1. اصل بات یہ ہے کہ اصل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد سارے مسئلے پیداہوئے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
  2. توہین رسالت ۖقانون کا غلط استعمال شروع ہوگیا تھا، غلط استعمال روکنے کیلئے ایس پی لیول کے افسر کو تفتیش سونپی گئی،
     اگر ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جسٹس امین الدین خان
    قانون کو اس کے غلط استعمال پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، سربراہ آئینی بینچ کے دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ اگر قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے تواس کی بنیاد پراسے کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، توہین رسالت ۖقانون کا غلط استعمال شروع ہوگیا تھا، غلط استعمال روکنے کیلئے ایس پی لیول کے افسر کو تفتیش سونپی گئی، اگر ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ اصل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد سارے مسئلے پیداہوئے ہیں،، صدر نے 1967میں انفرادی طور پر آرڈیننس جاری کیااور قانون میں ترمیم کی۔ کیا کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟ فتوے دینے والے وہیں رہتے ہیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ بھارت میں کورٹ مارشل پاکستان کی طرح ہی ہے صرف اپیل کاحق دیا گیا ہے، بہت سے جرائم کورٹ مارشل میں آتے ہیں۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہمارے کچھ دشمن ملک ہیں جو سویلینز کو استعمال کرتے ہیں، اگرآرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیں گے تو پھر ایسے میں تو ملک دشمن ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والوں کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، ان کاٹرائل کہاں ہوگا۔جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ضیاء الحق خود ہی ایف بی علی کیس میں جج تھے اور بعد میں خود ہی معاف کردیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ ضیا الحق نے بعد میں ایف بی علی سے خود معافی مانگی ہو کہ میں نے غلط کیا تھا۔جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایف بی علی کیس کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر 38نظرثانی درخواستوں پرسماعت کی۔جنیدرزاق اوردیگر کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مئوقف اپنایا کہ ایف بی علی کیس 1962 کے آئین کے مطابق فیصلہ ہوا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایف بی علی کیس اس حد تک محدود تھا کہ وفاقی حکومت قانون سازی کرسکتی ہے کہ نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ کوئی شخص جو فوج کا حصہ نہ ہو صرف جرم کی بنیاد پر فوجی عدالت کے زمرے میں آ سکتا ہے؟کس کاٹرائل ہوسکتا ہے اور کون ٹرائل کرسکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک شخص جرم کرتا ہے توکیا وہ جرم کی بنیاد پرایکٹ کے تحت آسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیوں ایف بی علی کیس میں آرمی ایکٹ کوبرقراررکھا گیا تھا۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کیاایف بی علی سروس میں تھا۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا نہیں۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میںسپریم کورٹ نے قراردیا کہ سویلینز کاٹرائل ہوسکتا ہے تاہم انہیں بنیادی حقوق حاصل ہوں گے تاہم مسلح افوا ج کے حاضر سروس اہلکاروں کوبنیادی حقوق حاصل نہیں ہوں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ایف بی علی خود بھی ایک سویلین ہی تھے، ان کا کورٹ مارشل کیسے ہوا؟جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 8-3کے تحت ایکٹ بنایا گیا اور مسلح افواج کے اہلکاروں سے بنیادی حقوق واپس لیئے گئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر کوئی اہلکار ڈیوٹی پر نہ ہوتے ہوئے کوئی جرم کرتا ہے توکیااس کو اہلکار تصورکیا جائے گایا سویلین۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ یہ کمانڈنگ آفیسر کااختیار ہے کہ وہ اہلکار کافوجی ٹرائل کرے یا اس کا کیس سویلین عدالت بھیجے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا کسی شخص کا اس کے اقدام یا مرتبہ کی وجہ سے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ اصل آرمی ایکٹ میںترمیم کے بعد سارے مسئلے پیداہوئے ہیں، صدر نے 1967میں انفرادی طور پر آرڈیننس جاری کیااور قانون میں ترمیم کی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ایف بی علی کیس کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی ضروری ہے، عدالت نے قرار دیا تھا کہ ٹرائل میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، ایف بی علی کیس میں آرمی ایکٹ کی شق ٹو ڈی ، ون پر بات ہوئی، ایف بی علی کیس میں کہا گیا صدارتی آرڈیننس کے زریعے لایا گیا آرمی ایکٹ درست ہے، یہ بھی کہا گیا بنیادی حقوق کے تحت ریویو کیا جاسکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایف بی علی کیس میں گٹھ جوڑ کی کیا تعریف کی گئی۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ملک کے دفاع اور کسی اہلکار کوبہکانے کے حوالہ سے گٹھ جوڑہونا چاہیئے، یہاں ایف بی علی کیس کو ایسے پڑھا گیا جس سے الگ عدالت قائم کرنے کی اجازت دینے کا تاثر قائم ہوا۔جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ آج 2-1-d-2لاگو ہورہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کا سلمان اکرم راجہ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مرکزی فیصلے کیخلاف دلائل دے رہے ہیں۔اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کا بھی فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ اپیل ڈگری کے خلاف دائر کی جاتی ہے، وجوہات کیخلاف اپیل دائر نہیں ہوتی، عدالت آپریٹو پارٹ برقرار رکھتے ہوئے وجوہات تبدیل کر سکتی ہے، عدالت ایسا آئے روز کرتی رہتی ہے۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ بینچ کے سامنے آئین کے آرٹیکلز10-Aاور175کا معاملہ زیرغور ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ1968 میں آرڈیننس آیا، آرڈیننس کے تحت بلوچستان تحصیلدار کو عدالت کے اختیارات دیئے گئے، عزیز اللہ میمن کیس میں معاملہ چیلنج ہوا تو عدالت عظمی نے اسے ختم کیا، 1973 کے آئین کے بعد بھی 14 سال تک سلسلہ چلتا رہا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 1987 میں جب آرٹیکل 175کی شق 3آئی تو قانون بدل گیا، اگر عدالت جسٹس عائشہ اے ملک کا آرٹیکل 10 اے کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو ہماری جیت ہے، اگر یہ کہا جاتا ہے کہ آرٹیکل 175کی شق تین سے باہر عدالت قائم نہیں ہو سکتی تب بھی ہماری جیت ہے، عجیب بات ہے بریگیڈیئر( ریٹائرڈ )ایف بی علی کو ضیا الحق نے ملٹری عدالت سے سزا دی، پھر وہی ضیا الحق جب آرمی چیف بنے تو ایف بی علی کی سزا ختم کردی۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 10-Aاور175کواکٹھا پڑھاجائے یا الگ، الگ پڑھا جائے تو بھی 2-1-d-1-2برقرارنہیں رہ سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہو سکتا ہے ضیا الحق نے بعد سوچا ہو پہلے وہ غلط تھا، ضیاء الحق نے 1977میں خود کام کرکے ایف بی علی کومعاف کردیا۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ فرخ بخت علی نے بعد میں جاکرکینیڈا میں سیکورٹی کی نوکری کرلی۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ضیاء الحق خود ہی ایف بی علی کیس میں جج تھے اور بعد میں خود ہی معاف کردیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ ضیا الحق نے بعد میں ایف بی علی سے خود معافی مانگی ہو کہ میں نے غلط کیا تھا۔سلمان راجہ کہاکہنا تھا کہ 1962 کا آئین تو شروع ہی یہاں سے ہوتا ہے میں فیلڈ مارشل ایوب خان خود کو اختیارات سونپ رہا ہوں، اس دور میں آرٹیکل چھپوائے گئے، فتوے دیے گئے کہ اسلام میں بنیادی حقوق نہیں ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ فتوے دینے والے وہیں رہتے ہیں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ سلمان راجہ کا کہنا تھا کہ اسی لیے ایوب خان کے دور میں حبیب جالب نے نظم لکھی میں نہیں مانتا، ایسے دستور کو، تحریک چلنے کے ڈیڑھ سال بعد بنیادی حقوق کوتسلیم کیا گیا۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ 1977-80 کے دوران بلوچستان ہائیکورٹ نے مارشل لاء میں سزائیں پانے والوں کو ضمانتیں دینا شروع کیں،اور ذولفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صمدانی نے ضمانت دی تھی، ہر 10-8 سال بعد عدلیہ کا تابع لانے کی کوشش ہوتی ہے، پیپلز پارٹی کی رجسڑیشن کیلئے ایک قانون لایا گیا تھا، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا گیا قانون ختم ہوا، عدلیہ کسی بھی وقت قانون کا بینادی حقوق کے تناظر میں جائزہ لے سکتی ہے۔جسٹس امین الدین کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ اپنے ہی دلائل سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آپ نے صیح قانون بنانا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم ایک فیصلے کے خلاف اپیل سن رہے ہیں۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آپ نے درست قانون بنانا ہے اور آئین کی درست تشریح کرنی ہے، اپیل میں بھی بینچ کے پاس آئین کے آرٹیکل 184-3کادائرہ اختیارموجود ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم بھی توانسان ہیں، ہم اپنی غلطیوں کی تصیح کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد عدالتی وقفہ کردیا گیا۔ وقفہ کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس نعیم اخترافغان کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ایک سزایافتہ ملزم کی نمائندگی کررہے ہیں، کیا قانون کے خلاف دلائل دے رہے ہیں یا اپنے مئوکل کے بنیادی حقوق کاتحفظ چاہتے ہیں۔ اس پرسلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میں دونوں چاہتا ہوں، قانون کالعدم قراردیا جائے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ پرسن کی جیسے مرضی تعریف کرتے رہیں ، پہلے ایک ریٹائرڈ افسر کامعاملہ تھا اب سب سویلینز ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا سویلینز میں اورمیں شامل ہیں یا ریٹائرڈ فوجی اہلکارآتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو ایم این اے بنائے پھر اسمبلی میں جاکربل پیش کردینا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا اس اپیل میں ہم آرٹیکل 187 کے اختیار استعمال کرسکتے ہیں ؟اس پر سلمان اکرم راجہ نے استدلال کیا کہ آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کا اختیار تو عدالت کے پاس ہمیشہ رہتا ہے۔ جسٹس امین الدین کا کہناتھا کہ شروع میں اپ نے ہی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض کیا تھا شکر ہے اب بڑھا دیا۔اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدالتی دائرہ اختیار ہمیشہ وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔جسٹس محمد علی مظہرکا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب سویلین،مسلح اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کرے، کیا آرٹیکل 10 اے صرف سویلین کی حد تک ہے، یا اسکا اطلاق ملٹری پرسنل پر بھی ہوتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب تک ہم آرمی ایکٹ کی بنیاد نہیں سمجھیں گے ہم باتیں کرتے رہیں گے، سول ملازمین کو مس کنڈکٹ پر سزادی جاتی ہے اوران کے جرم کامعاملہ اینٹی کرپشن عدالت میں بھیجا جاتاہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ صرف اپنے کیس تک محدود رہیں، ہم باقی سوالات کسی اور کیس میں جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آرٹیکل 175 کی شق تین کا فائدہ سویلین اور آرمڈ فورسز دونوں کو دینا ہوگا۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہناتھا کہ ہمارے کچھ دشمن ملک ہیں جو سویلینز کو استعمال کرتے ہیں، اگرآرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دیں گے تو پھر ایسے میں تو ملک دشمن ایجنسیوں کیلئے کام کرنے والوں کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا، ان کاٹرائل کہاں ہوگا۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ پاکستان میں کیا پروسیجر اپنایا گیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ بھارت میں کورٹ مارشل پاکستان کی طرح ہی ہے صرف اپیل کاحق دیا گیا ہے، بہت سے جرائم کورٹ مارشل میں آتے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کورٹ مارشل ہوجاتا ہے پھر اپیل کہاںجاتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آرمی چیف کواپیل جاتی ہے، کورٹ آف اپیل میں آرمی چیف یا ان کے نامزدکردہ ایک یازیادہ افسران ہوتے ہیں، اگراسلامی قانون کے تحت سزادی جائے گی تواپیل میں مسلمان افسران ہی ہوں گے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ نے کہا کہ میں بھارتی آرمی ایکٹ اور پاکستان کے آرمی ایکٹ کا تقابلی جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں، ایسا نہیں ہو سکتا ایک ایس ایچ او خود عدالت لگا لے، اپیل ایس پی سنے اور توثیق آئی جی کرے، بھارت میں ملٹری ٹرائل کیخلاف اپیل ٹربیونل میں جاتی ہے، ٹربیونل اپیل میں ضمانت بھی دے سکتا ہے، شفاف ٹرائل کا حق ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ کیا بھارت کے آرمی ایکٹ میں ون ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو ہے۔اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ یہ شقیں بھارت میں نہیں ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اگر یہ شقیں ہی نہیں ہیں تو آپ تقابلی جائزہ کیسے لے سکتے ہیں، ہمارا قانون الگ ہے، بھارت کا قانون الگ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ سویلین اور ملٹری پرسنلز دونوں پاکستان کے شہری ہیں، کیا دہشتگردی جیسے سنگین جرم پر بھی کسی کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا اپیل بنیادی حق ہے۔اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ آرمی چیف الزام لگاتا ہے پھر کورٹ مارشل کنوین کرتا ہے ، جج ایڈوکیٹ جنرل سبھی انہی کے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ فیئر ٹرائل میں آزاد جج بھی شامل ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 1967میں جاری آرڈیننس کے حوالہ سے کہیں فیصلہ نہیں ہواکہ یہ غلط تھا یادرست تھا۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ مجھ پر26نومبر 2024کومیرے خلاف کاٹی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سلمان اکرم راجہ نے 3رینجرز اہلکاروں کوگاڑی کے نیچے دے کرشہید کرنے کی منصوبہ بندی کی، یہ قانون ان کے لئے ہے جن کوسرکارگرفتار کرنا چاہتی ہے، 7فروری کومجھے گرفتارکیا جاسکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ آپ ٹی وی پربولنا چھوڑ دو آپ کاکیس تو فوجی عدالت بھجوایا جارہا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ افواج میں ڈسپلن قائم کرنے کے لئے قانون بنایا گیا تھا۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کسی صورت ممکن نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے تواس کی بنیاد پراسے کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، توہین رسالت ۖقانون کا غلط استعمال شروع ہوگیا تھا، غلط استعمال روکنے کیلئے ایس پی لیول کے افسر کو تفتیش سونپی گئی، اگر ایک جرم فوجی کرے اور وہی جرم عام آدمی کرے تو ٹرائل الگ جگہ کیسے ہوسکتا ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جن لوگوں نے فوج جوائن کرکے بنیادی حقوق سرنڈر کیے ان دوسروں سے نہیں ملایا جا سکتا، الزام کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو ٹرائل آزاد فورم پر ہی ہو سکتا ہے۔سلمان اکرم راجہ نے مئوقف اپنایا کہ میرے مئوکل ارزم جنید کو فوجی عدالت سے چھ سال سزا دی گئی، میرا مئوکل ارزم لاہور کا فرسٹ کلاس کرکٹر ہے، فوجی تحویل میں میرے موکل کیساتھ غیرانسانی سلوک کیا گیا، تفصیلات کھلی عدالت میں بتائیں تو لگے گا ڈراماٹائز کر رہا ہوں، فوجی عدالت میں اپیل آرمی چیف کے پاس جاتی ہے جس کے حکم پر ہی کورٹ مارشل کیا جاتا، سیشن جج کے حکم پر تو فوجی عدالت میں وکالت نامہ دستخط کروایا گیا،میرے مئوکل کو فوجی تحویل دینے کے حوالہ سے کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ جس نے ٹرائل شروع کیاہوتا ہے اسی کے سامنے اپیل جاتی ہے کیا یہ ڈیو پراسیس ہے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میں ابھی شرف آفریدی، محر م علی، ریاض الحق سمیت پانچ، چھ فیصلوں کے حوالہ سے دلائل دوں گا۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں پر سوموار 10فروری تک سماعت ملتوی کردی۔ سلمان اکرم راجہ سوموار کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ZS