٹننگ جج ہیں، کیوں نئے بھرتے ہوالوں کو بینچ میں بٹھانے کے معاملہ پر شرما رہے ہیں۔عابدزبیری کاکہنا تھا کہ انہوں نے ترمیم میں الیکشن کمیشن کامعاملہ بھی چیلنج کیاہے اورکچھ چیزوں کوچیلنج نہیں کیا، ترمیم پر بڑااعتراض یہ ہے کہ طریقہ کاردرست نہیں تھا، ہماراچیلنج عدلیہ کی آزادی کے حوالہ سے ہے۔عابد زبیر ی نے اپنے دلائل مکمل کرلیئے۔آئندہ سماعت پرسینئر وکیل اکرم شیخ دلائل کاآغاز کریں گے۔ بینچ کے سربراہ کاکہنا تھا کہ آج (جمعرات)کوسپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کاالیکشن بھی ہے، ٹیکس کاکیس بھی چل رہا ہے اس لئے مزید سماعت سوموار کودن ساڑھے 11بجے کریں گے۔ ZS
#/S





