سپریم کورٹ میں 24ججز ہیں، چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی 26ویں ترمیم کوتسلیم کرلیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل

حامد خان نے کہا کہ 16ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائی جائے ، کیا ہم آئینی اورقانونی طور پر فل کورٹ بنائیں۔

 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر 37درخواستوں پرسماعت ۔ کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمارا کیامفاد ہے، ہم نے گالیاں بھی بہت کھائی ہیں،جو مرضی ہوتا رہے، بلاخوف وخطر کام کرنا ہمارے حلف کاحصہ ہے۔  کیا ہم آئین کے آرٹیکل 191-A-3کو نظرانداز کردیں۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اس وقت ہم سپریم کورٹ میں 24ججز ہیں اور سب ججز نے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے 26ویں ترمیم کوتسلیم کرلیا ہے۔ بار بار بات کی جاتی ہے کہ جوججز 26ویں ترمیم کے بعد تعینات ہوئے ہیں، ہم توچلیں اس سے پہلے کے ہیں، وہ ہمارے ساتھی ہیں،کیاوہ کسی او رملک سے لاکرلگائیں گئے ہیں، اگر 26ویں ترمیم نہ ہوتی توپھر بھی یہی ججز لگتے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آئینی طور پرسپریم کورٹ میں آیا ہواجج واپس چلاگیا ہو، میں پی سی اوکی بات نہیں کررہا۔26ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ آنے والے ججز کے معاملہ پرپاسٹ اینڈ کلوز ڈ ٹرانزیکشن کااصول لگے گا۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا یہ اختیارات سے تجاوز نہیں ہوگا کہ اگر ہم فل کورٹ بنانے کی ہدایت دیں۔ اگر191-Aکو نظرانداز کردیں تو پھر ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھنا ہی نہیں چاہیئے اور ہمیں بینچ میں بیٹھنے سے انکارکردینا چاہیئے۔ اگر تمام ججز کوآئینی بینچ میں شامل کرلیا جائے توکیایہ سب درخواست گزاروں کوقابل قبول ہوگا، پھر کیا یہ ایشونہیں آئے گا کہ جوڈیشنل کمیشن تعینات کرنے والی اتھارٹی ہے اورغلط یا درست طور پرایسا کررہا ہے۔ 26ویں ترمیم کے تحت جو ججز آئے ان کی تعداد الگ قانون کے تحت بڑھائی گئی ہے ججوں کے آنے یا جانے کاآئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، آئینی ترمیم میں ججز کی تعداد نہیں بڑھائی گئی ۔جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا فل کورٹ بنانے پر کوئی پابندی ہے۔کیا جوڈیشل آرڈر جاری کرنے کے حوالہ سے کوئی پابندی ہے۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمیں 26ویں ترمیم سے پہلے کی پوزیش پرجانا پڑے گا اورہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیا یہ ترمیم بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہوئی ہے یا آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہوئی ہے، لہذا ہمیں پوائنٹ زیرو پرجانا پڑے گا، میرے خیال میں صرف اُن ججز کوبینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیئے جو26ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں تعینات ہوئے ہیں ۔ یہ کیس کافیصلہ ہونے کے بعد ہوگا کہ 26ویں ترمیم کے تحت بھرتی ہونے والے ججز سپریم کورٹ میں رہیں گے یاواپس جائیں گے۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،مسز جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہررضوی، مس جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 8رکنی بینچ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل ،امیرجماعت اسلامی پاکستان انجینئرحافظ نعیم الرحمان، سردارمحمد اختر جان مینگل، صدر لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن ، صدر لاہور بارایسوسی ایشن مبشر رحمان چوہدری، بلوچستان بارکونسل ، بلوچستان ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، صدر کراچی بارایسوسی ایشن، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، پشاور ہائی کورٹ بارایسویس ایشن ایبٹ آباد بینچ اوردیگرکی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر 37درخواستوں پرسماعت کی۔ کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی۔سماعت کے آغاز پربلوچستان بار کونسل اور بلوچستان ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے وکیل منیراحمد ملک کاکہنا تھا کہ میں توویڈیو لنک کے زریعہ کراچی سے دلائل دینا چاہتا تھا۔ اس پر جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اہم کیسز پر ویڈیو لنک پر دلائل دینا بہترنہیں لگتا۔منیر ملک کاکہنا تھا کہ وہ حامد خان کے دلائل کی حمایت کرتے ہیں اور اپنی گزارشات بھی پیش کریں گے۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ حامد خان نے توکہا کہ آئینی ترمیم کوسائیڈ پررکھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ حامد خان نے کہا کہ 191-Aکو نظرانداز کردیں۔

اس پر منیر ملک کاکہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم آئین میں موجود ہے اس لئے ہم نے اسے چیلج کیا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ آج ہم 24ججز ہیں، حامد خان نے کہا کہ 16ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائی جائے ، کیا ہم آئینی اورقانونی طور پر فل کورٹ بنائیں۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ دانش یہی تقاضہ کرتی ہے کہ فل کورٹ بنائیں۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ میںفل کورٹ کے لئے جوڈیشل آرڈر چاہتا ہوں۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ میرے ساتھ آئین کاآرٹیکل 191-Aپڑھیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ فل کورٹ کی کہاں تعریف کی گئی ہے، فل کورٹ کیا ہے، کیاآئین ، قانون اوررولز میں اس کی تشریح کی گئی ہے۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم سے قبل موجود تمام ججز کوبیٹھنا چاہیئے۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ کیا فل کورٹ بنانے پر کوئی پابندی ہے۔ اس پر منیر ملک کاکہنا تھا کہ کوئی پابندی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا آئینی بینچ فل کورٹ بناسکتا ہے ، کیاہم چیف جسٹس اوردیگر ججز کوہدایات دے سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر فل کورٹ میں بیٹھیں،کیاآئین کے آرٹیکل 191-Aمیں لکھا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم کس کوہدایت دیں گے۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ اگر یہ بینچ جوڈیشل آرڈر کرتا ہے توپھر آئین کے آرٹیکل 189کے تحت تمام حکام حکم ماننے کے پابند ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا یہ اختیارات سے تجاوز نہیں ہوگا کہ اگر ہم فل کورٹ بنانے کی ہدایت دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کیس کے وقت آئینی بینچ نہیں تھا صرف سپریم کورٹ تھی، سپریم کورٹ نے آئینی ترمیم کودرست قراردیا ، ترمیم میں دوسال کے لئے فوجی عدالتیں بنانے کا کہا گیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر ہم فل کورٹ بنانے کاحکم دیں توکیاہم سپریم کورٹ کہلائیں گے۔ منیر ملک کاکہناتھا کہ فل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ یہ کیس فل کورٹ نے سننا ہے یاآئینی بینچ نے سننا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ 191-A-1میں کسی بھی جج کوآئینی بینچ میں شامل کیا جاسکتا ہے، آج ہم ہیں کل ہم نہیں ہوں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیا ہم 191-A-3کو نظرانداز کردیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئینی بینچ کی کمیٹی 5رکنی بینچ بناتی ہے کیاچیف جسٹس حکم کرسکتے ہیں کہ فل کورٹ کیس سنے گی۔جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ کیا جوڈیشل آرڈر جاری کرنے کے حوالہ سے کوئی پابندی ہے۔ اس پر منیر ملک کاکہنا تھا کہ کوئی پابندی نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر191-Aکو نظرانداز کردیں تو پھر ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھنا ہی نہیں چاہیئے اور ہمیں بینچ میں بیٹھنے سے انکارکردینا چاہیئے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر یہ سپریم کورٹ کابینچ ہے توپھر اس کوفیصلہ کرنے دیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اس بینچ پر اعتراض ہے کہ یہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بنا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ آئینی بینچ کی کمیٹی نے کیس اس بینچ کے سامنے لگایا اس لیے ہم سن رہے ہیں، کمیٹی کے پاس سارے ججز کوبیٹھنے کاکہنے کااختیار نہیں، دوسری کمیٹی بھی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کمیٹی کسی دوسرے کوکیس نہیں بھیج سکتی۔ جسٹس جمال مندوخیل کامنیر ملک کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 268-1پڑھیں ساری صورتحال واضح ہوجائے گی، یہاں ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہماری مجبوری سمجھیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ہمیں 26ویں ترمیم سے پہلے کی پوزیش پرجانا پڑے گا اورہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیا یہ ترمیم بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہوئی ہے یا آئین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہوئی ہے، لہذا ہمیں پوائنٹ زیرو پرجانا پڑے گا، میرے خیال میں صرف اُن ججز کوبینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیئے جو26ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں تعینات ہوئے ہیں ۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ بار بار بات کی جاتی ہے کہ جوججز 26ویں ترمیم کے بعد تعینات ہوئے ہیں، ہم توچلیں اس سے پہلے کے ہیں، وہ ہمارے ساتھی ہیں،کیاوہ کسی او رملک سے لاکرلگائیں گئے ہیں، اگر 26ویں ترمیم نہ ہوتی توپھر بھی یہی ججز لگتے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھاکہ 26ویں ترمیم کے تحت جو ججز آئے ان کی تعداد الگ قانون کے تحت بڑھائی گئی ہے ججوں کے آنے یا جانے کاآئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، آئینی ترمیم میں ججز کی تعداد نہیں بڑھائی گئی ، نئے تعینات ہونے والے ججز آئینی ترمیم کے بینفشری نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ان ججز میں سے چارہائی کورٹس سے چیف جسٹسز تھے، ایسانہیںہونا چاہیئے۔اس موقع پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ ججز کی تعداد 1997کے ایکٹ کے تحت بڑھائی گئی ہے۔منیر ملک کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم اور ایکٹ کامقصد سپریم کورٹ کی نئی شکل بنانا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم سے ججز کی تعیناتی کاتعق نہیں۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو مل کربیٹھنے کے خلاف ہرکوشش کی مزاحمت کرنی چاہیئے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے حوالہ سے میں بتادوں کہ چیف جسٹس اورمیرے سمیت سینئر ججز نے ہمیشہ مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئینی بینچ کاحصہ ہونا چاہیئے ، فرض کریں کہ آج اگر یہ بات مان لی جائے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کاآئینی بینچ بنادیاجاتا ہے توپھر کیاآپ مطمئن ہوں گے۔منیر ملک کاکہنا تھا کہ آئینی بینچ ہویاریگولر بینچ میں اتنا جانتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے پاس آئینی اختیار ہے کہ وہ آئین کاجائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہمیں وہ راستہ بتادیں کہ جس کے زریعہ سارے ججز بیٹھ جائیں ، یہ سیدھی سی بات ہے۔منیر ملک کاکہنا تھا کہ ہم تمام وکلاء آپس میں بات کریں گے تاہم پہلے وکلاء دلائل دیں۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ اگر بینچ اس نتیجہ پرپہنچتا ہے کہ فل کورٹ بننی چاہیئے تواسے کسی کوہدایات دینے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف یہ کہنا ہے کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ فل کورٹ کامطلب سارے ججز ہیں، اپنے بہن بھائیوں کوکیوں نہ بٹھائیں۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کوئی اوربہن سپریم کورٹ کی جج نہیں بینچ میں موجود دو بہنیں ہی جج ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ وکیل بتادیں کہ اس کیس میں ہماراذاتی کاز کیا ہے۔منیر ملک کاکہنا تھا کہ قانون کابنیادی اصول ہے کہ کوئی شخص اپنے مقصد کاجج نہیں ہوسکتا، دوسرااصول یہ ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیئے بلکہ ہوتا ہوانظر بھی آنا چاہیئے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل کامنیر ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہاں پررک جائیں،اب آپ کوبتانا ہوگا کہ اس کیس میں ہمارا ذاقی کیامقصد ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس کامطلب یہ ہے کہ ہم آٹھ جج بھی نہ بیٹھیں اوربعد والے بھی نہ بیٹھیں، صرف8کو آپ کے کیس میں بٹھادیتے ہیں وہ پوراسن لیں گے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر 26ویں ترمیم کے بعد جج بننے والے جج بننے سے انکارکرتے ہیں توپھر انہیں اوریہاں تک ان کے چیف جسٹسز کو بھی ریٹائرمنٹ لینی پڑے گی اور جوڈیشل کمیشن نے کہا کہ آئین کے مطابق وہ سفارشات ماننے کے پابند ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ یہ کیس کافیصلہ ہونے کے بعد ہوگا کہ 26ویں ترمیم کے تحت بھرتی ہونے والے ججز سپریم کورٹ میں رہیں گے یاواپس جائیں گے۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ان کی چوائس نہیں تھی کہ آئین کے تحت جج نہ بنتے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن پر جائیں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ توپھر کیسے چیف جسٹس بینچ کی سربراہی کرسکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس کون ہوگا، کیا 26ویں ترمیم کے تحت نامزد چیف جسٹس بینچ کی سربراہی کریں گے۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ آئینی بینچ کے حکم کے تحت موجود ہ چیف جسٹس بینچ کی سربراہی کرسکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس کامطلب ہے کہ ہم 26ویں ترمیم کوختم کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ بتادیں کہ کس جج کاکیا مفاد ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آئینی طور پرسپریم کورٹ میں آیا ہواجج واپس چلاگیا ہو، میں پی سی اوکی بات نہیں کررہا۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم پی سی او سے مختلف نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہمارا کیامفاد ہے، ہم نے گالیاں بھی بہت کھائی ہیں،جو مرضی ہوتا رہے، بلاخوف وخطر کام کرنا ہمارے حلف کاحصہ ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ تنخواہ اور مراعات سب کی ایک ہیں۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے بعد بھرتی ہونے والے ججز کوبھی اس ادارے کی بالادستی ، عوام میں اس کے تاثر اور جو سگنلز یہ بھیجتا ہے اس کاخیال ہونا چاہیئے ۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل کامنیر ملک کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کامطلب ہے کہ آپ کو اس بینچ پر اعتماد نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس وقت ہم سپریم کورٹ میں 24ججز ہیں اور سب ججز نے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے 26ویں ترمیم کوتسلیم کرلیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم اپنے حلف کے پابند ہیں۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بینچ حکم دے کہ تمام ججز آئینی ججز ہیں اور آئینی بینچ کاحصہ ہیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کامنیر ملک کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ اس کوتسلیم کرلیں گے۔ منیر ملک کاکہنا تھا کہ اگرجج فیصلے کے زریعہ کہتا ہے کہ کوئی جج باہر نہیں توپھر میں آج تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر تمام ججز کوآئینی بینچ میں شامل کرلیا جائے توکیایہ سب درخواست گزاروں کوقابل قبول ہوگا، پھر کیا یہ ایشونہیں آئے گا کہجوڈیشنل کمیشن تعینات کرنے والی اتھارٹی ہے اورغلط یا درست طور پرایسا کررہا ہے۔منیر ملک کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم سے پہلے موجود تمام ججز کوشامل کریں تومجھے اعتراض نہیں۔ منیر احمد ملک کے دلائل کے بعد پاکستان بار کونسل کے 6ارکان کے وکیل عابدشاہد زبیری دلائل دینے آئے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاعابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ججز پراعتراض کئے بغیر راستہ بتائیں۔ عابد زبیری کاکہنا تھا کہ بینچ کے سربراہ آئینی اوریگولر بیچز دونوں کے رکن ہیں۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاعابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آئینی ترمیم سے قبل یا بعد والے ججز سمیت سب کوفل کورٹ کہہ رہے ہیں۔ عابد زبیری کے دلائل جاری تھے کہ بینچ نے کیس کی مزید سماعت سوموار 13اکتوبر تک ملتوی کردی۔ ZS

#/S